لازوال ویب ڈیسک
واشنگٹن، // امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے کہا ہے کہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے حوالے سے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے۔
https://www.whitehouse.gov/administration/vice-president-harris/
ہیرس سے جب پوچھا گیا کیا وہ محسوس کرتی ہیں کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان بات چیت ان کی کوششوں کومتاثر کرسکتی ہے جو موجودہ امریکی حکومت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پر انہوں نے جواب دیا ’نہیں‘۔
ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان قریبی ذاتی تعلقات ہیں۔ ریپبلکن امیدوار نے اس ہفتے نتن یاہو کے ساتھ اپنی تقریباً روزانہ فون کالز پر فخر کیا۔ انہوں نے جارجیا میں ایک انتخابی ریلی میں زور دیا کہ "ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ہم ان کے ساتھ بہت قریب سے کام کریں گے”۔
نیتن یاہو کو امید ہے کہ ٹرمپ پانچ نومبر کو ہونے والے انتخابات میں وائٹ ہاؤس میں واپس آئیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سابق ریپبلکن صدر نے مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیسی کے حوالے سے ملے جلے پیغامات بھیجے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی موجودگی نیتن یاہو کے لیے پچھلی بار اچھی تھی۔
ٹرمپ کے بیانات میں نیتن یاہو کو ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کرنے کی ترغیب دینے سے لے کر اسرائیلی رہ نما کو تنقید کا نشانہ بنانا شامل ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ” اگر میں صدر ہوتا تو سات اکتوبر کا حملہ کبھی نہ ہوتا۔ وہ اسرائیل پر جنگیں ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے‘‘۔
ریپبلکن صدر کے طور پر ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم کو غزہ کی پٹی اور لبنان میں اب بھی جاری تنازعات سے نمٹنے میں مزید آزادی دے سکتے ہیں۔