مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی
چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
اگر انسانی تہذیبوں کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں چنداں مشکل پیش نہیں آتی کہ حکومت کے انحطاط
،زوال اور گراوٹ میں نمایاں اسباب حکمران طبقے کی عادات و اطوار، غربت، بنیادی حقوق سے محرومی، احساس ذمہ داری سے پہلو تہی اور کمزور نظام انصاف شامل ہیں۔ جب ہم معاشرے میں انفرادی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو جن بری عادات کو سامنے رکھتے ہیں ، ان میں رشوت، اقربا پروری، ملاوٹ، طبقۂ نسواں پر ظلم، جہالت اور دیگر دوسرے جرائم شامل ہیں اور ان کی بنیاد انفرادی افکار و افعال کو مانتے ہوئے فرد کی اصلاح پہ زور دیتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں عروج وترقی کے درخت کا بیج صرف اسی صورت میں نمو پا سکتا ہے کہ جب وہاں ایک صالح سیاسی، معاشی اور عدالتی نظام موجود ہو۔ کیونکہ ایک صالح سیاسی نظام جس کی بنیاد انسان دوستی پہ مبنی سمجھوتے یعنی آئین پر ہوتی ہے، وہ اس بات کی معاشرے کے ہر فرد کو ضمانت فراہم کرتا ہے کہ اس کے حقوق کی پامالی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک صالح معاشی نظام اس یقین کو پختہ کرتا ہے کہ معاشرے میں موجود تمام افراد کو روزگار کمانے اور اپنے معاشی بندوبست کو بہتر بنانے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا، اور یہاں ان اسباب کی بیخ کنی کی جائے گی جو چند افراد یا اداروں کی اجارہ داری کو قائم کرتے ہوئے معاشرے کی اکثریت کو نان جویں جیسی بنیادی ضرورت تک سے محروم رکھتے ہیں۔
ایک صالح عدالتی نظام فرد کے اندر اس جرأت کو پیدا کرتا ہے کہ جہاں اس کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں کسی بھی وجہ سے رکاوٹ آئے گی، وہاں اس کو بلامعاوضہ انصاف فراہم کر کے اس کی شکایت کو دور کیا جائے گا۔ لہٰذا جب ایک انسان کو اس بات کی حکومت ضمانت فراہم کرتی ہے کہ وہ وہاں یکساں مساوات پہ منبی سیاسی نظام، اعتدال پہ مبنی معاشی نظام اور انصاف پہ مبنی عدالتی نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام افراد کی اجتماعی اور انفرادی ضروریات کو پورا کرے گی تو لامحالہ اس معاشرے کے اخلاق درست بھی ہوں گے اور وہ معاشرہ اجتماعی ترقی بھی کرے گا۔ لیکن ہمارے بھارت میں ایک عام فرد کے بنیادی حقوق ، یہ سب سے اہم مسئلہ ہے، اور اس پر عدم توجہ نے معاشرے کو اس مقام پر لے آیا ہے کہ جہاں بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنا محض ایک خواب لگتا ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں حکومت آئین، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی مسائل سے یکسر غافل ہو کر، محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر جائز و ناجائز کی تمیز کیے بغیر سب کچھ روا رکھنے کو اپنا حق سمجھتی ہو، جہاں کچھ خاص افراد اور ادارے آئین کی حدود و قیود سے آزاد ہوں، جہاں حاکم وقت احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونے کو اپنی توہین سمجھتا ہو، جہاں اس ملک کی سب سے مقدس دستاویز یعنی آئین کو نہایت ہی رعونت اور فرعونیت کے ساتھ بدلنے کو سب سے بڑی کامیابی گردانا جاتا ہو، جہاں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے واسطے مذہب کو استعمال کر کے بھی ضمیر کی تشفی کی جاتی ہو، جہاں عدالت میں بیٹھے منصف کا قلم کسی کے اشارۂ ابرو پہ انصاف کرتا ہو، جہاں سوال پوچھنے کو گستاخی اور اپنے حقوق مانگنے کا مطلب غداری لیا جاتا ہو، جہاں ایک وقت کی روٹی کی خاطر عصمتیں سرعام لٹ رہی ہوں، جہاں اپنی دھرتی سے غداری کرنے والوں کو معزز اور اشراف کا لقب دیا جاتا ہو، جہاں قلم بکتے ہوں وہاں ہم اعلیٰ اخلاق کی بات کریں تو کیا یہ دیوانے کی بڑ نہیں ہے؟
ہم مذہب کی بنیاد پہ یا چاہے اس کے علاوہ دوسرے طریقے سے معاشرتی اخلاق کو بہتر بنانا چاہتے ہوں، مگر اس کے لئے بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی سے یکسر غافل ہوں تو بھلا کیا اخلاق ایک بھوکے انسان کا پیٹ بھر سکتا ہے؟ کیا ہم اس انسان کو چوری سے روک سکتے ہیں جس کے گھر میں کئی دن سے چولہا نہ جلا ہو؟ ہم اس عفت مآب بی بی کو عصمت فروشی سے بچا سکتے ہیں جس کے گھر غربت کے دیو نے بسیرا کر لیا ہو؟
اگر ہم ایسا سوچ رہے ہیں یا ایسا چاہ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہم صرف بیماری کی ظاہری علامت کو ہی دیکھ کر اس کے اوپر لیپ کر رہے ہیں اور ہماری توجہ اس طرف نہیں جا رہی جو بیماری کی اصل جڑ ہے اور جس کا علاج کیے بنا بیماری کا خاتمہ ناممکن ہے۔
اور پھر اس پہ مستزاد میڈیا پر بیٹھے وہ بھاڑے کے ٹٹو ہیں جن کی مثال اس کتے کی سی ہے جو اپنے مالک کے اشاروں پہ بھونکتا اور اسی کے کہنے پہ کاٹتا ہے۔ وہ کہیں بیچ چوراہے میں نظر آتے ہیں تو کہیں کسی نام نہاد درویش کی محفل میں رفیق بن کر جذبہ سرشاری اور حب الوطنی کی لے میں اقبال کا یہ شعر زبان حال سے ادا کر رہے ہوتے ہیں کہ
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں