آج منگلوارہے جس کاسب کوانتظار ہے!

0
68
JAMMU, OCT 7 (UNI):- Security personnel maintaining a vigil outside the counting center ahead of counting for the Jammu and Kashmir Assembly Election in Jammu on Monday. UNI PHOTO-38U

کس کے گلے میں ہوگاپھولوں کاہاراورکس کی قسمت میں ہوگی ہار؟فیصلہ آج

سخت سیکیورٹی کے درمیان 20گنتی مراکزمیں90اسمبلی نشستوں کے ووٹوں کی ہوگی گنتی

جان محمد

جموں؍؍جموں و کشمیر میں 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ہونے والے پہلے اسمبلی انتخابات کی ووٹوں کی گنتی بدھ، 8 اکتوبر کو منعقد ہوگی۔

https://eci.gov.in/

اس تاریخی لمحے کو جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کے لیے ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ 90 نشستوں پر ہونے والے ان انتخابات کے نتائج سے ایک نئی منتخب حکومت کی راہ ہموار ہو گی۔ مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام خطے میں، پہلی بار ایک منتخب حکومت کا قیام عمل میں آئے گا، جو علاقائی سیاست کے تناظر میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

انتخابات کی گنتی کے عمل کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے جموں و کشمیر کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں 20 گنتی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں تین درجوں کی سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ عہدیداروں کے مطابق، گنتی مراکز کے اندر صرف مجاز گنتی ایجنٹس اور انتخابی عملے کو داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ ہر گنتی مرحلے کے بعد، ووٹوں کی تعداد کا اعلان پبلک ایڈریس سسٹم کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ شفافیت برقرار رہے۔جموں کے تین تعلیمی اِداروں گورنمنٹ پی ایس پی ایس کالج برائے خواتین گاندھی نگر،ایم اے ایم کالج جموں اور پولیٹیکنک کالج جموں بند رہیں گے جہاں جموں ضلع کے اسمبلی حلقوں کی ووٹ شماری ہوگی۔ جموں کے ڈپٹی کمشنر سچن کمار ویشیا نے ووٹوں کی گنتی کے لیے سیکیورٹی تیاریوں کے بارے میں بتایاکہجموں میں 11 اسمبلی حلقے ہیں۔ ان میں سے چھ حلقوں کی گنتی گورنمنٹ پولی ٹیکنک کالج میں ہوگی جبکہ باقی پانچ حلقوں کی گنتی ایم ایم کالج میں ہوگی۔ اطراف کے علاقوں میں تین سطحی سیکیورٹی تعینات کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، سیکیورٹی کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور بھارتیہ نگریق سرکشا سنہیتا کے مطابق پابندی کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
جموں و کشمیر کے یہ انتخابات تین مرحلوں میں منعقد ہوئے۔ پہلے مرحلے میں 24 نشستوں پر 18 ستمبر کو ووٹنگ ہوئی، دوسرے مرحلے میں 26 نشستوں پر 24 ستمبر کو جبکہ تیسرے اور آخری مرحلے میں یکم اکتوبر کو 40 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی۔ یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ ان کا انعقاد 2014 کے بعد پہلی بار ہو رہا ہے جب کہ ریاست کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد یہ پہلا اسمبلی انتخاب ہے۔
میدان میں 873 امیدوار موجود ہیں جن میں کئی بڑی سیاسی شخصیات شامل ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ،علی محمد ساگر، سریندر چوہدری، اعجاز جان ، سجاد شاہین، بھاجپاکے صدر رویندر رینہ، دریندرسنگھ رانا، سرجیت سنگھ سلاتھیہ ، شام لال شرما، چندر پرکاش گنگا، سنیل شرما، پیپلز کانفرنس کے سجاد لون،عمران رضا انصاری، کانگریس کے طارق حمید قرہ،رمن بھلہ، چوہدری لال سنگھ،تاراچند،پیرزادہ محمد سعید، غلام احمد میر، شاہ نواز چوہدری،وقار رسول وانی ، پی ڈی پی کی التجا مفتی، سی پی آئی (ایم) کے محمد یوسف تاریگامی،اپنی پارٹی کے سیدمحمد الطاف بخاری اور سابق نائب وزرائے اعلیٰ مظفر حسین بیگ اور آزاداُمیدواروں میں نمایاں نام اعجاز احمد خان، غلام محمد سروڑی اور جگل کشور شرما قابل ذکر ہیں۔
انتخابات کے بعد سامنے آنے والے ایگزٹ پولز کے مطابق نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کو سبقت حاصل ہونے کا امکان ہے، جبکہ علاقائی جماعتوں کے مقابلے میں بی جے پی اپنی نشستوں میں تھوڑی بہتری کی امید کر رہی ہے۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 25 نشستیں جیتی تھیں، اور اس بار ان کی پوزیشن میں معمولی بہتری متوقع ہے۔ تاہم، پی ڈی پی، جو 2014 کے انتخابات میں 28 نشستیں جیت چکی تھی، کو اس بار نشستوں کی بڑی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پیش گوئیوں کے مطابق پی ڈی پی شاید 10 نشستیں بھی نہ جیت سکے۔
مجموعی طور پر، انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 63.45 فیصد رہا، جو کہ 2014 کے 65.52 فیصد سے تھوڑا کم ہے۔ اس ٹرن آؤٹ کو جموں و کشمیر کے عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ اور ان کی جمہوری عمل میں شرکت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ان انتخابات میں کئی نئی اور ابھرتی ہوئی جماعتیں بھی میدان میں اتری ہیں جن میں غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی، شیخ عبدالرشید کی عوامی اتحاد پارٹی، اور دیگر آزاد امیدوار شامل ہیں۔ تاہم، سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ان جماعتوں کو زیادہ نشستیں ملنے کا امکان کم ہے۔ اندازہ ہے کہ نئی اور آزاد جماعتیں تقریباً 10 نشستیں حاصل کر سکتی ہیں۔
یہ انتخابات جموں و کشمیر کی سیاست میں ایک نئی سمت کا تعین کریں گے۔ نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد اگر کامیاب ہوتا ہے تو ایک علاقائی اور قومی پارٹی کا مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل پائے گا، جو مرکز کی جانب سے نافذ کی گئی پالیسیوں اور فیصلوں کو چیلنج کر سکتا ہے۔ دوسری طرف، بی جے پی اگر اپنی نشستوں میں بہتری لاتی ہے تو یہ مرکزی حکومت کے لیے ایک مضبوط سیاسی حمایت کا مظہر ہو گا۔مجموعی طور پر، یہ انتخابات جموں و کشمیر کی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہوں گے، جہاں مختلف سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملیوں کو دوبارہ ترتیب دیں گی اور عوامی مفاد میں فیصلے کریں گی۔

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا