تعلیم سے محروم بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

0
189
نریندر شرما
جے پور، راجستھان
”میرے چار بچے ہیں، ان کو اسکول بھیجنا تو دور، میرے پاس ان کو کھانا کھلانے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ کبھی مجھے مزدوری ملتی ہے اور کبھی نہیں، ایسی صورت حال میں ان کے کھانے کا بندوبست کروں یا ان کے تعلیم کی فکر کروں؟ پہلے اسکول میں داخلہ دلانے کی کوشش بھی کی لیکن برتھ سرٹیفکیٹ کے بغیر کوئی اسکول ان کا داخلہ کرنے کو تیار ہی نہیں ہوا۔میں سلم بستی میں رہتا ہوں۔پچاس سال پہلے میرے والد یہاں پر مستقل طور پر رہنے لگے تھے۔لیکن آج تک ہم میں سے کسی کا بھی آدھار کارڈ نہیں بنا ہے۔جس کی وجہ سے عورتوں کو ہسپتال والے ایڈمیٹ ہی نہیں کرتے تھے۔ ایسے میں انہیں گھر پر ہی بچوں کو جنم دینا پڑا۔گھر پر جنم کی وجہ سے نگر نیگم ان کا برتھ سرٹیفکیٹ دیتا ہی نہیں ہے۔اس کی وجہ سے ان کا اسکول میں ایڈمیشن نہیں ہوتا ہے۔ اب آپ بتاؤ، میں مزدوری کرکے ان کا پیٹ بھروں یا اپنا کام چھوڑ کر داخلہ کے لیے بھاگ دوڑ کروں؟“ یہ بات راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں راون منڈی کی کچی آبادی میں رہنے والے 40 سالہ بھولا رام جوگی کا ہے۔ریاست کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے جے پور شہر بہت سی سہولیات سے آراستہ ہے۔ لیکن اسی جے پور میں راون کی منڈی کے نام سے مشہور سلم بستی (کچی آبادی) کئی بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔تقریباً 300 افراد کی آبادی والی اس کالونی میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے زیادہ تر خاندان رہائش پذیر ہیں۔ جس میں جوگی، کالبیلیہ اور میراسی برادریوں کی تعداد زیادہ ہے۔
 صحت اور پینے کے پانی کے مسائل کے ساتھ ساتھ یہاں بچوں کی تعلیم بھی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اکثر بچے سکول جانے کی بجائے سارا دن بیکار گھومتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات بری عادتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بستی کے 35 سالہ کللا رام جوگی کا کہنا ہے کہ بچوں کا آدھار کارڈ نہ بننے کی وجہ سے انہیں کسی بھی اسکول میں داخلہ نہیں ملتا ہے۔اس لیے میرے بچے اسکول جانے کی جگہ میرے ساتھ کام سیکھتے ہیں۔“ کللا رام بانس سے بنی اشیاء بنانے کا کام کرتے ہیں۔ جس میں ان کی بیوی بھی کام میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ اب چونکہ ان کے بچے اسکول نہیں جاتے ہیں اس لیے وہ انھیں اپنے آبائی کام سکھا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے تک وکرم نامی لڑکا اپنی مرضی سے کالونی کے بچوں کو پڑھانے آیا کرتا تھا۔ کالونی کے تمام بچے اس سے پڑھتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ تھوڑا تھوڑا لکھنا پڑھنا سیکھنے لگے تھے۔ لیکن پھر اچانک اس نے آنا بند کر دیا جس کے بعد اب کوئی بھی بچوں کو پڑھانے نہیں آتا ہے۔اس کالونی کے تقریباً 25 خاندان کا تعلق کالبیلیہ اور میراسی سے ہے جبکہ 35 خاندان جوگی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں تقریباً 50 سے 60 لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو اسکول جانے کی عمر کے ہیں۔ لیکن وہ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے یا تو سارا دن بیکار گھومتے رہتے ہیں یا خاندان کے روایتی فنون سیکھتے ہیں۔ اس کالونی میں چھوٹے بچوں کے لیے بھی آنگن واڑی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ تاہم اس بستی سے تقریباً دو کلومیٹر دور ایک پرائیویٹ سکول بھی چل رہا ہے۔ لیکن مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو وہاں پڑھانے کے قابل نہیں ہے۔ بچوں اور نوعمروں کے اسکول نہ جانے کی وجہ سے وہ بری صحبت میں پڑ کر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے لگتے ہیں۔ اجے (نام بدلا ہوا) جو کالونی کے اندر گروسری کی دکان چلاتے ہیں، کہتے ہیں، ”نوعمروں نے اسکول نہ جانے کی وجہ سے غلط سمت میں بھٹکنا شروع کر دیا ہے۔ وہ دن بھر تاش اور جوا کھیلتے ہیں۔ کچھ نوجوان منشیات میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے کسی کے گھر اور آس پاس کے علاقوں میں رکھا ہوا سامان بھی چوری کرنا شروع کر دیا ہے جو اس معاشرے کے لیے باعث تشویش ہے۔
 ایک اور رہائشی گنگا رام کا کہنا ہے کہ ”کئی بار مختلف تنظیموں سے وابستہ کارکن اس کالونی میں آتے ہیں اور ترقیاتی کاموں پر کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کالونی کے لوگوں کو تھوڑے وقت کے لیے فوائد ملتے ہیں، لیکن کوئی بھی بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم پر کام نہیں کرتا ہے۔جس کی وجہ سے یہاں کی نئی نسل غلط سمت میں بھٹکنے لگی ہے۔“کالونی میں رہنے والے میراسی برادری کے سلمان اور عید محمد کا کہنا ہے کہ ”تقریباً 35 سال قبل ان کا خاندان بہتر کام کی تلاش میں اجمیر سے اس کالونی میں رہنے آیا تھا۔ دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ یہاں بنیادی سہولیات کا بھی بہت فقدان ہے۔ یہاں کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھانا چاہتے ہیں لیکن ان کی پیدائش گھر پر ہونے کی وجہ سے ان کا سرٹیفکیٹ نہیں بنتا ہے جس کے بغیر وہ آدھار کارڈ جیسی اہم سہولت سے محروم ہیں۔ یہاں کا سرکاری اسکول انہیں داخلہ دیتا ہے۔“ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں کالبیلیا اور جوگی برادری کے ساتھ میراسی برادری بھی رہتی ہے۔ وہ ان کی خوشی اور غم کے ساتھی ہیں۔ لیکن بچوں کا تعلیم سے محروم رہنا اس کالونی کے تمام خاندانوں کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ سلمان اور عید محمد کا کہنا ہے کہ کالونی کے والدین روزی روٹی کمانے میں مصروف ہونے کے باعث جوانی کو پہنچ چکے اپنے بچوں پر توجہ نہیں دے پاتے جس کی وجہ سے وہ غلط سمت میں بھٹکنے لگے ہیں۔ اگر ان کے لیے تعلیم کے انتظامات کیے جائیں، بغیر کسی سرٹیفکیٹ کے ان کے لیے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے کا انتظام کیا جائے تو نہ صرف یہاں کے باشعور والدین کی پریشانیاں دور ہو جائیں گی بلکہ اس سے دوسرے والدین بھی حوصلہ افزائی کریں گے اور اپنے بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے دیں گے۔ وہ انہیں اپنے روایتی کام سکھانے سے پہلے اسکول بھیجنا چاہیں گے۔“
اس سال کے بجٹ میں راجستھان حکومت نے تعلیم پر 38,712 کروڑ روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو ریاست کے زیر انتظام 63 ہزار سرکاری اسکولوں پر خرچ کیا جائے گا۔ امید کی جانی چاہیے کہ یہ رقم راون کی منڈی جیسی کچی بستیوں میں رہنے والے بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم سے جوڑنے میں مدد دے گی اور ان کے لیے اسکول تک رسائی آسان بنائے گی۔ جہاں وہ بغیر کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت اور مجبوری کے آسانی سے اسکول جا سکیں کیونکہ تعلیم سے محروم بچوں کا مستقبل نہ صرف ایک خاندان کا مستقبل بلکہ معاشرے اور ملک کا مستقبل بھی تاریک ہو جاتا ہے۔ یہ ایک لازمی عنصر ہے جو انسانی معاشرے کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے معاشرے میں عقل، علم، سمجھ اور لگن کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایسے میں آزادی کے 75 سال بعد بھی راون کی منڈی جیسی شہری کچی بستیوں کے بچوں اور نوعمروں کی تعلیم سے محرومی مہذب معاشرے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے حکومت اور محکمے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی بڑا کردار ادا کرنا ہو گا۔ (چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا