ہریانہ انتخابات کی سمت اور حالت طے کر سکتے ہیں
https://eci.gov.in/
یواین آئی
چنڈی گڑھ؍؍’بجلی، سڑک، پانی‘کے بجائے اس بار ہریانہ اسمبلی انتخابات میں جوان، کسان اور پہلوانوں کا غلبہ ہے اور یہی امور انتخابات کی حالت اور سمت طے کرسکتے ہیں۔بے روزگاری کے بحران سے دوچار ہریانہ میں فوج میں کنٹراکٹ بھرتی اسکیم اگنی پتھ نے جوانوں کو مرکز میں لا کھڑا کیا ہے اور وہیں کانگریس اس اسکیم کو بہانہ بنا کر بی جے پی کو مسلسل نشانہ بناتی رہی ہے کہ اس اسکیم کو جوانوں سے پنشن چھیننے کے لئے لایا گیا ہے۔ ساتھ ہی بی جے پی نے ہریانہ کے اگنی ویروں کو پنشن کے ساتھ نوکریاں دینے کا وعدہ کرکے ’ڈیمیج کنٹرول‘کرنے کی کوشش کی ہے۔
بعد میں کانگریس نے بھی منشور میں اگنیویروں کو سرکاری نوکریوں کا وعدہ کیا۔ بے روزگاری کے معاملے پر دونوں پارٹیوں نے کئی وعدے کیے ہیں جن میں دو لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ بی جے پی اپنے 10 سالہ دور حکومت میں بغیر ‘خرچی پرچی’ کے ملازمتیں فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے اور کانگریس پر ملازمتوں میں بدعنوانی کا الزام لگا رہی ہے، جب کہ کانگریس پیپر لیک کے واقعات پر بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس اسرائیل میں غیر ہنر مند/نیم ہنر مند کارکنوں کی بھرتی یا یوکرین-روس جنگ میں پھنس جانے یا ڈنکی روٹ سے بیرون ملک جانے کے واقعات کو بے روزگاری کے مسئلے سے جوڑ رہی ہے، لیکن اگنیویر بے روزگاری کے معاملے پر مرکزی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔
کسانوں پر توجہ کا مرکز دہلی کی سرحدوں پر 2020-21 میں زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج سے ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے زرعی قوانین کو واپس لے لیا، لیکن کسانوں کا غصہ برقرار ہے، جس کی وجوہات میں کسانوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عمل نہ کرنا، کم از کم امدادی قیمت کے لیے گارنٹی کا قانون نہ بنانا، کسانوں کے خلاف درج مقدمات واپس نہ لینا شامل ہیں۔ کسان تحریک-2 کے دوران کسانوں کو دہلی جانے سے روکنے کے لیے ہریانہ حکومت کی طرف سے سرحدوں کو سیل کرنا اور طاقت کا استعمال بھی کسانوں کے غصے کی ایک وجہ ہے۔ خاص طور پر بی جے پی کے کئی لیڈروں کو ہریانہ کے دیہی علاقوں میں کسانوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ بی جے پی حکومت نے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر 24 فصلیں خریدکر، مرکز کی کسان سمان ندھی اسکیم اور فصل کی خرابی کا معاوضہ دے کر کسانوں کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف کانگریس نے کسانوں کی تحریک کے دوران مارے گئے 700 سے زیادہ کسانوں کی یاد میں سندھو یا ٹکری سرحد پر ایک شہید یادگار بنانے کا وعدہ کیا ہے۔
جہاں تک ’پہلوان‘کے معاملے کا تعلق ہے، یہ مسئلہ دہلی میں جنسی ہراسانی کی شکایت کے بعد خواتین پہلوانوں کے مظاہرے کی وجہ سے ایک مسئلہ بننا شروع ہوا کیونکہ ہریانہ کو کھلاڑیوں کی ریاست سمجھا جاتا ہے۔ پہلوانوں کو احتجاج کے مقام سے ہٹانے اور ملزم برج بھوشن سنگھ کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہ کرنے سے (اس کا لوک سبھا الیکشن کا ٹکٹ کاٹ کر ان کے بیٹے کو دیا گیا تھا) بی جے پی اس معاملے پر پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ کانگریس نے جولانہ سے تحریک کے چہرے ونیش پھوگاٹ کو ٹکٹ دے کر معاملہ بنا دیا ہے۔ پیر کو بھی پرینکا گاندھی نے امبالہ میں کہا کہ جب دہلی میں پہلوان کئی دنوں سے احتجاج کر رہے تھے، وزیر اعظم نے ان کے پاس جانا تو دوریہ پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ کیا وہ ان کی مدد کر سکتے ہیں،۔ پہلوانوں کا مسئلہ براہ راست خواتین سے جڑا ہوا ہے، جنہیں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کے درمیان نہ صرف معاشی محاذ پر اپنے کنبہ کو چلانے بلکہ اپنی حفاظت کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
خواتین کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں بڑی پارٹیوں نے ایل پی جی سلنڈر 500 روپے میں دینے کے علاوہ کئی وعدے بھی کیے ہیں۔مجموعی طور پر اس اسمبلی انتخاب میں جس میں بی جے پی تیسری بار حکومت بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور کانگریس 10 سال بعد واپسی کی کوشش کر رہی ہے، بہت سے مسائل ہیں لیکن جوانوں، کسانوں اور پہلوانوں کے مسائل ہی انتخابات کی سمت اور حالت طے کر سکتے ہیں۔