سیکولر پارٹیوں سے مسلمان اپنے مطالبات منوائے تبھی انھیں ووٹ دے
ذوالقرنین احمد شاہ ( جرنلسٹ)
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات 2024 کے انتخابات کا بگل بجتے ہی ہر طرف اسمبلی سیٹوں کے لیے کھینچا تانی شروع ہوچکی ہے مہا وکاس آگھاڑی نے فی الحال 85 کانگریس ،85 ادھو ٹھاکرے،85 این سی پی کل 255 سیٹوں پر اتفاق ہوچکا ہے مہا یوتی کی تصویر بھی واضح ہونے کو ہو، 2019 میں مہاراشٹر میں جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کی سیاست چلتی رہی،
آخر بی جے پی نے شیو سینا ادھو ٹھاکرے کی پارٹی میں پھونٹ ڈال کر پارٹی کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور وہ ثمر آور بھی رہی لیکن اس بار مہاراشٹر میں تمام پارٹیاں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے جیسے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھوک کر پیتا ہے، بی جے پی مہاراشٹر میں حکومت سازی کے لیے ہر طرح کی بازی لگانے کے لیے تیار ہے اور مہا وکاس آگھاڑی نے بھی پوری تیاری کی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مہا وکاس آگھاڑی کی نیا ڈگمگاتی نظر آرہی ہے، کیونکہ مہاراشٹر میں دیگر پارٹیاں جس میں ونچت بہوجن ، سماج وادی پارٹی، ایم آئی ایم وغیرہ اگر غیر منصوبہ بند طریقے سے زیادہ سیٹوں امیدوار کھڑے کرتی ہے تو یہ مہا وکاس آگھاڑی کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوگی،
حکومت چاہے مہا یوتی کے بنے یا کانگریس کی مسلمانوں کا وکاس ہونا ایک خواب ہی ثابت ہوگا جیسے ستر سالوں سے مسلمانوں نے اپنے آپ کو سیاست سے دور رہ کر اپنے پاؤں پر کڑاڑھی ماری ہے اور آج وہ اپنے جائز حقوق کے لیے صرف میمورنڈم دیں کر حق حاصل ہونے کی امید میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اگر مسلمان آزادی کے بعد سیاست میں اپنی قیادت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے اور نئی قیادتوں کو ابھارنے کی فکر کرتے تو وہ آج ملک میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتے۔ مسئلہ مسلمانوں کا ہیں اور اہم بات یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی جان مال سے بڑھ کر شریعت اسلامی کا ہے مسلم پرسنل لاء ، دینی تشخص، اور ناموس رسالت ﷺ کا ہے آج پورے ملک میں جہاں کہیں بھی انتخابات کا شیڈول ظاہر ہوتا ہے تو اس کے بعد ملعون اور گستاخوں کی ٹولیاں مینڈک کی طرح باہر نکل آتی ہے جو مسلمانوں کے جذبات اور انکی ایمانی غیرت و حمیت سے کھیلنا چاہتی ہے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنا چاہتی ہے وہ لوگ کبھی ناموس رسالت ﷺ کے خلاف گستاخی کرتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کی مساجد مدراس یا انکی شریعت میں مداخلت کی کوشش کرتے ہیں اور ہماری مذہبی ملی قیادتیں ہمیں یہ سبق دیتی نظر آتی ہے کہ انتخابات کا دور ہے اس لیے ہمیں بھڑکانے کے لیے اس طرح کا کام کیا جارہا ہے لیکن اس کے حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہیں۔ یعنی انتخابات ہمارے جذبات ایمانی حمیت و غیرت کو مجروح کئے بغیر نہیں ہوسکتے ہیں کیا دیگر پسماندہ طبقات کے لیڈران نے کبھی اسی طرح ان کے رہنماؤں کے خلاف گستاخی برداشت کی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں وہ اپنے حقوق کے لیے ہر طرح کی بازی لگانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ ہماری قیادتیں قوم کو ان کے حال پر چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلیتی ہیں۔
آج مہاراشٹر میں مسلمان صرف ووٹ بینک بن کر رہ گیا ہے بی جے پی کا خوف دلا کر مہا وکاس آگھاڑی مسلمانوں سے ووٹ تو حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن ان کی غربت ، افلاس،بےروزگاری، عدم تحفظ ، معاشی پسماندگی ، تعلیمی پسماندگی ، اور سب سے بڑھ کر تحفظ ناموس رسالت ﷺ شریعت میں مداخلت جیسے سنگین مسئلوں پر منہ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے، آج جو سیکولر پارٹیوں کے لیڈران مسلمانوں کے ووٹوں کو حاصل کرنے کے لیے گلی کوچوں میں گھوم رہے ہیں یہ لوگ انتخابات کے بعد کبھی آپ کے مسائل معلوم کرنے کے لیے نہیں آتے ہیں۔ کچھ آستین کے سانپوں نے قوم کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔
بی جے پی کے لیے مسلمان ایک جیک پوٹ کی طرح ہے ان کی ساری سیاست مسلمانوں کے ارد گرد گھومتی ہے اور مسلمانوں کے نام سے ہی ان کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے یہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرتے رہتے ہیں اور ہندو مسلمان کے نام پر عوام کو بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔آج بی جے پی میں موجود مسلم لیڈران بھی گلی محلوں میں سرگرداں پھرتے نظر آرہے ہیں جو ایسی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں جس نے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردی ہے اور مسلمانوں کی گھیرا بندی شروع ہوچکی ہے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی جارہی ہے اور اب وقف بورڈ کو غصب کرنے کی تیاری ہوچکی ہے جس کے لیے وقف ترمیمی بل پیش کیا جاچکا ہے ، اتنا ہی نہیں بلکہ بی جے پی سے جڑے بھگوا دھاری گستاخ رسول ﷺ جنہوں نے ہماری نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے، ایسے افراد کے ساتھ بھی یہ لوگ کھڑے ہوئے ہیں، آج کا دور حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے کا دور ہے اور حق و باطل الگ الگ خیموں میں بٹ رہے ہیں جو لوگ آج ظالم حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں انھیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کل قیامت میں وہ نبی کریم ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے۔
مہاراشٹر میں انتخابات ہونے جارہے ہیں آج مسلمانوں کو اپنی قیادت کو مضبوط کرنے کے لیے سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہے چاہیے آپ کو کوئی کتنا ہی لالچ دے چاہے وہ آپ کے دروازے پر پیسہ پھینک کر جائیں آپ کو وہ ہی کرنا ہے جو آپ کا ضمیر گواہی دیں گا، ذرا سوچئے جب نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی ہوتی ہیں تو ہم سب ایک ہوکر گستاخ کے خلاف سڑکوں پر اتر آتے ہیں اس کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن انتخابات کے وقت آپ تھوڑے سے پیسہ اور ایک بریانی چائے میں بک جاتے ہیں ایک سچے پکے عاشق رسول ﷺ کو یہ کیسے گوارہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ایسی پارٹی کو ووٹ دے جو گستاخ نبی ﷺ کے ساتھ کھڑی ہو جو قاتلوں کے ساتھ ہو جو عصمت دری کرنے والوں کا پھولوں سے استقبال کرتی ہو، جو مسجدوں کو شہید کرنے والے ہو، جو انسانیت اور امن کے دشمن عناصر ہے ہم ایسے لوگوں کو کیسے اپنا قیمتی ووٹ دے سکتے ہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قیادت کو ابھارنے کے لیے اپنے مخلص رہنماؤں کو ووٹ کریں انھیں مضبوط کریں، رہی بات مہا وکاس آگھاڑی کی تو وہ ہمارے لیے ایک مجبوری ہے اور مجبوری اس وقت تک ہوتی ہے جب تک ہمارے پاس کو دوسرا راستہ نہیں نکل آتا ہے یا پھر ہم خود مضبوط نہیں ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ستر سالوں سے جو سیکولر پارٹیوں نے ہمارا استعمال کیا ہے آج انھیں سبق سکھانے کی ضرورت ہے اگر آپ کے علاقے میں مسلم امیدوار کھڑا ہے چاہے وہ آزاد ہو یا مسلم پارٹی سے ہو اور آپ کے حلقہ کا مسلم ووٹ فیصد اکثریت میں ہے تو متحد ہوکر مسلم امیدوار کو کامیاب کرنے کی پوری کوشش کریں، متحد ہوکر ووٹ کریں، اسی طرح اگر جس جگہ پر سیکولر امیدوار ہے وہاں سے پہلے ہی شہر کے معزز اور قوم کے سچے خدمت گزار مخلص افراد ایک وفد کی شکل میں جاکر وہاں کے سیکولر امیدوار سے ملاقات کریں اور اپنی قوم کی تعلیمی معاشی ترقی اور مذہبی آزادی کے تعلق سے بات کریں اپنے جائز مطالبات کو پیش کریں اور اسے لکھ کر ان سے اپنے مطالبات پر دستخط کرنے کے لیے راضی کریں کہ وہ جیت حاصل کرنے کے بعد ہمارے لیے کام کریں گے۔ اپنے حقوق کا مطالبہ کریں جب تک سیکولر پارٹیوں سے آپ اپنے حقوق کی بات نہیں کریں گے تب تک یہ لوگ بی جے پی کا خوف دیکھا کر آپ کو ووٹ بینک کے طرح استعمال کرتے رہ گے اور بی جے پی بھی اپنے ووٹروں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوتی رہیں گی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہم اپنے مطالبات کو پیش کریں اور سیکولر امیدوار سے اپنے مطالبات کو منوائے تب ہم متحد ہوکر ان کا ساتھ دیں۔