انسانی زندگی پر بھاری پڑتی آوارہ کتوں کی دہشت

0
0

بابر نفیس

ڈوڈہ،جموں

حال ہی میں برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی ایکس ایل نسل کے کتوں پر پابندی لگانے کی تیاری کر رہی ہے کیونکہ گذشتہ چند سالوں میں اس نسل کے کتوں نے کئی لوگوں پر حملہ کر کے انہیں شدید طور پر زخمی کر دیا ہے۔

اس میں عورتیں، بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں۔کتوں کا انسانوں پر حملہ صرف برطانیہ کا ہی مسّلہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں بھی یہ معاملہ بہت سنگین رہتا ہے۔ حالانکہ یہاں گھریلو کتوں سے زیادہ آوارہ کتوں کا خوف اور دہشت ہے۔ملک کا ایسا کوئی حصہ نہیں ہے جہاں آوارہ کتوں کا دہشت دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یوٹی جموں شہر میں بھی آوارہ کتوں کا مسّلہ بہت سنگین ہے۔صوبہ جموں کو جمو و کشمیر کا مرکز کہا جاتا ہے۔

کیونکہ سردیوں کے ایام شروع ہوتے ہی بیشتر پہاڑی علاقوں کے لوگ جموں کا رخ کرتے ہیںاور سردیوں کے تین مہینے جموں میں ہی اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔اگرچہ جموں میں اس قدر لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے تو اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ صوبہ کشمیر کے بیشتر سرکاری دفاتر کو جموں سے ہی چلانے کا کام کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بھی لوگوں کے آنے کا سبب بنا رہتاہے۔اس میںشہر کے بٹھنڈی کا علاقہ سب سے اہم ہے۔

جہاں ہر وقت لوگوں کی بھاری بھیڑرہتی ہے۔دراصل یہاں کی آب و ہوا بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقہ کے لوگوں کے لیےانسانی زندگی پر بھاری پڑتی آوارہ کتوں کی دہشت کئی طرح کی سہولیات بھی میّسر ہوتی ہے۔لیکن یہاںلوگوں کو سب سے زیادہ جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہے آوارہ کتوں کا دہشت اور خوف۔ان کی وجہ سے مختلف گاؤں سے آنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سلسلے میں بٹھنڈی کے مقامی سماجی کارکن اشفاق احمد کہتے ہیںکہ ان آوارہ کتوں کی وجہ سے عام زندگی متاثر ہو جاتی ہے۔جو لوگ بیرون علاقہ جات سے جموں کا رخ کرتے ہیں ان میںکافی ڈر رہتا ہے کہ کہیں یہ کتّے کسی پہ حملہ نہ کردیں۔انہوں نے بتایا کہ گذشتہ کچھ ماہ سے اس طرح کی واردات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

اس کی وجہ سے اس علاقہ میںرات کے ایام میں لوگوں کا باہر نکلنا انتہائی مشکل بن چکا ہے کیونکہ اوارہ کو کتے رات کو سڑکوں پر ہمیشہ گھومنے رہتے ہیںاور کسی پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے حکام سے گزارش کی کہ وہ فوری طور پر ان آوارہ کتوں کو اپنی گرفت میں لے اور لوگوں کو اس مشکلات سے ازاد کریں۔وہیں60 سال کے بزرگ محمد اشرف بتاتے ہیں کہ یوں تو جموں شہر کے مختلف بازاروں میں آوارہ کتوں کا دہشت ہے لیکن سب سے زیادہ بٹھنڈی میں ان کا خوف ہے۔

کچھ وقت پہلے یہ آوارہ کتے یہاں پر پالتو جانوروں کے اوپر بھی حملہ کرتے تھے۔جو ایک وقت کی سب سے بڑی مشکلات بن گئی تھی۔اگر اسی طرح کے حالات رہے توآنے والے وقت میں چھوٹے بچوں کاباہر نکالنا مشکل ہو جائے گا۔اس لیے ڈاگ اسکاٹ ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ کوئی فوری اقدام اٹھائے تاکہ لوگوں کوان سے راحت مل سکے۔

وہیں کشتوار سے تعلق رکھنے والی سائقہ بانو جو ایک طالب علم ہیں اور جموں میں اپنی تعلیم حاصل کرتی ہے ،نے بتایا کہ جموں اتنا بڑا شہر ہونے کی وجہ سے ہم لوگ بیرون علاقوں سے آ کر یہاں پر تعلیم حاصل کرنا اہم سمجھتے ہیں۔ان آوارہ کتوں کی وجہ سے اب یہاں آنا مشکل لگنے لگا ہے۔یہ راستے میں ہمیشہ طالب علموں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے چھوٹے بچوں کو باہر اکیلے بھیجنا انتہائی خوفزدہ ماحول بن گیا ہے۔

وہیں کوئی انسان اپنا گھریلو سامان لے کر گھر کی طرف آ رہا ہوتا ہے تو یہ آوارہ کتے کب اسے گھیر کر ان پر حملہ کر دیں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے ۔یہ انتظامہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس مشکلات سے نجات دلایں۔
سائنس کی ایک طالبہ میمونہ جن کی عمر 20 سال ہے،بتاتی ہیں کہ کتوں میں کئی طرح کی بیماریاں پائی جاتی ہیں جو انسانی زندگی کو متاثر کر سکتی ہے۔ جموں میں کھلی سبزیوں کی دکانوں کے سامنے بھی کتے پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ کتے وہاں پر چھینکیں وغیرہ مارتے ہوں گے تو اس کے اثرات بھی انسانی زندگی پر ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کتوں سے پھیلنے والی بیماریوں کے

مریض انتہائی پریشان رہتے ہیں۔
کچھ بیماریاں ایسی بھی ہیں جوانسان کی موت کا باعث بن جاتی ہیں۔یہ واقعی میں بہت بڑا سانحہ ہے کہ آوارہ کتے شہر میں کھلے عام گھوم رہے ہیں جن پر کوئی بھی کاروائی نہیں کی جا رہی ہے۔وہیں ایک اور مقامی طالب علم محمد آصف کہتے ہیں کہ جموں شہر میںان کی وجہ سے مختلف پریشانیاں آتی ہیں۔ اکثر و بیشتر علاقوں کے لیے جو بھی گاڑی جموں سے روانہ ہوتی ہے وہ رات کو ہی ہوتی ہے اور رات کو گھر سے باہر نکالنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔

وہ سوال کرتے ہیں کہ جب کوئی کتا کسی بھی شخص پر حملہ کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار آخر کون ہوگا؟انہوں نے بتایا کہ جموں و کشمیر سروس سلیکشن بورڈ کی جانب سے جتنے بھی امتحانات منتخب کرائے جاتے ہیں ان کے تمام سینٹر جمو ںرکھے جاتے ہیں۔جس کے لئے بیرون علاقوں سے بھی امیدوار یہاں آتے ہیں۔اس کے لئے انہیں جموں میں رکنا بھی پڑتا ہے۔ایسے میں یہ آوارہ کتے

 

انہیںبہت پریشان کرتے ہیں۔جس کی جانب مقامی انتظامہ کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں ڈاگ اسکاٹ، جموں کے سپروائزر نریش کمار اعتراف کرتے ہیں کہ جموں شہر میں آوارہ کتوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ ایسے میں محکمہ کی کوشش ہے کہ ان تمام کتوںکوپکڑ کر سنٹرپر لایا جائے۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ آنے والے ایک سال میں اس مدعّے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ لوگوں کو آوارہ کتوں کے خوف سے نجات مل سکے۔بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ کی یہ کوشش کب تک کامیاب ہوتی ہے؟

(چرخہ فیچرس)
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا