چائلڈ پورنوگرافی رکھنا اور دیکھنا جرم ہے : سپریم کورٹ

0
53

 

پوکسو ایکٹ کے علاوہ اسے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت بھی جرم تصور کیا جائے گا

یواین آئی

نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے آج ایک ’تاریخی فیصلے‘میں کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسی حرکات اور ان سے متعلق توہین آمیز مواد کو رکھنا یا دیکھنا بچوں کے جنسی جرائم سے تحفظ کی خلاف ورزی ہے۔

https://www.livelaw.in/

پوکسو ایکٹ کے علاوہ اسے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت بھی جرم تصور کیا جائے گا۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے این جی او ’جسٹ رائٹ فار چلڈرن الائنس‘ کی اپیل اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن کی مداخلت پر معاملے میں مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا اور نئی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

بنچ نے اپنے فیصلے میں مرکزی حکومت کو ’چائلڈ پورنوگرافی‘کے لفظ کو ترمیم شدہ اصطلاحات – ‘بچوں کا جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مواد’ سے تبدیل کرنے کے لیے ضروری طریقہ کار اپنانے کی ہدایت دی ہے۔بنچ نے کہا ’’پارلیمنٹ کو پوکسو قانون میں ترمیم لانے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ’چائلڈ پورنوگرافی‘کی اصطلاح کو ’بچوں کے جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مواد‘سے تبدیل کیا جا سکے تاکہ اس طرح کے جرائم کی حقیقت کو زیادہ درست طریقے سے ظاہر کیا جا سکے۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ فی الحال حکومت اس ترمیم کے لیے آرڈیننس جاری کر سکتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ملک میں جنسی تعلیم کے پروگراموں کے وسیع پیمانے پر نفاذ کی تجویز بھی پیش کی ، جس میں نابالغوں کے ساتھ جنسی تعلق کی تصویر کشی کے قانونی اور اخلاقی نتائج کے بارے میں معلومات بھی شامل ہونی چاہیے۔بنچ کو امید ہے کہ اس سے ممکنہ جرائم کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جنسی تعلیم جیسے پروگراموں کو عام لوگوں میں غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہیے اور نوجوانوں کو جنسی رضامندی اور جنسی استحصال کے اثرات کے بارے میں واضح سمجھ فراہم کرنا چاہیے۔
بنچ نے مرکزی حکومت کو ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے پر غور کرنے کی تجویز کی بھی حمایت کی، جو صحت اور جنسی تعلیم کے لیے ایک جامع پروگرام یا طریقہ کار وضع کرنے کی سفارش کر سکتی ہے۔ عدالت نے ملک بھر کے بچوں کو کم عمری سے ہی پوسکو کے بارے میں آگاہ کرنے پر زور دیا ہے تاکہ بچوں کے تحفظ، تعلیم اور جنسی بہبود کے لیے ایک مضبوط اور سوچے سمجھے انداز کو یقینی بنایا جا سکے۔عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اپنے پلیٹ فارمز سے حکومت یا اس کی ایجنسیوں کی طرف سے بچوں کے جنسی مواد کے طور پر شائع شدہ قابل اعتراض مواد کو فوری طور پر نہیں ہٹاتے ہیں، بغیر کسی ثبوت کے، تو ایسے پلیٹ فارم پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 79 کے تحت دیے گئے تحفظ کا فائدہ حاصل نہیں کر سکے گا۔
یہاں تک کہ اگر اس طرح کے پلیٹ فارمز کے زیر کنٹرول کمپیوٹر وسائل میں موجود یا اس سے منسلک کوئی بھی معلومات، ڈیٹا یا کمیونیکیشن لنک غیر قانونی سرگرمیوں کے ارتکاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تب بھی انہیں آئی ٹی ایکٹ کی مذکورہ بالا سیکشن کا تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔خیال رہے کہ مدراس ہائی کورٹ نے 11 جنوری 2024 کے اپنے فیصلے میں ایس ہریش نامی ملزم کے خلاف دائر ایف آئی آر اور چارج شیٹ کو منسوخ کر دیا تھا۔ ایف آئی آر میں الزام یہ تھا کہ ہریش اپنے موبائل فون پر بچوں کا استحصال اور ہتک آمیز مواد دیکھتا ہوا پایا گیا۔
مدراس ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ اگرچہ دو ویڈیوز جن میں بچوں کو جنسی سرگرمیوں میں ملوث دکھایا گیا تھا، ملزم کے موبائل فون میں ڈاؤن لوڈ اور محفوظ کیا گیا تھا اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس نے اسے دیکھا ہے، تب بھی یہ سیکشن 14(1) کے تحت جرم ہے۔ لیکن اس معاملے میں پوکسو کے تحت کوئی جرم نہیں کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ بغیر کسی نشریات یا اشاعت کے چائلڈ پورنوگرافی کو دیکھنا یا ڈاؤن لوڈ کرنا آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67B کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے۔این جی او جسٹ رائٹ فار چلڈرن الائنس نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے جواز کو چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایچ ایس پھولکا ان کی طرف سے عدالت میں کھڑے تھے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن کی جانب سے سینئر وکیل سوروپما چترویدی نے اس معاملے میں مداخلت کی۔
عدالت عظمیٰ کی بنچ نے کہا کہ پوکسو کی دفعہ 15 ذیلی دفعہ (1)، (2) یا (3) کے تحت مخصوص مقصد کے ساتھ بچوں کے جنسی مواد کو ذخیرہ کرنے یا رکھنے کے لیے تین الگ الگ جرائم کے لیے فراہم کرتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر پولیس اور عدالتیں، کسی بھی چائلڈ پورنوگرافی کو ذخیرہ کرنے یا رکھنے سے متعلق کسی بھی معاملے کی چھان بین کرتے ہوئے یہ محسوس کرتی ہیں کہ دفعہ 15 کی کوئی خاص ذیلی دفعہ نافذ نہیں ہوتی ہے، تو انہیں اس نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہیے کہ پوکسو کی دفعہ 15 کے تحت کوئی جرم نہیں کیا گیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ ایسے معاملے میں وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آیا یہ مقدمہ پوکسو کے کسی اور ذیلی دفعہ کے تحت آتا ہے یا نہیں۔ اپنے فیصلے میں، بنچ نے کہا کہ جنسی سرگرمی کے کسی بھی صریح فعل کی کوئی بھی تصویر کشی، اگر کوئی معقول شخص پہلی نظر میں یہ مانے کہ اس میں کسی بچے کی تصویر کشی کی گئی ہے یا کسی بچے کو شامل کیا گیا ہے، تو یہ ’چائلڈ پورنوگرافی‘کے مترادف ہوگا۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس طرح کے مواد کے بارے میں فارنسک سائنس لیبارٹری کی رپورٹ یا متعلقہ مواد پر کسی ماہر کی رائے یا عدالتوں کے ذریعہ خود اس طرح کے مواد کی جانچ سے اطمینان حاصل کیا جاسکتا ہے۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ آئی ٹی ایکٹ کا سیکشن 67B ایک وسیع پروویڑن ہے، جو بچوں کے آن لائن استحصال اور بدسلوکی کی مختلف الیکٹرانک شکلوں کو دیکھنے اور سزا دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

http://lazawal.com

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا