جانوروں کی قربانی پر عدالت کا تبصرہ

0
63

ہرایک شخص کو سبزی خور نہیں بنایا جاسکتا ہے

یواین آئی

کلکتہ ؍؍کلکتہ ہائی کورٹ نے جانوروں کی قربانی سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہ توقع کرنا غیر حقیقی ہے کہ مشرقی ہندوستان میں ہر شخص سبزی خور ہو گا۔۔ جنوبی دیناج پور کے ایک مندر میں جانوروں کی قربانی کا رواج ہے۔ ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کا مقدمہ دائر کرکے مندر میں 10 ہزار جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کی جائے۔جسٹس بسواجیت بوس اور جسٹس اجے کمار گپتا کی تعطیلاتی بنچ میں اس معاملے میں سماعت ہوئی۔

https://www.calcuttahighcourt.gov.in/
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق دونوں ججوں کی بنچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر کسی کو سبزی خور بنانا ممکن نہیں ریاست کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل کشور دتہ پیش ہوئے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل کی مثال دی۔ دو ججوں کی بنچ نے کہاکہ اگر عرضی گزار کا حتمی مقصد پورے مشرقی ہندوستان کو سبزی خور بنانا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل مچھلی کھائے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتے ہیں۔ایڈوکیٹ جنرل نے اعتراف کیا کہ وہ مچھلی کھائے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں بہت زیادہ نان ویجیٹیرین ہوں۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا مدعی یہ پابندی صرف مندر کے معاملے میں چاہتے ہیں؟ یا مجموعی طور پر جانوروں کی قربانی روکنے کی درخواست کے ساتھ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے؟ جواب میں مدعی کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس صرف ایک مندر کا ہے۔ ان کے مطابق راس پورنیما کے بعد اس مندر میں10,000سے زیادہ جانوروں کی قربانی دی گئی تھی۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ جانوروں کی قربانی کا رواج آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق ضروری مذہبی رسومات ادا کرنے کے حق میں نہیں آتا ہے۔
تاہم مدعی کے وکیل کے اس دعوے پر دو ججوں کی بنچ نے سوال کیا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟ آپ کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ ضروری مذہبی رسومات میں نہیں آتا؟ شمالی ہندوستان کی مذہبی رسومات اس خطہ بنگال اور مشرقی ہندوستان کی مذہبی رسومات سے پوری طرح ایک جیسی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ اس بارے میں بھی بحث جاری ہے کہ آیا افسانوی کردار سبزی خور تھے یا غیر سبزی خور۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ معاملے کو اس طرح محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو چکن کھاتے ہیں۔ لیکن چکن کوکاٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
سماعت کے ایک مرحلے پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ مفاد عامہ کے اس کیس میں مفاد عامہ کے مسائل کا فقدان ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی ایک پرانی ہدایت کا بھی ذکر کیا۔ اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت جانوروں کی قربانی پر پابندی کا حکم نہیں دے سکتی۔ پارلیمنٹ یا پھر اسمبلی قانون سازی کے ذریعہ پابندی عائدکرسکتی ہے۔ اسی وقت ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت میں جانوروں پر ظلم کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 28 کو بھی اٹھایا۔ اس شق میں مذہبی وجوہات کی بنا پر کسی کمیونٹی کو جانوروں کی قربانی کی اجازت دینے کا بھی ذکر ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے جانوروں کی قربانی سے ماحولیاتی آلودگی کا معاملہ بھی عدالت کی توجہ دلانے کی کوشش کی۔ تاہم عدالت نے کہا کہ اگر اس عمل سے ماحول کو نقصان ہوتا ہے تو ریاستی حکومت کو کارروائی کرنی چاہئے۔جسٹس باسو نے عرضی گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ ’’اگر عدالت تمام جانوروں کی قربانیوں پر پابندی کا حکم دیتی ہے، تو یہ کیسے کارآمد ہوگا؟” اس حوالے سے ایک کیس پہلے ہی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عدالت نے تعطیلات بینچ کے اس کیس کو گزشتہ کیس کے ساتھ شامل کرنے کا حکم دیا۔

https://lazawal.com/?cat=

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا