روزگار کے بحران کا شکار دیہی نوجوان

0
91

 

مرما کنور

لنکرنشر، راجستھان

دیہی راجستھان کے روایتی طرز زندگی میں ہمیشہ سے زراعت، مال مویشی، اور دستکاری کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ان ذرائع کے ذریعے ہزاروں خاندان اپنی روزی روٹی کماتے رہے ہیں۔

http://www.charkha.org/

لیکن حالیہ برسوں میں، بدلتے ہوئے حالات، موسمیاتی تبدیلی، اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے راجستھان کی دیہی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے۔ بے روزگاری میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے، جو ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔راجستھان ایک خشک اور بنجر علاقہ ہے، جہاں پانی کی کمی ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس چیلنج کو اور زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔ بارشوں میں بے قاعدگی اور شدید گرمی کی وجہ سے زراعت پر منحصر لوگ شدید مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ کسانوں کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں، اور زراعت اب زیادہ لوگوں کے لیے قابل عمل ذریعہ معاش نہیں رہی۔راجستھان کی دستکاری، جس میں کپڑے کی چھپائی، چمڑے کا کام اور زیورات بنانا شامل ہیں، کبھی دنیا بھر میں مشہور تھے۔ لیکن بڑے پیمانے پر مشینی صنعتوں کے بڑھنے اور مارکیٹ کے بدلتے رجحانات نے روایتی کاریگروں کے لیے مواقع محدود کر دیے ہیں۔ ہاتھ سے بننے والے فن پاروں کی مانگ کم ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں میں ہزاروں کاریگر بے روزگار ہو چکے ہیں۔دیہی علاقوں میں تعلیم اور مہارت کی کمی کی وجہ سے نوجوانوں کے پاس محدود روزگار کے مواقع ہیں۔ بہت سے نوجوان روزگار کی تلاش میں شہرکی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، لیکن وہاں بھی انہیں اکثر کم اجرت والے غیر رسمی کاموں میں ہی ملازمت ملتی ہے۔ یہ ہجرت دیہی علاقوں میں نہ صرف افرادی قوت کی کمی کا باعث بن رہی ہے بلکہ گھریلو معیشت پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔

اگرچہ حکومت نے مختلف اسکیمیں متعارف کرائی ہیں، جیسے کہ منریگا (مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ) جو دیہی علاقوں میں روزگار فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے، لیکن ان پالیسیوں کا مؤثر نفاذ اور نگرانی اکثر ناکام رہی ہے۔ بدعنوانی اور ناقص انتظامات کی وجہ سے یہ اسکیمیں اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق فائدہ نہیں دے پاتیں، جس سے بے روزگاری کا مسئلہ مزید سنگین ہو تا جا رہا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح راجستھان کے دیہی علاقوں تک بھی سرکار کی اسکیمیں نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے دیہی لوگوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے، بھارت میں سب سے زیادہ بے روزگاری راجستھان میں ہے۔سنٹر فار مونٹرنگ انڈین ایکونامی(سی ایم آئی ای) سروے کے مطابق، راجستھان میں ملک میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح 28.3 فیصد ہے۔یہاں صنعتی اور کاٹیج انڈسٹری کے شعبے میں کمی روزگار کے مواقع کو مزید محدود کر سکتی ہے، بے روزگاری، غربت، جرائم، عدم استحکام کی شرح میں اضافہ کر سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اور طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے، آبادی پر قابو پانے اور مہارت کی ترقی سمیت ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ نوجوان آبادی کے ساتھ راجستھان کا آبادیاتی ڈھانچہ اس مسئلے کو بڑھاتا ہے، کام کرنے کی عمر کی آبادی میں تیزی سے اضافے نے روزگار کے مواقع کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو بے روزگاری کی خطرناک شرح کے پیش نظر تیزی سے اہم ہوتی جا رہی ہے۔ راجستھان کے دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے ان کی سوچ، رہن سہن اور کام بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے، راجستھان میں روزگار کی کئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ لیکن ان سے چند لوگوں کو ہی روزگار ملتا ہے، کئی جگہوں پر اسکیمیں نہیں پہنچی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو روزگار نہیں مل پاتا۔

ایسا ہی ایک گاؤں کرنیسرہے، جو راجستھان کے بیکانیر ضلع کے لنکرنسر بلاک سے 50 کلومیٹر دور آباد ہے، یہ چاروں طرف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ گاؤں میں داخل ہوتے ہی کچھ پکے گھر اور کچھ کچے گھر نظر آتے ہیں۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کے پاس کچے گھر ہیں۔ گاؤں کی بنیادی آبادی کچے گھروں میں رہتی ہے۔ اور کچھ غریب لوگ چھپڑپٹیوں میں رہتے ہیں۔ ان کے روزگار کا ذریعہ کھیتی باڑی ہے۔ کرنیسر گاؤں میں مویشی پالن بھی کیا جاتا ہے۔ ہر گھر میں 3سے4 جانورآسانی سے نظر آتے ہیں۔ گاؤں میں ہر کسی کا اپنا کھیت نہیں ہے۔ ان میں سے بعض کے پاس کھیتوں کا انتظام ہے، قریبی کھیتوں میں ٹیوب ویل بنائے گئے ہیں، آبپاشی (لائٹس) کے لیے بجلی کا اچھا انتظام ہے۔ گرمیوں میں بجلی نہ ہونے سے فصلیں خراب ہو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لوگ کھیتی باڑی سے روزی کمانے کے قابل نہیں ہیں۔ گاؤں کے کچھ لوگوں کی کاشتکاری بارش پر منحصر ہے۔ بارش ہونے پر فصلیں بہتر ہو جاتی ہیں، ورنہ ان کے روزگار کا دوسرا ذریعہ بجلی ہے۔ مویشی پالنا، جانوروں کی پرورش میں بہت سے مسائل ہیں۔ انہیں دودھ کا اچھا ریٹ نہیں ملتا، لیکن گاؤں میں چارے کی سپلائی دن بہ دن کم ہو رہی ہے، ان کے لیے جانور پالنا مشکل ہو گیا ہے، ان کے خاندان کو جانور پالنے کے اخراجات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ آمدنی کے مقابلے میں جانوروں پر پیسہ زیادہ خرچ ہوجاتا ہے۔ شاردا دیوی کی عمر 30 سال ہے، انہوں نے بتایا کہ منریگا کے تحت جاب کارڈ کا کام لینے پر ٹھیکیدار آدھی رقم رجسٹر میں لکھتا ہے اور آدھی رقم ٹھیکیدار کو ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔کرنیسر گاؤں کے 50 سالہ بھنور داس سوامی نے بتایا کہ اس کے گاؤں میں روزگار کا اہم مسئلہ ہے۔ انہیں روزگار کے لیے دور دراز شہروں میں جانا پڑتا ہے، اور وہاں جاکر کئی طرح کے کام ایک ساتھ کرنے پڑتے ہیں جس سے ان کے خاندان کا خرچ چلتا ہے۔

کرنیسر گاؤں کے ایک دیگر شخص نے بتایا کہ وہ کھیتی باڑی کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔ جب کھیت کا کوئی کام نہیں ہوتا، تو وہ بے روزگارہوجاتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے کھیت نہیں ہیں۔وہ اپنی روزی کمانے کے لیے دوسروں کے کھیتوں پر کام کرنے جاتے ہیں۔ کرنیسر گاؤں کی 55 سالہ وملا دیوی نے بتایا کہ گھر میں مریض پڑاہے لیکن دوائیوں کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ ان کے بیٹے رام لال کی عمر 30 سال ہے، وہ ایک مہینے میں 10 دن مزدوری کرتا ہے، وہ لوگوں کے کھیتوں میں کام کرنے جاتا ہے۔ کوئی سرکاری اسکیم ان کے گھر تک نہیں پہنچ سکی ہے، نہ بجلی ہے نہ صاف پانی نصیب ہے۔ پینے کا پانی کھارا ہے جس کی وجہ سے وہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کے گھٹنوں میں درد ہے، ان کے پاس رہنے کو گھر بھی نہیں ہے، جہاں رہتے ہیں وہاں بیت الخلاء بھی نہیں ہے، جس کی وجہ سے انہیں پاخانے کے لیے باہر جانا پڑتا ہے۔ اس کی حالت بہت خراب ہے۔گاؤں کے ایک دکاندار نے بتایا کہ ان کی دکان 24 سال پرانی ہے۔ وہ دکان کا سامان قریبی شہر سے لاتے ہیں۔ انہیں شہر سے سامان لانے کے لیے گاڑی کرائے پر لینا پڑتی ہے۔ وہ کھیتی باڑی اور دکانداری سے اپنی روزی کما ر ہے ہیں۔ کرنیسر گاؤں میں ہماری ملاقات پونم سے ہوئی، جو 23 سال کی شادی شدہ ہے، ایک بچہ ہے، اور اپنے شوہر کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت گاؤں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کو سیراب نہیں کیا جا رہا ہے۔ گرمی بہت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے کھیتوں کی حالت مکمل طور پر درہم برہم ہو کر رہ گئی ہے، کرنیسر گاؤں میں لوگوں کے لیے روزگار کافی بڑا مسئلہ ہے۔ لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے حکومت کو روزگار کا انتظام کرنا چاہیے، دیہاتوں میں بجلی کا بندوبست کرنا چاہیے، سرکاری اسکیموں کو دیہاتوں میں آسانی سے نافذ کرنا چاہیے، جب تک یہ اسکیمیں دیہاتوں تک نہیں پہنچ سکے گی،تب تک وہاں کے لوگوں کی زندگی میں بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔

درج بالا تمام مسائل کے حل کے لئے اگر درج ذیل تجاویز پر عمل کیا جائے تو دیہی باشندگان کی زندگی میں بھی مسکراہٹ لائی جاسکتی ہے جیسے کہ حکومت اور نجی شعبہ دونوں کو مل کر دیہی علاقوں میں صنعتوں کا قیام کرنا چاہیے، تاکہ مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع فراہم ہو سکیں۔ زراعت کو جدید بنانے کے لیے پانی کی بچت کرنے والی ٹیکنالوجی اورکھیتوں کے لئے بہتر بیج فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ روایتی ہنر کو زندہ رکھنے کے لیے دستکاری کی صنعت کو جدید مارکیٹنگ اور ڈیزائننگ کی تکنیکوں سے جوڑنا ضروری ہے تاکہ کاریگروں کو عالمی منڈی میں اپنی مصنوعات بیچنے کا موقع مل سکے۔ نوجوانوں کو جدید فن وہنر اور مہارتوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ بدلتے ہوئے عالمی معاشی نظام کا حصہ بن سکیں اور روزگار حاصل کر سکیں۔دیہی راجستھان میں بڑھتی بے روزگاری ایک سنگین چیلنج ہے، جس کے اثرات معاشرتی اور معاشی دونوں سطحوں پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کا حل نہ صرف حکومتی پالیسیوں کے مؤثر نفاذ میں ہے بلکہ مقامی سطح پر معاشرتی اور اقتصادی ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں بھی ہے۔ اگر بروقت اور مؤثر اقدامات کیے جائیں تو راجستھان کی دیہی معیشت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔(چرخہ فیچرس)

https://lazawal.com/

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا