سرحدی آبادی کی ترقی میں نا مکمل سڑک ایک بڑی رکاوٹ

0
56

 

مشتاق احمد ملک
لوہل بیلہ، منڈی، پونچھ
ہند وپاک کے سرحدی خطہ جموں کے سرحدی ضلع پو نچھ میں بنیادی سہولتوں کی کمی کا مسئلہ طویل عرصے سے لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے۔ ان مسائل میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ علاقے میں سڑکوں کی عدم موجودگی ہے۔ سرحدی علاقے کے لوگ سالوں سے ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک اچھی سڑک کی امید میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پو نچھ کے علاقے میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں تک رسائی میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہسپتال پہنچنے کے لیے بھی لوگوں کو پہاڑی راستوں اور پیدل سفر کا سہارا لینا پڑتا ہے، جس کے باعث مریضوں کی حالت بگڑ جاتی ہے اور ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ بچوں کو بھی اسکول جانے میں دشواری ہوتی ہے، اور اکثر بچے تعلیمی مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اس علاقے کے اکثر لوگ زراعت اور مال مویشی پالنے سے اپنی روزی کماتے ہیں۔ مگر سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مصنوعات اور پیداوار کو مارکیٹ تک پہنچانے میں دشواری ہوتی ہے، جس سے وہ مناسب قیمت حاصل نہیں کر پاتے۔ اس سے ان کی آمدنی کم ہوتی ہے اور ان کی مالی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک سوجیاں جو لائین آف کنٹرول سے تقریباً 5 سے 6 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، بلاک سوجیاں کی پنچایت چھمبر کناری کے باشندگان آج کے اس جدید دور میں بھی سڑک سے محروم ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی محمد اشرف لون جن کی عمر 28 سال ہے، انہوں نے بتایا کے ہماری سڑک کا کام پانچ سو میٹر تک چلا،لیکن بعد میں اس کام کو بند کر دیا گیا۔
سال 2020 میں دوبارہ دوسری جگہ جس کا نام دتی گلہ ہے جو منڈی سے سوجیاں جانے والی سڑک پر پڑتا ہے شروع کروایا گیا مگر چار برسوں میں محض تین کلومیٹر سڑک تیار کی گئی ہے۔ لیکن ابھی تک یہ سڑک پنچایت چھمبر کناری کے کسی بھی وارڈ تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ محمد اشرف لون کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ پسماندہ اور پہاڑی علاقے کے ہیں یہاں کے لوگ بہت ہی غریب ہیں اس علاقے کے اندر کسی بھی قسم کا روزگار میسر نہیں ہے جس سے یہاں کے لوگ اپنا گھر چلا سکیں اس پنچایت کے زیادہ تر مرد باہر کی ریاستوں جیسے ہماچل پردیش، اترا کھنڈ، دہلی، پنجاب، وغیرہ جیسی ریاستوں میں کام کرنے کے لیے جاتے ہیں پنچایت کے ہر گھر میں ایک ایک مرد وہ بھی بزرگ اور باقی عورتیں ہی رہتی ہیں۔سڑک نہ ہونے کی وجہ سے اور پنچایتی راستے خراب اور تہس نہس ہونے کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ قدیم زمانے کی طرح اپنے کندھوں پر گھریلو ضروری اشیاء پیدل چل کر کے میلوں دور سے لاتے ہیں۔یہاں پر بہت زیادہ برف باری اور بارشیں ہوتی ہیں جب یہاں بارشیں ہوتی ہیں یہاں کے راستے بہہ جانے کی وجہ سے خراب اور خستہ حال ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے ان راستوں پرچلنا ممکن نہیں۔ اگر کوئی شخص بیمار ہو جاتا ہے تو پوری پنچایت کے اندر علان کر وا کر، گاؤں والوں کو اکٹھا کر کے اس مریض کو سڑک تک پہنچایا جاتا ہے سڑک اور راستے نہ ہونے کی وجہ سے اس کو ہسپتال تک لے جانے میں بہت وقت لگتا ہے اس وجہ سے کئی مریضوں کی راستے میں ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اپنے گھروں سے نیچے سڑک تک جانے اور واپس آنے میں 4 سے 5 گھنٹے لگ جاتے ہیں محمد اشرف لون کا کہنا ہے کہ میری ڈپٹی کمشنر پونچھ اور موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ ہماری سڑک کا کام جلدی سے پورا کروایا جائے تا کہ یہاں کے لوگ بھی راحت کی زندگی گزار سکیں۔
 اسی حوالے سے مقامی سابق سرپنچ الطاف حسین نائیک جن کی عمر 45 سال ہے، انہوں نے بتایا کہ 75 سالوں سے اس گاؤں کے اندر کس بھی قسم کی ترقی نہیں ہوئی ہے آزادی کے بعد سے لیکر آج تک کس بھی سرکار نے اس پنچایت کی طرف توجہ نہیں دی کوئی بھی عوامی نمائندہ یا ضلع انتظامیہ کا آفیسر یا دیگر ملازمین میں سے کوئی بھی اس پنچایت کی خستہ حالت کو دیکھنے کیلئے آج تک نہیں آیا۔ پنچایت کے ایسے تمام بنیادی مسائل کو انتظامیہ تک خود بھی اور سوشل میڈیا ہو یا خبریں ایسے تمام طریقے اپناکر ہم نے ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور سرکار تک پہنچایا ہے لیکن اس پر ابھی تک کوئی بھی توجہ نہیں دی گئی یہاں کے لوگ غریب اور پسماندہ ہیں اس پنچایت کے تحت کل 9 وارڈ ہیں جن کو سڑکیں آج تک  پنچایت کے کسی بھی وارڈ تک نہیں پہنچ سکیں۔ یہ علاقہ ماؤنٹ ایورسٹ کی طرح اونچا ہے پچھلے سال یہاں کا ایک نوجوان شام کو اپنی دکان سے واپس آ رہا تھا توتاریکی کی وجہ سے اُسکا پاؤں پھسل گیا اور وہ گہری کھائی میں جا گرا، جہاں اُسکی موت واقع ہو گئی۔ اس سلسلے میں مقامی نمبردار خلیل احمد جن کی عمر 50 سال ہے انہوں نے بتایا کے یہاں کے لوگوں کو سڑک نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس پنچایت کے تمام وارڈوں کے طالب علموں کو دور دراز علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے میلوں پیدل چل کرا سکولوں تک پہنچناپڑتا ہے۔ ان گاؤں کے اندر جب کوئی سخت بیمار ہو جاتا ہے تو اسے سارے گاؤں والے پرانے زمانے کی طرح مریض کو چارپائی پر لٹا کر سڑک تک پہنچایا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈلیوری کیس کو بھی یہاں کے لوگ اکٹھے ہو کر اپنے کندھوں پر اٹھا کر 5 سے 6 کلو میٹر پیدل سفر کر کے سڑک تک پہنچاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ سڑک جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں جن جن گاؤں کے اندر سڑکیں ہیں وہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔لیکن یہاں کے لوگ قدیم طرزِ زندگی بسر کر رہے ہیں سڑک بنیادی سہولیات میں سے ایک اہم سہولت ہے سڑک سے ہی گاؤں کی ترقی ہوتی ہے۔ نمبر دار خلیل احمد لون کا مطالبہ ہے کہ سڑک کا کام جلدی پورا کروایا جائے تا کہ مقامی لوگوں کی مشکلات دور ہو سکیں۔
 بہرحال مقامی لوگوں کو یقین ہے کہ انہیں جلدسڑک کی سہولت فراہم کرائی جائے گی، مگر ابھی تک ان کی آوازیں سنی نہیں گئی۔
حالانکہ سرحدی علاقوں کی ترقی میں سڑکیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ پو نچھ میں سڑکوں کا جال بچھا کر لوگوں کوان کی بنیادی سہولتوں سے جوڑا جائے۔سرحدی علاقے پو نچھ میں سڑکوں کی عدم دستیابی سے عوام کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے حکومت کو فوری طور پر اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے تاکہ یہ لوگ بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح بنیادی سہولتوں سے استفادہ کر سکیں اور ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا