محمد اعظم شاہد
ہمارے ملک کے سکیولر کردار کو پچھے چند برسوں سے کمزوراور داغدار کرنے کی مذموم کوششیں ہورہی ہیں ، علاحدگی پسند اوربنیاد پرست فاشسٹ عناصر کھلے عام شرپسندی کرنے پر تلے ہوئے ہیں -فرقہ پرستی کے حوصلے بلند عین اس وقت سے شروع ہوئے ہیں جب ایک خاص ذہنیت ملک کو اپنے زعفرانی رنگ میں رنگنے کے خواب دیکھنے لگی ہے -تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کا حجاب پہننا کوئی مسئلہ نہیں تھا- کیونکہ ملک کے دستور کے مطابق سب کے ساتھ مساوی حیثیت سے سب کو زندگی گزارنے کا حق ہے – دستورکی دفعہ 25 مذہبی آزادی اور اپنے عقائد اور رہن سہن کی پاسداری کا حق دیتی ہے -مگر جب سے مسلمانوں کے خلاف نفرتیں بھڑکائی جانے لگیں تب سے مسلمانوں کو منصوبہ بند سازشوں کے تحت نشانہ بنایا جاتا رہا ہے – مسلم لڑکیوں کا حجاب پہننا نہ کوئی مسئلہ تھا اور نہ ہی تنازعہ- گذشتہ برسوں میں ملک کی چند ریاستوں میں حجاب پر مسئلہ کھڑا کیا گیا – مذہبی آزادی پر سوال اٹھائے گئے – عدالتوں کے فیصلوں کے بعد معاملہ رفع دفع ہواتھا- کرناٹک کے ساحلی علاقے میں پچھلے چند ہفتوں سے کالجوں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر تنازعہ کھڑا کیاگیا ہے – اوریہ تنازعہ کم وبیش پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے -ایک طرح سے مسلم معاشرے میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت پیدا کرنے کی مفاد پرستوں نے سازشیں رچی ہیں – یہ معاملہ محض اسکولوں اورکالجوں میں ’’فن یونی فارم‘‘ کا نہیں ہے – یہ دراصل اس سوچ کا ہے کہ کچھ اپنے لباس سے جانے جاتے ہیں -اور’’وہ کیا کرتے ہیں ،کیا کھاتے ہیں، کیا بولتے ہیں-‘‘ جب ایسا کھلے عام بیان دیا جاتا رہا تو مسلمانوں کے خلاف غلط بیانی کا سلسلہ دراز ہوتا گیا – حجاب پہننا جہاں دستوری حق ہے اس حق کو پامال کرنے کی سازش میں سارا مسئلہ کھڑا کیا گیا ہے -یہ تنازعہ ’’عدم رواداری کی سیاست‘‘ {Polifics of intolesance کا نتیجہ ہے -جبکہ اس ملک کی شاندار روایات کی روح ہی مذہبی رواداری رہی ہے -اس روشن روایت کو مسخ کرنے کی ناپاک کوششوں سے مذہب کے نام پر سیاست کا کھیل رچا جارہا ہے –
مسلمانوں کو ملک کا دشمن تصور کرنے والے احمقوں کو مسلمانوں میں بالخصوص مسلم لڑکیوں کی تعلیمی پیش رفت کھٹکنے لگی ہے -کچھ ایسے بنیاد پرست عناصر حجاب تنازعہ کے پیچھے کام کررہے ہیں -تبھی تو اچانک غیر متوقع طورپر مسلم لڑکیوں کاحجاب کے ساتھ سرکاری کالجوں میں داخلہ روک دیا گیا – یونی فارم کے ساتھ کلاس میں بیٹھنے کہا جارہا ہے جبکہ مسلم طالبات مذکورہ کالجوں کے یونی فارم میں ہی ہیں -اورساتھ میں اپنے سروں کو حجاب سے ڈھک لیا ہے -جب مسلم طالبات نے احتجاج کا رخ کیا اور اپنے دستوری حق کی دہائی دی تو کالجوں میں طلبہ کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا اورنفرت عام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں -حجاب کی مخالفت میں ہندو لڑکے اور لڑکیاں زعفرانی شال کے ساتھ باغیانہ ماحول پھیلانے لگے – ویسے تعلیمی ادارے اسکول ہویا کالج طلبہ میں صالح زندگی کے رہنما اقدار کی تعلیم عام کرنے کے مراکز ہوا کرتے ہیں جہاں ایک دوسرے کے تئیں عزت واحترام اوررواداری کا درس دیا جاتا ہے – ایسے اداروں میں اب کھلے عام نوجوان ذہنوں میں مذہبی منافرت کے بیج بوئے جارہے ہیں -مسلم طالبات کو سرکاری تعلیمی اداروں میں حجاب کے نام پر ہراساں کرنا قابل مذمت ہے ہی- ملک بھر میں حکومت کرناٹک کی اس مسئلہ کی فوری یکسوئی میں ناکامی پر فکرجتائی جارہی ہے – خواتین کے حقوق کی تنظیمیں احتجاج کررہی ہیں کہ حجاب مذہبی آزادی اورعقیدہ کا حصہ ہے – ’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘ یہ نعرہ ملک کی تمام بیٹیوں کے لئے – اس میں مذہبی تفریق کو دخل نہیں ہوناچاہئے-طلبہ کو ہندومسلم کی تفریق میں بانٹا جارہا ہے -جب متعصب رویہ کا سامنا ہوا تب مسلم طالبات نے دستوری حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کی تو شرپسند عناصرکو برداشت نہیں ہوپایا- وہ ہم جماعتوں میں Classnates میں مذہبی نفرت کو بھڑکایا رہے ہیں -مسلمانوں کو ’’غیر‘‘ کا لیبل لگانے کی کارستانیاں کی جارہی ہیں -حجاب کو لے کر اپنے حقوق کی بحالی کے لئے چند مسلم طالبات نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو کرناٹک کی ریاستی حکومت نے عدالت کے فیصلے سے قبل ہی عجلت میں کالجوں میں یونیفارم لازمی کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا -صاف ظاہر ہے کہ حکومت کس ایجنڈے کے تحت کام کررہی ہے ، اس دوران کرناٹک میں چند ایسے بے لگام عوامی نمائندے ہیں جو اپنی زہر افشانی کے لئے جانے جاتے ہیں – اشتعال انگیزی کی حد ہوگئی کہ ایک نے حجاب پہننے والوں اور اردو بولنے والوں کو پاکستان چلے جانے کا اعلان کردیا اورکسی نے بے تکے پن کی انتہا کردی یہ کہتے ہوئے کہ تقسیم کے دوران ملک چھوڑ جانے کے بجائے یہاں کیونکر مسلمان رہ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ-خیر جتنے منہ اتنی باتیں –
حجاب کے مسئلہ کو لے کر کرناٹک میں ماحول کو خراب کرنے کے جتن کئے جارہے ہیں -نوجوان طلبہ جنہیں صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے -ان نوجوانوں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرکے علاحدہ پسند عناصر مسلمانوں کو سیاسی ،سماجی، معاشرتی اور تعلیمی طورپر کمزورکرنے کی منصوبہ بند سازشیں ہورہی ہیں – حالات کی نزاکت یہی ہے کہ صبروتحمل کے ساتھ مسلمان اپنے حقوق کے حصول کے لئے کمربستہ رہیں -شرپسندوں کو نئے شرپھیلانے کا موقع نہ ملے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے -حجاب پر کھڑے کئے گئے تنازعہ پر عدالت (کرناٹک ہائی کورٹ) کے فیصلے پر سب کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں