جاوید جمال الدین
ملک میں بی جے پی اور اُس کی چھٹ بھیا تنظیموں کے غیر معروف نام نہاد لیڈروں کے ذریعے فرقہ وارانہ بیانات پر یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ آیا،ان کو اتنا حوصلہ کہاں سے ملتا ہے اور اگر جائزہ لیں تب محسوس ہوگاکہ وزیراعظم نریندر مودی ،وزیرداخلہ امت شاہ اور متعدد مرکزی وزراء کے بیانات انہیں حوصلہ مند بناتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کےنائب وزیراعلی دیویندر فڈنویس کو ایک نیوز چینل کے بحث ومباحثہ میں مسلمانوں کو بلا جھجھک ‘پنکچر والا’ کہنے کی ہمت ہوئی۔اگرچہ انہوں نے کانگریس سمیت سیکولر پارٹیوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں مسلمانوں کی پسماندگی اور معاشی بدحالی کاذمہ دار ٹھہرایا،لیکن جوانداز فڈنویس نے اپنایا ،وہ ذلالت آمیز تھا اور وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ” مسلمان صرف اور صرف ‘ پنکچروالا’ ہےاور تیسرے درجے کے کام کرتے ہیں۔ حالانکہ سبھی کو پتہ ہے کہ ملک میں مسلمان سیاسی، سماجی اور دیگر میدانوں میں سرفرازی حاصل کرچکے ہیں۔فڈنویس’ میزائل مین ‘عبدالکلام کو کیسے بھول گئے۔
حال میں اُن کی شہ پر دل بدلو سابق وزیر اعلی نارائن رانے کے’ بگڑے نواب ‘ نتیش رانے ریاست گیر سطح پر سکل ہندو نامی گمنام تنظیم کے بینر تلے جلسہ وجکوس نکال کر اقلیتی فرقے کو ‘ ٹارگٹ ‘ کرتے رہے ہیں،لیکن عدلیہ کی مداخلت سے اُن کے ہوش ٹھکانے لگ گئے،مسجد میں گھس کرچن چن کر مارنے کے بیان نے بی جے پی کو ذلیل وخوار کردیا اور اُس کی سرگرمیاں بند ہوگئیں۔
سپریم کورٹ کی سخت سرزنش کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) نے فرقہ وارانہ سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے،دراصل لوک سبھاانتخابات کے نتائج کے بعد برسر اقتدار بی جے پی بوکھلاگئی ہے،یہی وجہ ہے کہ ایک ملک ایک الیکشن کانعرہ دینے والی بی جے پی نے پہلے جموں کشمیر اور ہریانہ،پھر جھاڑکھنڈ اور مہاراشٹر میں تہوارو کا بہانہ بناکر الگ الگ تاریخوں میں انتخابات منعقدکیے ہیں اور الیکشن کمیشن کومہرہ بناکر مبینہ جعل سازی بھی ہورہی ہیں۔الیکشن کمیشن پر ہر الیکشن میں جگہ جگہ کھلی جانبداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں ،لیکن کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوتی ہے،اس میں خطرناک عمل عین انتخابات کے دوران فرقہ پرستی سے بھر پور سرگرمیوں کا بڑھ جانا بھی ہے اور الیکشن کمیشن بی جے پی کو ٹوکنے کے بجائے خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔چند معاملات سن لیے جاتے ہیں۔لیکن کارروائی ندارد رہتی ہے۔
ممبئی سمیت مہاراشٹر میں اسمبلی الیکشن کے دوران فرقہ پرستی اپنی انتہاء کوپہنچ چکی ہے۔حال میں کئی واقعات کاذکر کیاجاچکاہے،ترقی کے موضوع اور دیگر عوامی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر فرقہ پرستی اور ہندؤ مسلم تنازعات کو ہوادی جارہی ہے۔یہ چیز اس حد تک رگ وپے میں گھسا دی گئی ہےکہ گزشتہ ہفتے ایک موذی مرض کینسر کے علاج کے لیے وقف معروف ٹاٹا میموریل اسپتال کے احاطہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او )کی جانب سے لگائے گئے کھانے کے اسٹال پر ایک مسلم خاتون کو ’جے شری رام‘ کا نعرہ نہ لگانے پر مبینہ طور پر کھانا دینے سے انکار کر دیا گیااور ایک شخص انتہائی اشتعال میں اُس خاتون کو ڈانٹ ڈپٹ کر رہاتھا،اس واقعے کاایک ویڈیو، سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔جس میں خاتون کو ایک بزرگ شخص کے ساتھ بحث کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جو اس اسٹال پر کھانا تقسیم کر رہا تھا،مذکورہ شخص نے خاتون سے کہا کہ اگر وہ ’جے شری رام‘ نہیں کہہ سکتی تو وہ قطار سے نکل جائے۔ یہ واقعہ ممبئی کے پریل کے جیر بائی واڈیا روڈ پر ٹاٹااسپتال کے قریب پیش آیا، جہاں این جی او نے مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والے رشتہ داروں کے لیے مفت کھانے کا اسٹال لگایا تھا۔
یہ ویڈیو دو حصوں پر مشتمل ہے اور اسے تین لاکھ سے زائد ویوز اور سینکڑوں تبصرے موصول ہو چکے ہیں۔ایک صارف نے تبصرہ کیا، "یہ شخص مذاق بنا ہوا ہے۔ این جی او کو اس کے رویے کی اطلاع دینی چاہیے۔ اس پر اور اس این جی او پر شرم آنی چاہیے۔ اگر کسی کو معلوم ہے کہ یہ کون سی این جی او ہے تو اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ بالکل شرمناک رویہ ہے۔ کیا یہی ہندو دھرم ہے؟ کیا رام کا یہی پیغام ہے؟ قابلِ نفرت۔”
ایک اور صارف نے لکھا، "اگر کوئی این جی او کسی کو نعرہ نہ لگانے پر کھانا دینے سے انکار کر رہی ہے تو یہ این جی او نہیں ہے! شرم کا مقام ہے، کوئی بھی کمیونٹی ضرورت مندوں کو کھانا کھلانے میں ایسا فرق نہیں کرتی۔”
ویڈیو کے دوسرے حصے میں کیمرہ مین وہاں موجود لوگوں سے پوچھتا ہے کہ کیا انہیں کھانا لینے کے لیے ’جے شری رام‘ کہنا پڑا۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ اس نے نعرہ لگایا تھا، جبکہ ایک اور شخص، جو غالباً اسپتال کا عملہ تھا، نے کہا کہ یہ اصول بنانا غلط اور ناانصافی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر آپ یہاں کھانا تقسیم کرنے آئے ہیں تو بس اپنا کام کریں اور جائیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ بی جے پی نے گزشتہ ایک عشرے میں ہندوتوا کے نام پر ایسا زہر دل ودماغ میں بھر دیا ہے کہ ایک این جی او بھی اس کی زد میں آجاتی ہے،اس بارے میں تحقیق کرنا ہوگی کہ این جی او کابھی یہی مقصد ہے یا وہ مخصوص شخص ذاتی طورپر اس میں ملوث رہاہے۔
ویسے حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے کسی بھی حال میں ہندومسلم اور فرقہ پرستی پر ہی انتخابی سیاست کرنے کافیصلہ کیا ہے،ہریانہ میں اسمبلی الیکشن سے قبل یتی نانند کا متنازع بیان آنا،سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ ہے۔مہاراشٹر اور جھاڑکھنڈ میں بھی یہی کھیل کھیلا جاسکتا ہے،اس لیے کافی ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔اور ان کی فرقہ پرستی کامنہ توڑ جواب’ بیلٹ پیپر’ کی شکل میں دینا ہوگا،ان سے انتقام لینے کا واحد موثر ہتھیار یہی ‘ووٹ ‘ ہے،جوکہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔
9867647741