ڈاکٹر سیّد احمد قادری
ہندوستان کے مسلمانوں کو ہر طرح سے سیاسی ، سماجی ، معاشی ، اقتصادی ، تعلیمی اور صنعتی طور پر بے وقعت ، کمزور اور بے دست و پا کئے جانے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہریانہ کے انتخاب کے نتیجہ کو لے کر جو تنازعہ چل ہے ۔اس پر سوال کھڑا کرنے کے دوران کانگریس کے قومی صدر ملکا رجن کھڑگے نے بڑی بیباکی سے ایک ایسی بات کہہ دی کہ’ پی ایم مودی کی پارٹی ٹیرورسٹ (دہشت گرد ) کی پارٹی ہے جو مائنریٹیز ( اقلیت ) کودھمکاتے اور لنچنگ کرتے ہیں اور پی ایم ان کی حمایت کرتے ہیں ‘یہ بات عام طور پر لوگ کہنے سے گریز کرتے ہیں ۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Violence_against_Muslims_in_independent_India
لیکن اس تلخ حقیقت کو کب تک جھٹلایا جا سکتا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کومسلسل مندر مسجد ، مدارس کا خاتمہ ، قبرستانوں ، عید گاہوں ،خانقاہوں کی غیر قانوی تعمیر ، لو جہاد ، گھر واپسی ، گؤ مانس ، گؤ رکچھا ، وندے ماترم ، 370 کا خاتمہ ، طلاق ثلاثہ، حجاب ،مسلم پرسنل لا ٔ ، شہریت ترمیمی قانون ، یونیفارم سول کوڈ، وقف قانون ترمیمی بل وغیرہ کے نام پر خوف و دہشت میں مبتلا ٔ رکھا جا رہا ہے۔ انھیں زدو کوب کیاجارہا ہے ، ماب لنچنگ عام ہے ،بے گناہ مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں ،گھروں ، دوکانوں ، عبادت گاہوں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ان دنوں ایسے واقعات اور سانحات میں کافی شدّت اس لئے بھی دیکھی جا رہی ہے کہ حالیہ لوک سبھا کے انتخاب میں تمام تر کوششوں کے باوجود بی جے پی اکثریت سے بہت دور رہ گئی ہے ۔ یہ شکست بلا شبہ مودی اور شاہ کی بی جے پی کے لئے خفّت اور شرمندگی کا باعث بنی ہے ۔ اس شرمندگی اور خفّت کو ختم کرنے اور بڑھتی عوامی عدم مقبولیت کوواپس لانے اور ہو چکے نقصان کی تلافی کی یہ کوشش ہے۔ ایسے منظر نامے کو دیکھنے کے بعد ہی سینئر کانگریسی رہنما راشد علوی یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ملک کے مسلمان پہلی بار ایسے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں ۔ انھوں نے گزشتہ دنوں گجرات کے کچھ علاقوں میں سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تقریباََ 500 سالہ کئی قدیم قبرستانوںاور 100 سالہ پرانی مساجد کو ایک ساتھ رات کے اندھیرے میں نا جائز تعمیر کے نام پر شہید کئے جانے پر خفگی کا اظہار کر رہے تھے ۔ اس غیر آئینی اور متعصبانہ رویہ پر اپنے غم وغصّہ کا اظہار کرتے ہوئے راشد علوی نے یہ بھی خدشہ جتایا کہ مودی حکومت ملک میں خانہ جنگی جیسے حالات پیدا کر رہی ہے ۔ راشد علوی نے ایسے سنگین مسئلہ پر ملک کے مسلمانوں کے ووٹوں سے حکومت کرنے والی سیکولر پارٹیوں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا اور کہاکہ’ ’ملک کی سیکولر جماعتیں گونگی ، بہری اور اندھی بنی ہوئی ہیں ۔‘ ‘
گزشتہ ہفتہ دہلی میں آل انڈیا قومی تنظیم کی جانب سے ’’ موجودہ حالات میں ہماری ذمّہ داریاں ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے ایک پروگرام میں عاپ کے بے باک لیڈر اور رکن راجیہ سبھا سنجئے سنگھ نے ملک کے موجودہ حالات کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملک میں فرقہ پرستی عروج پر ہے ا ور ہر معاملے کو ہندو مسلم رنگ دے کر تفرقہ پھیلایا جا رہا ہے ۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا ہر ہندوستانی کا فرض ہے ۔‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ برسراقتدار بی جے پی کی حکومت ہر پارلیمانی اورا سمبلیوں کے انتخابات کے موقع پر مسلمانوں کے ووٹوں کی خواہش مند تو رہتی ہے ۔ لیکن پارلیمنٹ اور کابینہ تک کو مسلم مکت رکھنا چاہتی ہے ۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت کی کابینہ میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے ۔ لیکن ملک کے سربراہ بیرون ممالک خصوصاََ عرب اور مسلم ممالک میںجا کر ملک میںہندو مسلم دوستی اور گنگا جمنی تہذیب کا راگ خوب الاپتے ہیں ۔
ملک کے مسلمانوں کے ساتھ آئے دن ہونے والے بدترین سلوک اور ان کے قدیم ، مذہبی و تاریخی عباد گاہوں کے ساتھ مسلسل غیر منصفانہ، ظالمانہ اور غیر آئینی حرکتوںکو دیکھتے ہوئے گزشتہ برس ہی شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھ بیر سنگھ بادل نے کہا تھاکہ ہندوستان میں مسلمان سیاسی طور پر تنزلی کا شکار ہیں ۔قومی سطح پر ان کا کوئی متحد پلیٹ فارم نہیں ہے جس کی وجہ کر ملک کی سیاست میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔رہی سہی کسر بی جے پی کی حکومت نے نکال کر ان کی سیاسی وقعت کو صفر کر دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک کی پندرہ ریاستوں کی وزارتوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے ۔ملک میں اٹھارہ فی صد مسلمانوں کی آبادی ہے اور سکھ صرف دو فی صد ہیں پھر بھی سکھوں کی اپنی قیادت ہے لیکن مسلمانوں کی اپنی کوئی قیادت نہیں ہے۔ سکھ بیر سنگھ کی یہ باتیں بلا شبہ مسلمانوں کی حقیقت حال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ندامت کا بھی باعث ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بلکہ شرمناک بات یہ ہے کہ ایک طرف کھلم کھلّا بی جے پی ملک کے مسلمانوں سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب کچھ ایسے بھی مسلمان ہیں جو اپنی بے حسی ،بے ضمیری اور بے غیرتی کا مظاہرہ ہی نہیں بلکہ ملک کے مسلمانوں کے تشخص ہی نہیں بلکہ ان کے صبر وتحمل کاسودا کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ بی جے پی کی حکومت ملک کے مسلمانوں کی ہمدرد اور مسیحا ہے۔ مختار عباس نقوی ، سید شہنواز حسین ، ایم جے اکبر ، ظفر السلام ، دانش آزاد انصاری ، محسن رضا ، عارف محمد خاں ، امام عمر احمد الیاسی ، طارق منصور اور غلام علی کھٹالہ وغیرہ جیسے یہ وہ نام نہاد مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اپنے منفی کردار و عمل سے ان نام نہاد مسلمانوں نے تاریخ کے بدترین مسلمان میر جعفر اور میر صادق کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
ملک میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی فرقہ واریت ، عدم رواداری ، مذہبی منافرت اور تشدد کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف آئے دن ایسے اشتعال انگیز بیانات دئے جاتے ہیں کہ مسلمان مشتعل ہو کر ایسے قدم اٹھائے کہ اس کے خلاف حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے سخت سے سخت سزا دی جائے۔مسلمانوں کے لئے دن بہ دن زمین تنگ کرنے کی عملی کوششیں شدت اختیات کرتی جا رہی ہیں۔ بد زبانی ، گالم گلوچ اور مشتعل کرنے کا یہ سلسلہ دراز کرتے ہوئے یہ ہیمنت بسوا سرما ہو، یا یتی نرسمہا ہو یا پرگیا سنگھ یا یوگی ادیتیہ ناتھ ہو، یا پھر گری راج سنگھ ، وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش موہن یادو ، نپور شرما ،یا نتیش رانے وغیرہ ہوں ۔ا ن جیسے سینکڑوں لوگ ایسی اشتعال انگیز باتیں یونہی نہیں کہتے بلکہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے اور اکثریت سے متنفر کرنے کے لئے ایک منصوبہ بند سازش او ر ایجنڈہ کے تحت نیز سیاسی مقاصد اور مفادات کے حصول لئے کہا جاتا ہے ۔ زیادہ دور نہ جا کر گزشتہ دس برسوں میںجو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا ہے وہ ہم بھولے نہیں ہیں ۔2022 ء کے ماہ نومبر میں سپریم کورٹ میں داخل ایک عرضی کے مطابق 2014 ء کے بعد ملک میں نفرت انگیز تقاریر اور بیانات میں 500 فی صد کا اضافہ ہوا ہے ۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ( رویش کمار کے وقت )کے جمع کردہ اعداد شمار کے مطابق مئی 2014 ء سے اس وقت تک یعنی 2022 ء تک 45 سیاستدانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر و بیانات کے 124 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ان سبھوں نے اپنے زہریلے بیانات سے نہ صرف ملک کی یکجہتی ، جمہوریت اور امن وامان کو زہر آلود کرنے کی دانستہ کوششیں کی ہیں بلکہ بیرون ممالک میں ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب و تصویر کو مسخ کیا ہے ۔ ان سبھوں کے خلاف حکومت کی جانب سے کسی طرح کی کوئی مذمتی بیان دینے یا کوئی تادیبی کاروائی کئے جانے کے بجائے انھیں جیلوں سے نکال کر پھول مالا پہنا کراورمعزز بنا کرخیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ مندرجہ بالا سطور میں، میں نے جتنی بھی باتیں کی ہیں ، ان سب کا ذکر ابھی ابھی امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں بہت تفصیل سے کیا گیا ہے ۔کمیشن نے اس سال یعنی 2024 ء کی جو رپورٹ پیش کی ہے ۔اس میں ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کو ’ خاص تشویش حامل ملک ‘ کے طور پر درج کئے جانے کی سفارش کی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح 2024 ء کے دوران گؤ رکشا گروپ کے ذریعہ مذہبی اقلیتوں کا ہجومی تشدد میں، انھیں زدو کوب اور ہلاک کیا گیا نیز مذہبی رہنماؤں کو یکطرفہ طور پر گرفتار کرکے ان کے گھروں اور عبادتگاہوں پر بلڈوزر چلایا گیا ۔ ایسے تمام واقعات کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی قرار دیاگیا ہے ۔ اس رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے ذریعہ مذہبی اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف پر تشدد حملوں کے لئے اکسایا گیا ۔ اقلیتوں کو حق رائے دہی سے بھی محروم رکھنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہے ۔ٍرپورٹ میں 2023 ء میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم ا ور تشدد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ سال میں پورے سال مسلمانوں پر پر تشدد حملے ہونے کے ساتھ ہی ان کی عبادتگاہوں اور مساجد کو پولیس کی موجودگی میں تباہ کیا گیا ۔گؤ رکشک گائے کے تحفظ کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے ۔ ہریانہ کے نوح علاقہ میں گزشتہ سال کے جولائی ماہ میں اکثریتی فرقہ کے جلوس میں لوگوں کے ہاتھوں میں تلوار یں لہراتے بھی دیکھا گیا ۔ یہاں مسلمانوں کے مقبرے اور مسجد کو نذر آتش کیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں امام محمد حافظ سمیت کم از کم سات بے قصور افراد ہلاک ہو ئے تھے ۔ نوح کی رپورٹ میں ا س علاقہ کا بدنام زمانہ شر پسند مونو مانیسر کا بھی نام لیا گیا ہے جس نے دو مسلم نوجوان کو اغوا کرکے انھیں قتل کیا تھا ۔ ممبئی میں چلتی ٹرین میں مسلم مسافروں کو آر پی ایف کے ذریعہ سرکاری بندوق سے قتل کئے جانے والے سنگین واقعہ کو بھی شامل کیا ہے ۔ امریکی کمیشن نے منی پور میں گرجا گھروں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنا نے کے ساتھ ہی ہزاروں لوگوں کے بے گھر ہونے والے افراد کا بھی ذکر کرتے ہوئے حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے ۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت نے اسے مسترد کرتے ہوئے اسے جانبدارانہ رپورٹ بتانے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ اس رپورٹ میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے ، ان میں ایک لفظ بھی غلط نہیں ہے ۔
( مضمون نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
٭٭٭٭٭٭٭