نکاح کوپیغمبرِاسلامؐ نے میری سنت فرمایا‘اُس کی تکمیل آپؐ کی مرضی کے مطابق ہی ہوگی

0
36

آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈکی ’’مسنون نکاح مہم‘‘ کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح ممکن۔ مولانا خلیل احمد ندوی نظامی

لازوال ویب ڈیسک۔

حیدرآباد شریعتِ مطہرہ نے دُنیائے انسانیت پر بڑا احسان کیا ہے‘ پیغمبراسلامؐ نے پُرامن

زندگی گزارنے کیلئے ایک نہایت مہذب معاشرہ کو وجود بخشا۔ اللہ کے اور بندوں کے حقوق کی تفصیل اور تمام طریقے بتلائے جن پر چل کر شب وروز کا ایک ایک لمحہ عافیت کے ساتھ گزارا جاسکتا ہے۔ مولانا خلیل احمد ندوی نظامی‘ سابق ماہرکتبات‘ عربی وفارسی‘ ڈیپارٹمنٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیمس‘ چیئرمین صمدانی گروپ آف ایجوکیشنل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوشنس‘ سنٹرNCPUL، فانوسِ آگہی (کل ہند سطح پر اسکولس؍ کالجس لیول پر تاریخِ اسلام وثقافتِ اسلامیہ سے واقف کرانے کے متعلق مہم) حیدرآباد نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت ملکی سطح پر جاری

http://www.urducouncil.nic.in/

’’مسنون نکاح مہم‘‘ کو اصلاحِ معاشرہ کی جانب ایک اہم اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ اعمال واخلاق کی دُرستگی پر دینِ اسلام نے خاص توجہ مبذول کروائی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں موجود بے راہ رویوں اور پیچیدگیوں کے تدارک اور معاشرہ میں پائی جانے والی سنگین برائیوں کے سدباب کیلئے اہلِ فکرونظر‘ ذمہ دارانِ قوم‘ فنِ تقریر وتحریر سے وابستہ مصلحین اور دردمندحضرات انفرادی واجتماعی طورپر اپنی مخلصانہ کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘ تمام تر عملی اقدامات کے باوجود خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوپارہے ہیں۔ اہم ترین فریضہ شادی بیاہ‘ بہت زیادہ غیرشرعی رسوم ورواج‘ جہیز کی لعنت اور بے بنیاد روایات کی لپیٹ میں ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے کتنے مشفقانہ انداز میں نکاح کو اپنی ذات مبارکہؐ کی طرف منسوب کرتے ہوئے نکاح میری سنت ہے فرمایا۔ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ آپؐ کے بتلائے ہوئے مسنون طریقہ کے مطابق عمل کرنے پرہی یہ مبارک سنت نکاح پایۂ تکمیل کو پہنچے گی۔ دینِ اسلام کا یہ حُسن ہے کہ اُس نے جس عمل کو سنت کا درجہ دیا اُس کی ادائیگی کا مسنون طریقہ بھی بتلایا۔ ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی عمل سنت ہو اور اس کو انسان اپنی مرضی اور اپنے من چاہے طریقہ کے مطابق انجام دیں تو ایسا عمل اللہ ورسولؐ کے نزدیک مقبول نہیں۔ جب نکاح کو آپؐ نے اپنی ذاتِ اطہرؐ کی طرف منسوب فرمایا تو اس مہتم بالشان سنت کی تکمیل کوئی اپنی خودکی ذاتی مرضی ومنشاء کے مطابق کیسے کرسکتا ہے!۔ باہمی انتشار اور اختلاف ومشکلات سے محفوظ رکھنے کیلئے ہرعمل کے مرتبہ کا تعین‘ فرض‘ واجب‘ سنت‘ نفل ومستحب کی شکل میں کرتے ہوئے اُن کی ادائیگی کی جانب نبیٔ رحمتؐ نے مکمل رہنمائی کے ذریعہ اُمت پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں کی جانب سے شادی جیسے مواقع پر اللہ اور اس کے رسولؐ کے مسنون طریقہ کو اوّلین ترجیح دے کر اپنانے کے بجائے اپنی اور متعلقین کی خوشنودی کو فوقیت دی جارہی ہے۔ رشتۂ اِزدواج کے متعلق بات چیت کی پہلی نشست سے شروع ہونے والے رسوم ورواج کا تسلسل‘ عقد کے دوران اور اس کے بعدبھی مقررہ مدت تک مختلف روایتی تقاریب کے نام سے طرفین کے درمیان جاری رہتا ہے۔ مسنون نکاح میں ایجاب وقبول کیلئے محفل کے انعقاد کا لزوم نہیں‘ سیاہ نامہ میں جن کی دستخط ہوتی ہے ان کی موجودگی پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے موجودہ معاشرہ میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ نکاح سے متعلق تقاریب میں رشتہ داروں ودوست احباب کی ان سے جڑے رشتے‘ مرتبے اور تعلق کی بنیادپر شرکت اور ان کا شایان شان استقبال لازمی سمجھا جاتا ہے، جبکہ سیرت پاک کی روشنی میں یہ بات ملتی ہے کہ بعض حضراتِ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بابرکت ومسعود نکاح میں آنحضرتؐ کی شرکت نہیں ہوتی، اور بعض اوقات ظاہری رکھ رکھاؤ کو دیکھ کر آپؐ صحابیؓ سے دریافت فرماتے کہ کیا نکاح کیا ہے؟ مثبت میں جواب ملتا‘ جس پر آپؐ اپنی خوشی کا اظہار فرماتے، آپؐ کی شرکت کے بغیر نکاح کا عمل آپؐ کی عین منشاء کے مطابق بحسن وخوبی انجام پاتا۔ سنت کی روشنی میں وہ نکاح زیادہ برکت والا ہے جس میں تکلیف وپریشانی کم ہو اور فضول خرچی ونام ونمود سے بچاجائے۔ شریعت کے بتلائے ہوئے طریقہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے غریب ونادار گھرانوں کی لڑکیاں نہایت صبرآزما دورسے گزررہی ہیں‘ یہاں تک کہ خودکشی کابھی شکار ہورہی ہیں‘ جبکہ نکاح کو اسلام نے نہایت آسان بنادیا، سادگی سے پورا کرنے کی تاکید کی، آپؐ نے صاف فرمادیا کہ اگرتم واقعی نکاح کے ذریعہ ملنے والی نعمتوں سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہوتو نکاح کو سادگی کے ساتھ انجام دو‘ رحمتِ الٰہی کا سایہ تم پر ہمیشہ قائم ودائم رہے گا۔ نکاح‘ دراصل زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عہدوپیمان ہے، اس کو خوشگوار رکھنے میں طرفین کا کمال اور شرافت کا راز پوشیدہ ہے‘ اس لیئے اسلام نے تاکید کی کہ زوجین آپس میں نرمی‘ اکرام اور بہترین سلوک کا مظاہرہ کریں۔ نکاح کا اوّلین مرحلہ رشتہ کی تلاش ہوتا ہے جس کے متعلق اسلامی تعلیمات میں تاکید کی گئی ہے کہ نیک اور شریف لڑکے کا رشتہ آجائے جو اپنی زوجہ کی کفالت کی اہلیت رکھتاہو تو محض اس کی مالی کمزوری کی وجہ سے انکار مت کرو اور لڑکی سے متعلق یہ حکم ہے کہ اُس کی دینداری کو ترجیح دو۔ مہرکی بروقت ادائیگی کی ترغیب دی گئی ہے۔ اعلانِ نکاح کے طورپر ولیمہ مسنون ہے، اس میں بھی تکلّفات‘ تفاخر واسراف سے منع کیا گیا ہے، اس میں رشتہ دار‘ دوست واحباب کے ساتھ غرباء ومساکین کی شرکت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نکاح سے جڑے ہوئے اُمور کے متعلق سادگی اختیار کرنے کو شریعت نے پسند کیا ہے، تاکہ زوجین ودونوں گھرانوں پر اُس کے اچھے اثرات مرتب ہوں؛ ورنہ ذہنی سکون‘ قلبی اطمنان اور سماجی وقار واعتماد کے حصول کیلئے انجام پائے جانے والے نکاح کے معاملے میں جب شریعت وسنت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے‘ صرف ذاتی مرضیات اور خواہشات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے تو ایسی شکل وصورت میں باہمی محبت والفت کے بجائے نفرت وتناؤ اور کئی ایک مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آپؐ کے بتلائے گئے مسنون طریقۂ نکاح کے ذریعہ جو رشتہ وجود میں آتا ہے وہ نہایت مقدس وپاکیزہ ہوتا ہے، اس لیے حتی المقدور یہ کوشش ہونی چاہئے کہ نکاح کا عمل سنت طریقے پر پایۂ تکمیل کو پہنچے۔

/lazawal.com/?page_id

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا