•• صِبْغَۃَ اللّٰہِ••

0
194

 

 

 

 

 

 

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040

صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً وَنَحْنُ لَہُ عَابِدون۔ (سورۃ البقرۃ: 138)
اللّٰہ کے رنگ میں رنگ جاؤ! اور اللّٰہ کے رنگ سے بہتر اور کس کا رنگ ہے!۔ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں!

اللّٰہ کے رنگ سے مراد دینِ فطرت یعنی ”اسلام” ہے۔ فطرتاً مخلوق کی ابتداء ”دینِ اسلام” ہی ہے۔ یہ دینِ فطرت ہر رنگ میںرنگ جا نے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اترا ہے، بلکہ ان لوگوں کے لئے اترا ہے جو صبغۃ اللّٰہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ اللّٰہ کا دین ‘ جو اس نے چاہا کہ نوعِ ا نسانی کے لیے اس کا آخری پیغام ہو، تاکہ اس کی بنیاد پر انسانی وحدت، جو تمام آفاق کو محیط ہو۔ جس میں کسی کے ساتھ کوئی تعصّب، نفرت، بغض و کینہ نہ ہو! نہ اس میں رنگ و نسل اور قومیت کی بنیاد پر کوئی امتیاز ہو! اگر یہی دینِ اسلام انسان کی ذات کا ایک حصّہ بن جائے، تو اسے ”اللّٰہ کا رنگ” کہا جاتا ہے۔

اللّٰہ کا رنگ صرف ظاہری رنگ نہیں ہوتا وہ انسان کے باطن سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی رنگ سے انسان میں مُسلِمون ، مُخلصون ، عٰبِدون کے اوصاف پروان چڑھتے ہیں۔ یہ رنگ انسان کو قربِ الٰہی، اللّٰہ کے حضور جواب دہی، فکرِ آخرت میں مضطرب و بے چین رکھتے ہوئے ایک بڑی کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔

جب خلیفہ ثالث سیّدنا عثمان ؓ بن عفان کو شہید کیا گیا وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے، قرآن کی جن آیتوں پر آپ کا خون گرا اُن میں سے ایک آیت یہ بھی تھی، جو آج تک اس مُصحف پر موجود ہے۔ قرآن کے اوراق کو رنگین بناتے یہی خون کے قطرے روزِ محشر گواہی دیں گے کہ حضرت عثما نِ غنیؓ کا تعلق ز ندگی کی آخری سا نوں تک صبغۃاللّٰہ سے جڑا رہا۔ سیّدنا عثمان ؓ کے صبغتہ اللّٰہ میں رنگے خون کی عظمتوں کو سلام!!! کاش اللّٰہ کے رنگ میں رنگی ایسی حسین موت ہمارے بھی مقدر کا حصّہ بن جائے۔

نَصٰاریٰ ایک قدیم مذہبی رسم مناتے ہیں، جسے اِصْطِباغ (غسل) یا یونانی زبان میں بَپْتِسمَہ (Baptisma) کہتے ہیں۔ اِس رسم کے ذریعے نومولود یا غیر نصرانی انسان کونصرانیت میں داخل کرنے کے لئے زرد رنگ سے غسلِ تَعْمِید دیتے ہیں۔ یہ رسم عموماً کلیساؤں میں ادا کی جاتی ہے جس کے ذریعے تطہیر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ نصرانیوں کا عقیدہ ہے کہ زرد رنگ سے غسل دینے یا زرد پانی چھڑکنے سے نو مولود یا غیر نصرانی کے وہ ذاتی گناہ دھل جاتے ہیں جو اسے حضرت آدمؑ سے ورثے میں ملے ہیں۔

حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: ” نصاریٰ کا جب کوئی بچہ پیدا ہوتا اور اس پر 7؍ یوم گزر جاتے تو وہ اسے پانی میں داخل کرتے جسے وہ اس کے لئے معمودیہ کا پانی کہتے تھے وہ اس پانی میں بچے کو ر نگتے تاکہ اس کے ساتھ اس کے ختنہ کی جگہ کو پاک کریں کیونکہ ختنہ کرنا تطہیر ہے۔ جب وہ ایسا کر دیتے تو کہتے اب یہ پکّا نصرا نی ہوگیا ہے”۔

اللّٰہ تعالیٰ نے اس بے بنیاد رسم یا منطق کی تردید فرمائی اور فرمایا کہ سب سے بہتر رنگ دینِ اسلام ہے، جسے نوحؑ سے لے کر تمام انبیائے کرامؑ لے کر مبعوث ہوئے ہیں، بنی نوعِ انسانی کو چاہیے کہ اس دینِ مبین کی اطاعت و اتباع کریں۔

اسلام کی تعلیمات ہمیں ظاہری رنگوں کے بجائے رنگِ حقیقت اور رنگِ الٰہی قبول کر نے کی ترغیب اس لئے دیتی ہے کہ انسان کی روح اور نفس ہر قسم کی آلودگی سے پاک رہے۔ واقعتاً یہ کتنی عمدہ اور نفیس تعبیر ہے۔ اگر لوگ صبغۃاللّٰہ کی چادر اوڑھ لیں یعنی وحدت’ عظمت’ پاکیزگی اور پرہیز گاری کا رنگ! عدالت’ انصاف’ اور مساوات کا رنگ!! اور توحید و اخلاص کا رنگ اختیار کرلیں!!!، تو اس سے تمام فتنے و فساد (جو کئی رنگوں میں اسیر ہونے کا سبب ہوتے ہیں) ختم ہوسکتے ہیں۔ اس رنگ کو اختیار کرنے سے انسان شرک،نفاق اور تفرقہ بازیوں کے گناہ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

یہود و نَصاریٰ کو اس ظاہری رنگ پر بڑا اعتماد تھا، اسے نجات کی کنجی تصور کیا جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس ظاہری رنگ سے کیا دل رنگین و بے داغ ہو سکتا ہے؟ کوئی کسی حوض میں ہزار غوطے لگائے اور سر سے پاؤں تک رنگ میں ر نگا جائے مگر کیا فائدہ؟ رنگ تو خدائی رنگ ہے یعنی کلمہ ”لا الہٰ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ” جو انسان کے دل و دماغ اور روح کو رنگین کر دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے اس رنگِ باطنی سے کونسا رنگ اچھا ہوسکتا ہے۔ انسان اس رنگ میں رنگین ہو کر ہمیشہ اسی کی عبادت میں مستغرق رہتا ہے۔

اسرارِ خودی میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ؎
قلب را از صبغۃ اللہ ر گ دہ
عشق را ناموس و نام و ننگ دہ
(اپنے دل کو اللّٰہ کے رنگ میں رنگ دے اور اس طرح اپنے عشق کو ننگ و ناموس و پہچا عطاء کر)۔

یہود اور نصاریٰ کو مخاطب کرکے دعوت دی گئی ہے کہ اگر اپنے آپ کو اللّٰہ کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہو تو یہودیت و نصرانیت کو چھوڑ کر اللّٰہ کا رنگ اختیار کرو۔ تم لوگ حضرت عزیرؑ اور حضرت مسیحؑ کو ابن اللّٰہ اور اپنا خداوند سمجھنے کی وجہ سے شرک کے ناپاک رنگ میں ملوث ہو، تم اہلِ توحید اور اہلِ ایمان کو کس رنگ کی دعوت دیتے ہو۔ یہ کلمۂ جامعہ جس کا اوپر ذکر گزرا، اپنے اندر اللّٰہ کی تمام ہدایتوں اور اس کے تمام نبیوںؑ اور تمام رسولوںؑ کو سمیٹے ہوئے ہے، یہ وہ کلمہ ہے جس سے زندگی پر خدا کا اصلی رنگ چڑھتا ہے، پس اگر زندگی کو خدا کے رنگ میں رنگنا ہے تو اس رنگ میں رنگو، اس رنگ سے بڑھ کر کس کا رنگ ہوسکتا ہے؟

کپڑے کو رنگنے سے پہلے پرانا رنگ اتارا جاتا ہے، تاکہ مطلوبہ رنگ عمدہ و بہتر، عمیق و دیرپا اور پائیدار ہو۔ ٹھیک اسی طرح ا نسانوں کے لئے سب سے اعلیٰ، معیاری، حسین و خوبصورت اور پائیدار رنگ ”صبغۃاللّٰہ” کا رنگ ہے۔ جو تقویٰ و خوفِ خدا سے پروان چڑھتا ہے۔ وہ رنگ جو اعمال و اخلاق اور افکار و نظریات سے جھلکتا ہے۔ یہ رنگ جو اہلِ حق میں اس طرح جذب و پیوست ہو جاتا ہے، جیسے کپڑے میں رنگ جذب و پیوست ہو جاتا ہے۔ صرف خدائی رنگ قبول کرو اور ہر قسم کے غیر خدائی رنگ کو دھو ڈالو۔ خدائی رنگ کے متعلق جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں ؎
صبغۃ اللہ ہست خم رنگ ہو
پیسہا یک رنگ گردد اندر او
(مقامِ فنا میں پہنچ کر انسان خدائی رنگ صبغتہ اللّٰہ میں رنگ جاتا ہے جیسے لوہا آگ میں فنا ہوکر لوہا ہوتے ہوئے بھی آگ کی صفات کا حامل ہو جاتا ہے۔)

وہ رنگ جو دل میں صرف اللّٰہ کی محبت اور خوف پیدا کرتا ہے، باقی محبتیں اور ڈر دل سے نکال دیتا ہے۔ اللّٰہ کا رنگ خود پر چڑھا نے کے لئے آپ کا بھی مضبوط ہو ا، ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے اور ہر قسم کی آزمائش کو انگیز کرنے کا حوصلہ ہونا ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ شروع کے مراحل میں ہی آپ ہمّت ہار جائیں، پیچھے ھٹ جائیں یا ٹوٹ جائیں۔ دیکھئے فلسطین کے مسلمانوں کو جنہوں نے قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی کے لئے اللّٰہ کا رنگ اختیار کرکے موجودہ باطل قوتوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، اللّٰہ کے رنگ نے انہیں جامِ شہادت نوش فرمانے کے نتیجے میں رہتی دنیا تک انہیں زندہ و جاوید کردیا ہے۔

یہود اور نَصاریٰ کے دعوے کا الزامی اور تحقیقی جواب دے کر اللّٰہ تعالیٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہدایت اسلام میں ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں بیان ہوا۔ مسلما نوں! اُن کی ضد اور دشمنی سے امرِ حق کے ظاہر کرنے میں کچھ تردد نہ کرو۔ آزمائش کی بھٹیوں میں اللّٰہ کا پکّا رنگ نہ پھیکا پڑتا ہے نہ اترتا ہے، مصنوعی رنگ ہی اتر جاتا ہے۔

ہر وہ رنگ جو احکامِ خداوندی کے منافی ہو، خواہ کتنا ہی پرکشش و دلکش اور حسین کیوں نہ ہو اسے اتار پھینکنا چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ یہ حکم بھی دیتا ہے کہ ایسے تمام رنگ جو تفرقہ بازی، قومیت و عداوت اور اختلاف مِلّت کا اِمتیاز بنتے ہوں تو انہیں نست و نابود کیا جائے اور بنی نوعِ انسانی پورے آب و تاب کے ساتھ صرف صبغۃاللّٰہ کے جاذبِ نظر رنگ میں رنگ جائیں۔ جس کی ترجمانی علامہ اقبالؒ یوں کرتے ہیں ؎
بُتان ِرنگ و خُوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہو جا
نہ تُورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغا نی

اُمَّتِ مُسْلِمَہ تہذیب نوی کے تراشیدہ نت نئے بتوں کی پرستش میں اتنی آگے نکل گئی ہے کہ اسے اللّٰہ کا رنگ یاد ہی نہ رہا۔ چشمِ فلک روزانہ یہ نظارہ دیکھ رہی ہے کہ سارے عالم میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم روا رکھا جارہا ہے، کس طرح اہلِ فلسطین ، مسلمانوں کے جَمِّ غَفِیر ہونے کے بعد بھی بے یار و مددگار صَیہُونی مظالم کا سامنا کررہے ہیں، ارضِ مقدّس میں ہر روز ایک نئی قیامت بپا ہے۔ لیکن عالم اسلام پر غنودگی کی کیفیت طاری ہے، عالمِ اسلام کے بے حس اور زر خرید حکمرانوں کی آنکھوں پر باطل کے مختلف رنگوں کی پٹیاں بندھی ہوئیں ہیں، کان قوتِ سماعت سے محروم اور زبانیں گنْگ ہوگئیں ہیں۔ اگر آج مسلم اُمہ صبغۃاللّٰہ میں رنگی ہوتی تو شاید تصویر کا رنگ کچھ اور ہی ہوتی۔

اللّٰہ کا رنگ وہ رنگ ہے جو اُمَّتِ مُسْلِمَہ کی رفعت، کامیابیوں اور فتح کا ضامن ہے۔ دنیا میں باقی وہی رہے گا جو اللّٰہ کا رنگ اختیار کرے گا۔ انسانی شخصیت پر عشقِ الٰہی یا معرفتِ باری تعالیٰ کا رنگ، اللّٰہ کی خالص اطاعت و بندگی سے چڑھتا ہے۔ ہر لمحے ظاہر و باطن میں رضائے الٰہی کی تلاش مطمعٔ نظر رہے تو اللّٰہ کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ اگر چھوٹی چھوٹی چیزوں اور باتوں میں بھی ہم اللّٰہ کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں تو ہم شیطان کے ہتھکنڈے سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اللّٰہ ربّ العالمین کی اطاعت اور رسول اللّٰہﷺ کی پیروی میں، زندگی کے ہر لمحے کو اللّٰہ کے رنگ میں رنگ دیجیے۔

اے اللّٰہ! ہماری زندگی کا مقصد صرف و صرف رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ اے اللّٰہ! ہماری موت و زیست کو اللّٰہ کا رنگ نصیب ہو۔ (آمین ثم آمین یا ربّ العالمین )
(19.11.2023)
r…r…r…r…r…r
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
ال افشان، 7/4، شیلیش نگر، ممبرا، تھانہ- 400612، مہاراشٹر، الہند۔
[email protected]
r…r…r…r…r…r

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا