بےنام گیلانی
عہد حاضر میں وطن عزیز کی سیاست بالکل ہی بے یقینی اور بےراہ روی کی شکار ہے۔حکومتیں مستحکم و مضبوط تشکیل نہیں پاتی ہیں ۔اہل سیاست کی وفاداریاں نمک سے بھی زیادہ ارزاں ہو چکی ہیں۔یہاں کس کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔موجودہ سیاست میں ضمیر و ظرف اور اصول و ضوابط سب کے سب بےمعنی ہو کر رہ گئے ہیں۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Violence_against_Muslims_in_independent_India
اگر ایماندارانہ طور پر کچھ باقی ہے تو وہ صرف اور صرف ذاتی مفاد ہے۔ایسے میں عوام کیا کریں ۔یہ امر خود ان کی فہم سے پرے ہے ۔یہ بھولے بھالے عوام جو رائے دہی کرتے ہیں وہ تو بہت ہی سوچ سمجھ کر کرتے ہیں کہ کس سیاسی جماعت کے حق میں رائے دہی کرنی ہے۔یا پھر کس سیاست داں کے حق میں کرنی ہے۔یا پھر کس کی مخالفت کرنی ہے۔کون سی سیاسی جماعت معاشرے میں اتحاد و اتفاق قائم رکھ سکتی ہے۔جس سے صوبہ یا ملک کو استحکام و استقلال و فروغ حاصل ہو۔لیکن عوام کی فہم اور ساری منصوبہ بندی تب دھری کی دھری رہ جاتی ہے جب وہی سیاست دان محض اپنے معمولی ذاتی مفاد کے لئے سیاسی وفاداری بدل لیتا ہے اور اسی جماعت سے اتحاد قائم کر لیتا ہے ۔جس کی مخالفت میں اس نے رائے دہی کی تھی ۔سیاست دانوں کے اس رویے سے رائے دہندے خود کو ٹھگے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ان کے سارے ارادوں اور منصوبوں پر پانی پھر جاتا ہے اور وہ رائے دہندے مایوسیوں کے شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ان کے حوصلے جواب دے جاتے ہیں اور ان کی ساری صلاحیت بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔
یوں تو کل ہند پیمانے پر سیاست اور اہل سیاست کا یہی عالم ہے۔کسی بھی ریاست کی کسی بھی سیاسی جماعت یا اہل سیاست پر ذاتی طور پر انگشت نمائی نہیں کی جا سکتی ہے ۔لیکن ریاست بہار میں نتش کمار پر عوام کو بہت بھروسہ تھا۔خاص طور سے مسلم رائے دہندوں کو یہ کامل یقین تھا کہ آپ مسلمانوں کی پشت پر خنجر زنی نہیں کر سکتے ہیں۔ آپ موصوف کے ماضی کے کردار کو یاد کر کے اس یقین و اعتماد کو مزید تقویت حاصل ہو جاتی ہے۔لیکن مزاج یار جو چاہے۔فی زمانہ مشاہدے میں جو آرہا ہے ۔وہ یہ ہے کہ قبل کے نتش کمار سے موجودہ نتش کمار صرف جدا ہی نہیں بلکہ بالکل برعکس ہیں ۔قبل کے نتش کمار کو بی جے پی کبھی جھکا نہیں پائی۔حالانکہ کوششیں بہت کی گئیں۔ان پر ہر چہار جانب سے حملے ہوئے۔کس کس قسم کی مخالفت عمل پزیر نہیں ہوئی۔کیسے کیسے بیجا الزامات عائد نہیں کئے گئے۔لیکن نتش کمار کے نہ ارادے و عزائم میں ذرہ برابر بھی لرزہ پیدا ہوا اور نہ ہی ان کی جبیں پر کسی قسم کی شکن ابھری۔ آپ غیر متزلزل و مستحکم طور پر اپنے اصول و عزائم پر قائم رہے۔سدا آپ کی نگاہ میں جمہوریت اور سیکولرزم کی عزت و قدر رہی۔ آپ موصوف غیر جانبدار ہو کر عنان اقتدار تھامے رہے۔
گرچہ ایسا بھی کئی دفعہ عمل پزیر ہوا ہے کہ آپ کی سیاسی جماعت کو اکثریت سے بہت ہی کم نشستیں حاصل ہوئیں ۔اس سے سوا یہ کہ آپ نے جس سیاسی جماعت سے اتحاد کیا اس سے بھی کم نشستیں آپ کی جماعت کو حاصل ہوئیں۔لیکن آپ موصوف نے اپنی سیاسی بصیرت ،سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کے بل پر عنان اقتدار اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنے میں کامیاب ہوئے ۔یہی سبب ہے کہ آپ کو سیاست کا بڑا کھلاڑی تسلیم کیا جاتا ہے۔یہ تمام حقائق اپنی جگہ مسلم ۔لیکن امروز آپ میں اور آپ کے خیالات میں بہت تغیر مشاہدے میں آرہا ہے ۔بلا شبہ ریاست بہار کی عنان اقتدار آج بھی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔لیکن مزاج یار میں واضح طور پر تبدیلی مشاہدے میں آرہی ہے ۔پہلی بات تو شریمان یہ ہے کہ فی زمانہ آپ بہت اکھڑے اکھڑے نظر آرہے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے اراکین اسمبلی سے بھی ناخوش نظر آرہے ہیں ۔معلوم نہیں اس میں کیا راز پوشیدہ ہے ۔شاید ضعیفی کے اثرات کے باعث یہ عمل پزیر ہو رہا ہو ۔یا تو اپنے اراکین اسمبلی کی کوئی پوشیدہ اور ناگوار خبر موصول ہوئی ہو۔کیونکہ آپ کی اتحادی جماعت بی جے پی کی نگاہ میں اتحاد و اعتماد اور وفاداری کی کوئی قدر و اہمیت نہ کل رہی اور نہ ہی آج ہے ۔اس نے کبھی کسی سے وفا نہیں نبھائی ۔جس بھی جماعت سے اس نے اتحاد کیا اسی کی پشت پر خنجر زنی کی ۔ایسی خنجر زنی کی کہ وہ جماعت لب مرگ ہی ہو گئی ۔اس امر سے وزیر اعلیٰ بہار شریف شری نتش کمار بھی بخوبی واقف ہیں۔پھر بھی آپ اسی بیوفا جماعت سے اس طرح وفا نبھانے کو کیوں مجبور ہیں۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے بہت سارے شکوک و شبہات ہی نہیں بلکہ کئی اندیشے بھی جنم لیتے ہیں ۔جیسے جنوبی ہند میں تلگو دیشم جماعت کے سربراہ اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ نے اسی بی جے پی کے اقتدار والی مرکزی حکومت کی سازشوں کے باعث جیل کی سیر کر کے واپس لوٹ چکے ہیں۔پھر بھی اسی حکومت کو آج بھی استحکام و استقلال عطا کرنے کو مجبور ہیں۔جبکہ کوئی دوسرا انسان ہوتا تو اس موقع کو غنیمت جان کر کب کا اس مرکزی حکومت کو گرا کر اپنا انتقام لے لیا ہوتا۔جب آپ بادشاہ گر کی حیثیت میں ہیں تو آپ کو جیل بھیجنے والی مرکزی حکومت کو اس طرح استحکام بخشنے کی کون سی مجبوری درپیش آگئی ۔اس کے مشاہدے سے پورا ہندوستان حیران ہے اور اس کا سبب تلاش کر رہا ہے کہ آخر چندر بابو نائڈو ایسا کرنے کو کیوں مجبور ہیں۔ظاہری طور پر تو آپ نے اپنی حمایت کی قیمت وصولنے کا بہت بڑا ڈرامہ کیا کہ مجھے اپنی ریاست کے لئے مخصوص ریاست کا درجہ چاہئے،اپنی ریاست کا دار الحکومت تعمیر کرنے کے لئے پیکیج چاہئے اور فلاں فلاں کام کے لئے اتنی رقم چاہئے۔لیکن متذکرہ بالا مطالبات کو تسلیم کروانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔جبکہ ان کے لئے یہ کام بہت سہل تھا ۔صرف ایک دفعہ یہ کہ دینا تھا کہ اگر میرا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تو میں برسر اقتدار مرکزی حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لوں گا ۔لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ چندر بابو نائڈو ایسا کرنے سے قاصر رہے۔سارے ہندوستان کے باشندوں کو اس امر پر حیرانی و پریشانی ہے کہ آخر چندر بابو نائڈو نے ایسا کیوں نہیں کیا ۔اگر وہ واقعی ایسا کہ دیتے تو ان کے تمام مسائل لمحوں میں حل ہو سکتے تھے ۔ آپ موصوف کی اس خاموشی کے راز سے پردہ گزشتہ دو روز قبل اٹھا ہے کی آپ نے لب کشائی کیوں نہیں کی ۔یا پھر خود کو جیل رسید کروانے والی مرکزی حکومت کے خلاف کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا ۔در اصل آپ تین سو کروڑ سے زائد کی بدعنوانی میں ملوث تھے۔اس بدعنوانی کا مقدمہ ان پر چل رہا تھا۔ایسے میں انہیں یقین تھا کہ مجھے اس مصیبت سے صرف اور صرف وزیر اعظم شری نریندر مودی ہی باہر نکال سکتے ہیں ۔چنانچہ گزشتہ دو روز قبل آپ کو مذکورہ مقدمہ سے نجات حاصل ہو گئی ۔ جب عدلیہ نے آپ کوصاف و شفاف قرار دے دیا ۔لیکن اس بدعنوانی کے مقدمہ سے نجات حاصل ہونے کے باوجود آپ مسلسل توہین و تضحیک گوارہ کئے جا رہے ہیں۔اس کا یہ معنی ہے کہ ابھی بھی مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں آپ کی کوئی کمزور رگ موجود ہے ۔
عین اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بہار شری نتش کمار کی بھی کوئی کمزور رگ مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔شاید یہی سبب ہے کہ آپ موصوف نے بھی اس قدر توہین و تضحیک اور اس قدر غیر اعتنائی کا درد جھیلنے کے باوجود غلامی کی حد تک مرکزی حکومت کی خصوصاً وزیر اعظم ہند اور وزیر داخلہ ہند کی تابعداری میں ہی اپنی نجات تصور کرنے کو مجبور ہیں۔موصوف کو اس امر کا قطعی کوئی احساس نہیں ہے کہ آپ کے اس رویے سے آپ کے مسلم رائے دہندگان پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔شاید آپ یہ فراموش کر چکے ہیں کہ آپ کے اراکین اسمبلی و اراکین پارلیمان کا ان کی برہمی کے باعث فتحیاب ہونا مشکل ہی نہیں مشکل ترین امر ہو جائے گا ۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر آج بھی مسلم رائے دہندگان آپ سے منہ موڑ لیں تو ایک بھی رکن کا منتخب ہونا مشکل ہوجائےگا اور وہ اقتدار کی جنت سے محروم ہو جائیں گے ۔یہ ایک بلا تردید حقیقت ہے کہ صرف کرمی کے ووٹ سے آپ کے لیڈران فتحیاب نہیں ہو سکتے ہیں ۔کوئری ووٹ آپ کے حق میں ہوتا ہی نہیں ہے کیونکہ اوپندر کشواہا اور دیگر کوئی لیڈران ہمہ اوقات آپ کے گلے کی پھانس بنے رہتے ہیں۔یادو تو آپ کی جماعت کو ووٹ دینے کی فاش غلطی کر ہی نہیں سکتے ہیں۔کیونکہ ان کے لئے آپ کی جماعت شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔اب رہی بھومیہار ووٹ کی بات تو یہ کبھی کسی خاص جماعت کے حق میں نہیں ہوئے ۔یہ سیاسی جماعت کی زنجیروں میں جکڑ کر رہنے کے سدا مخالف رہے ہیں ۔انہیں سیاست سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔پھر یہ چونکہ سخت مزاج اور شہ زور قسم کے ہوتے ہیں چنانچہ انہیں کسی کی محکومی کبھی گوارہ نہیں ہوئی .یہ انتہائی مطلب پرست اور موقع شناس واقعی ہوئے ہیں ۔چنانچہ آپ ان پر یقین کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ اگر کرتے ہیں تو یہ آپ کی نادانی پر مشتمل ہوگا ۔اب رہی بات ہندئوں کے نچلے طبقے کی تو حقیقت یہی ہے کہ وہ بھی آپ کے مخالف ہی نظر آتے ہیں ۔اس طرح جو آپ کا کیڈر پر مشتمل ووٹ ہے صرف وہی آپ کا ہے ۔آپ صرف اپنے کیڈر ووٹ کے سہارے کبھی اقتدار کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکتے ۔اب اگر مسلم ووٹرس بھی آپ سے برہم ہو گئے تو جناب آپ خود صاحب فہم ہیں۔سمجھ لیجئے کہ انتخاب کا نتیجہ کیا ہوگا ۔اگر اتنا کچھ گزر جانے کے بعد بھی مسلمان آپ سے برہم نہیں ہوئے ۔تو یہ سمجھنے کی قطعی غلطی نہ کریں گے کہ مسلمانوں کے پاس اور کوئی چارہء کار نہیں ہے ۔بلکہ یہ مسلمان صرف ماضی میں آپ کے ذریعے کئے گئے کاموں کو یاد کر کے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔یا یوں کہ لیجئے کہ یہ آپ کی خوش نصیبی ہے۔ورنہ یہ قوم تو اس قدر جذباتی ہے کہ لمحوں میں رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔اسے ابھی بھی آپ موصوف سے مثبت اقدام کی امید وابستہ ہے کہ آپ ماضی کی مانند برے وقتوں میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔لیکن ادھر جو مشاہدے میں آرہا ہے ۔ان سے امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔مسلمانوں کے دلوں میں آپ کے تعلق سے مایوسیاں گھر کرنے لگی ہیں۔ان مایوسیوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب وقف ترمیمی بل 2024 پر آپ کے رکن پارلیا مان نے مذکورہ بل کی حمایت کر دی ۔اس رکن کی حمایت کے بعد اس کے متعلق آپ کا ذاتی بیان آیا کہ”اس طرح ہم مسلمانوں کو یاد دھانی کراتے ہیں۔” آپ کی اس یاد دھانی کے باعث اگر مسلمانوں کا اتنا بڑا سرمایہ لثنے کے دہانے پر پہنچ جائے اور اس کی پاداش میں مسلمان آپ کو بالکل ہی فراموش کر دیں تو اس میں ان کا کیا گناہ ہوگا ۔
المختصر یہ کہ چندر بابو نائڈو اور شریمان نتش کمار کے طرز عمل سے یہ ثابت ہوتا جاتا ہے کہ آپ دونوں ہی کو جو مسلم دوست ہونے کا لقب حاصل ہوا ہے ۔وہ قطعی بجا نہیں ہے۔ آپ دونوں ہی حضرات صرف اور صرف خود غرض اور مفاد پرست ہیں ۔دوسری جانب جس طرح مسلمانوں پر ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ان کے قتل و غارتگری کا برہنہ رقص پیش ہو رہا ہے،غیر آئینی طور پر بلا جواز ان کے مکانات و دکا نات جلائے اور گرائے جارہے ہیں،ان کے مدارس و مساجد شہید کئے جا رہے ہیں۔ان تمام تخریبی اعمال میں آپ دونوں ہی برابر کے شرکاء تسلیم کئے جائیں گے۔کیونکہ آپ دونوں ہی کے محض ایک جملے سے ان تمام غیر انسانی و غیر آئینی عمل پر قدغن لگ سکتا ہے۔
[email protected]