شہکارِ تصوف ــــ ’’اسرارِ کبیری‘‘ایک تبصرہ

0
0

مقالہ نگار:۔ ڈاکٹر مجدّدی مصطفی ضیفؔ
سرینگر جموں وکشمیر
فون نمبر۔ 9541060802
نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کار واں کے لیے (اقبالؔ)
قطب العارفین،سراج السالکین،ماہر اسرار شریعت و طریقت حضرت میاں عبد اللہ لارویؒ المعروف با با جی صاحب ؒکا شمار مسلم دنیا کی عظیم المرتبت روحانی شخصیات میں ہو تا ہے۔وہ مادر زاد ولی تھے ، جنہوں نے اپنے عہد کے معروف ولی اللہ خواجہ نظام الدین اولیاء کیانویؒ سے سلسلۂ نقشبندیہ و قادریہ میں بیعت و خلافت کر کے خودکو تصوف کے ان سلاسل کے خلعت فیوض و بر کات سے نوازا۔ حضرت صاحبؒ نے ظاہراً صرف سات پارے قر آن مجید نا ظرہ قاری عبد اللہؒ سے پڑھا مگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور مہر بانی سے علم لدنی سے اتنا نوازا کہ اس عہد کے جید علماء آپؒ کے آفتاب علم کے رو برو مثل شمع تھے۔اس کی زندہ مثالیں بابا جی صاحب ؒ کی تصانیف ’’ ملفوظات نظامیہ‘‘،مجموعہ’’ سی حر فی حا ‘‘ اوران کی آخری تصنیف’’ اسرار کبیری ‘‘ جو علمِ تصوف ومعرفت اور سلوک کا بحر بے کراں ہے ،شامل ہیں یہ تصانیف نہ صرف ان کے عظیم علمی مر تبے کا کھلا ثبوت ہیں بلکہ حضرت مصنفؒ کی زندہ کرامات بھی ہیں۔
پیر رومی خاک رہ تعمیر کرد
از غبارم جلوہ گاہ تعمیر کرد (اقبالؔ)
’’ اسرار کبیری ‘‘حضرت میاں عبداللہ ؒ (باباجی صاحبؒ)کی تیسری اور آخری تصنیف ہے،جس میںطالب حق کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ سالک و سلوک کے جہان کے ان پو شیدہ رازوں پر مدلل و مفصل بحث کی گئی ہے جن کی تفہیم وتشریح کے بغیر کوئی بھی شخص منصبِ ولایت کا عر فان حاصل نہیں کر سکتا،یہ تصنیف نہ صرف مشائخ نقشبندیہ کی تصنیفات میںمنفرد مقام کی حامل ہے بلکہ دنیا میں تصوف کی اسلامی روایات کا پیش بہا خزینہ اور امین بھی ہے۔
دورِ جدید جو کہ مغرب کی مختلف عقلی یا فلسفیانہ تحریکات(PHILOSOPHICAL OR RATIONAL MOVEMENTS] کی بنیادوں اور تہذیبی تصادم (CLASHES OF CIVILIZATION )کی بدولت ہماری روحانی اقدار کی بنیادیں کھوکھلی کر کے عقائد کو متزلزل کر رہا ہے ،وہیں یہ کتاب اپنے مختلف مو ضو عات جن کی اساس کلام مجید،سیرت مصطفی ﷺیا قوانیں شریعہ ہیں کی بنیاد پر طالب حق کی انگشت پکڑ کر صراط مستقیم کی طرف لے جاتی ہے۔اس کی طرف اشارہ کر تے ہوے مصنفؒ شعر کی ہیت میں فر ماتے ہیں۔
؎ باہر قر آن حدیثوں بھائی قدم مول نہ دھر یا
اوپر سنت رسو پیارے کیتا جو کج سر یا ؎۱
ترجمہ:۔ (یہ کتاب تصنیف کر تے ہوے میں نے قرآن و حدیث کے دائرے سے باہر ذرّہ برابر بھی
قدم نہیں رکھا اور میرے فکر کی پرواز سر کار دوعالم ﷺکی سنت یا سیرت کے اصولوں کے تابع رہی۔)
’’ اسرار کبیری ‘‘ جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مصنفؒ کے آخری تصنیف ہے (اس کی طباعت کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کی وفات ہو گئی )کی طباعت اول 1925؁ ء بمطابق 1345؁ھ یا 1983 ؁ بکر می میں ہوئی،ان کی اس الہامی تصنیف کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ:۔
؎ آتے ہیں غیب سے یہ مضا مین خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے (غالبؔ)
اس کتاب کی وجہ تسمیہ کی طرف اشارہ کر تے ہوے با باجی صاحبؒ فر ما تے ہیں:۔
اسرار کبیری سفنے اندر کسے ولی بتایا
اسے مجبوری کارن میں بھی ایہی نام رکھا یا ؎۲
ترجمہ۔ (مجھے ایک ولی اللہ نے کتاب تحریر کر نے اور ’’اسرار کبیری‘‘ اس کا نام رکھنے کے لیے فر مایا ، اور اس ولی اللہ کے فرمان کی تعمیل کرتے ہوے میں نے بھی کتاب کا یہی نام رکھا۔)
اپنے مو ضوعات کے تنوع کے اعتبار سے ’’ اسرار کبیری‘‘ دنیائے تصوف کی تصنیفات کے چمنستان میں وہ گلدستہ ہے جس کے پھولوں کی خوشبو با شعور یا بیدار دماغوں کو مدہوش نہیں بلکہ راہِ نجات کے سراغ دکھاتی ہے۔
حضرت خواجہ بہائو الدین نقشبندی البخاری ؒکا ارشاد ہے’’ہم فضل والے لوگ ہیں ہمارے طریقہ میں محرومی نہیں ہے‘‘۔اس قول کے مدنظر’’ اسرار کبیری‘‘ کا مطالعہ قاری پر اس حقیقت کے در کھول دیتا ہے کہ ایک مسلمان صرف اسی صورت میں فضل والی جماعت میں شامل ہو تا ہے جب وہ گزشتہ انبیاء پر کامل ایمان کے ساتھ ساتھ حضرت محمدﷺ کی رسالت اور خدا کی وحدانیت کا اقرار وتصدیق زبان وقلب سے کر تے ہوے سیرت مصطفیﷺ،ان کے اصحاب کے طریقوں اور صالحین(اولیاء کرام) کی زندگیوں سے سبق اخذ کر کے ا سے اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔استدلال کے طور پر اس کتاب کے چند موضوعات پیش کیے جا سکتے ہیںجو اس طرح سے ہیں۔
1)حمد باری تعالیٰ(منظوم)۔
2)درصفت آنحضرتﷺ(منظوم ۔فارسی)۔
3)انبیاء اور ملائکہ کی حکا یتیں۔
4)صحابہ کرام اور اگلے لوگوںکی حکایتیں۔
5)قرآن مجید عقائد و اعمال کی درستی کے لیے نازل ہوا۔
6)اور حضور پر نورﷺ کے اصحاب کے ساتھ عقیدت درست رکھنا وغیرہ ۔
اس تصنیف کے درج بالا موضوعات میں سے کسی کا بھی جائزہ اگر موجودہ اسلامی دنیا کی مذہبی صورت حال کے حوالے سے لیا جائے تو مجھے یہ حقیقت بیان کر نے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو تی کہ اس دو رمیں امت وسطی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یا قضیہ چند ایک یا بہت سارے بنیادی مسائل کو لے کر اختلاف رائے ہے جن کے متعلق حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے لہجہ تاسف و تعجب کے ساتھ لکھا ہے ؎
حرم پاک بھی ایک ،اللہ بھی ایک،قر آن بھی ایک!
کچھ بڑی بات تھی کہ ہوتے مسلمان بھی ایک!
دین محمدی ﷺ کے ان عظیم المرتبت خادمین علامہ اقبال ؒ اور حضرت عبداللہ عبدؔ(بابا جی صاحبؒ) نے بیسوی صدی کی ابتدائی تین چار دھائیوں کا مشاہدہ اپنی چشم رمز شناسوں سے کیا تھانیز بلاد اسلامیہ اور خاص کر کے بر صغیر میںاس طرح کے اختلافانہ نظر یات ومسائل کی اٹھان ، کم علم وفہم لوگوں یا عوامی سطح پر قبولیت کا زمانہ تھا اور پھر دھیرے دھیرے فرقہ پرستی کی اصطلاح نے ناسور بن کے ملت کواپنی دلدل میںاس طرح جکڑا جس کی بدولت امت نہ صرف ذہنی یا نظر یاتی طور پر منقسم ہوئی ہے بلکہ اس نے بلاد اسلامیہ کو سیاسی اعتبار سے بھی اتنا پسماندہ کر دیا کہ وہ اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کے سبب ہر لحاظ سے شکنجہ اغیار میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔
حضرت شیخ و مرشد میاں عبداللہ عبدؔؒ(باباجی صاحبؒ) نے اپنی اس شہرہ آفاق تصنیف میںبلاد اسلامیہ اور عالمی دنیا کے مسلمانوںکودر پیش اس خطر ناک صورت حال کے حل کا راستہ دکھا تے ہوئے عنوان ’’ قرآن مجید عقائد و اعمال کی درستی کیلئے نازل ہوا‘‘ میںفر مایا ہے۔
’’واضح رہے کہ قرآن مجید عقائدکے صحیح کرنے،ایمانیات کے قوی کر نے اور اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ اور باہمی معاملات کو بخوبی انجام دینے کے لیے نازل ہوا ہے‘‘ ؎3
؎ اگر تو می خواہی مسلماں ذیستن
نیست محمد کن جلوہ قر آن ذیستن ( اقبالؔ)
یہ فسادات کے طوفان نہ اٹھتے ہر گز
تو اگر واقف رہ سنت قر آن ہو تا (عبد الرحمن عاجزؔ)
چونکہ اولیائے کرام مشن انبیاء کے علمبر دار اور مبلغ ہوتے ہیں اور اس دینی منصب کی بدولت ان کا پیغام فرد اورجماعت کے ساتھ ساتھ پورے عالم کے انسانوں کی فلاح ورہبری کے لیے بلا لحاظ رنگ و نسل،لسان ، قوم و قبیلہ ہے۔اس تنا ظر میں ’’ اسرار کبیری‘‘ کی درج بالا عبارت کا جائزہ یہ حقیقت منکشف کر تا ہے کہ حضرت مصنف عوام و خواص کو یہ معاملہ ذہن نشین کرا نا چاہتے ہیں کہ وہ امت میں پیدا ہو نے والے اختلافی مسائل اور معاشرتی و نظر یاتی فلسفوں کی قبو لیت سے پہلے انہیںقرآن مجید کی کسوٹی پرپرکھیںتاکہ ان کے کامل یا ناقص ہونے کے بارے میں کوئی واضح رائے قائم کی جاسکے۔یاد رہے کہ حضرت مصنفؒ کی یہ نصیحت حضور رسالت مآب ﷺ کے اس فر مان کے عین مطابق ہے کہ میں تمہارے در میان تین چیزین چھوڑ کے جا رہا ہوں (۱)قرآن مجید(۲)اپنی سیرت(۳)اور اپنے اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
’’اسرار کبیری ‘‘میں بھی فر مان مصطفی ﷺ کے مطابق ہر بات کی تفہیم اور استدلال کے طور پر قرآن مقدس کی آیات،سیرت مطہرہ اور عظیم المرتبت اہل بیعت محمد ﷺ کی ز ند گیوںسے حوالہ جات کثرت کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔
آٹھویں صدی عیسویں میںعربوں کے سندھ اور ملتان پر قابض ہونے کے بعد اسلامی فکر ونظریات نے بھی بر صغیر میں ہندوؤں کے فکر وفلسفہ کو متاثر کیا یہ وہ دور تھا جب اسلامی تصوف بھی اپنی باقائدہ مابعد الطبعیات(METAPHYSICS) مرتب کر رہاتھا،اور اسلام کے وہ غنی مزاج درویش جو ترک وطن کر کے سر زمین ہندوستان میں داخل ہوئے انھوںنے تبلیغ عام کے مقاصد کے حصول کی غرض سے در بار عام لگائے عوامی زبان میں شاعری کی اور عوام الناس کو محبت، مساوات اور خدمت خلق کا و ہ درس دیا جس کی داغ بیل حجاز مقدس کی سر زمین پر حضور رسالت مآب ؐ نے رکھی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس خطہ ارضی میں مشرق وسطی(MIDDLE EAST) کے صوفیانہ فکر کا فروغ بھی ہوا اور نتیجہ کے طور پر جسم و روح کی در میان آویزش کو اہمیت،مادّی زندگی کا روحانیت کے مقابلے میں ادنیٰ تصور اور پھر تو حید کا سلسلہ مکمل طور پر فلسفہ وحدت الوجود سے ملا دیا، یہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود تصوف کے دو نظر یات (of Mysticism Theories)یا فلسفے(philosophies) ہیں جن کے ماننے والے بے شمار صوفیائے کرام ہیں۔ اسی طرح ملت میں صوفیائے کرام کا مسلک بھی مختلف معلوم ہوتا ہے بعض صوفی خدامست اور مجذوب نظر آتے ہیں ۔اور بعض طریقت کو ہی عرفان کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔مگر حضرت داتا گنج بخش لاہوریؒفر ماتے ہیںکہ:
’’جو شخص تو حید و تحقیق کے خلاف چلتا ہے اسے دین میںکچھ نصیب نہیں ہوتا اور جب دین جو اصل ہے مضبوط نہ ہو تو تصوف جو اس کی شا خ ہے کس طرح مضبوط ہو سکتا ہے‘‘ 4 ؎
حضرت داتا گنج بخش لاہوریؒ کا یہ فر مان رسول اللہ ﷺ کی اس مقدس سیرت کے عین مطابق ہے جس
کی روشن جھلکیاں ہمیں حرّا کی تنہا ئیوں سے لے کر ملک شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں تک اور طائف،بدر،خندق اور فتوحات خیبر سے لے کرغدیر خم اور عرفات کے میدان میں حجۃالوداع کے عظیم و تاریخی خطبے تک دکھائی دیتی ہیں اور حضرت میاں عبداللہ عبدؒ(ؓبابا جی صاحبؒ) اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’اسرار کبیری‘‘ میں قدم قدم پر عوام الناس کو عین اسی طرح کی تعلیمات سے روشناس کراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جب جنوبی ہندوستان میں رامانج اور بھگتی کی تحریک کے شمالی ہند میں سامنے آنے والے دوسرے بھگتوں کی فکر کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں میں بھی تصوف کے غیر اسلامی یا اضافی نظر یات کی درآمد شروع ہوئی تو نتیجہ کے طور پر عوام الناس کے عقائد بگڑ نے لگے جس کی مثال تہذیبی یا فکری سطح پر شیخ سرمد (مجذوب) اور داراشکوہ سے دی جا سکتی ہے،تصوف کے اسی غیر اسلامی تصور کی طرف اشارہ کر تے ہوے حکیم الاامت شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ اپنی شاہ کار اردو نظم ’’ ساقی نامہ ‘‘ میں فر ماتے ہیں:۔
مسلماں ہے تو حید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتان عجم کے پجاری تمام!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی!
لبھا تا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب!
بیاںاس کامنطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔
تو اس قسم کی بد اعتقادی یا غیر شرعی ماحول یا فضاسے سادہ لوح عوام کو نجات دلانے کے لیے حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ،شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور پھر سب سے بڑھ کر ثانوی ہزاریے کے مجدّد اعظم حضرت شیخ احمد فاروقی سر ہندیؒ سامنے آئے،جن کے متعلق علامہ اقبالؒ ’’ بال جبریل‘‘ کی ایک نظم بہ عنوان ’’پنجاب کے پیر زادوں سے‘‘ میں فر ماتے ہیں کہ:۔
حاضر ہوا میں شیخ مجدّد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شر مندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آ گے
جس خاک کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
فکری سطح پر مصنف شاہ کار تصوف ’’اسرار کبیری‘‘ مبلغ و مدرس شریعت محمدیؐ حضرت میاں عبداللہ عبدؔؒ (باباجی صاحبؒ) (بر صغیر کے حوالے سے اگر بات کی جائے) توانہی عظیم اسلامی اسکالروں خاص طور پر حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سر ہندی ؒکے نظر یات جو عجم کی صوفیانہ روایات سے بہت پرے یا لاتعلق اور نظام شریعہ کے عین مطابق ہیںسے ہی متاثر نظر آتے ہیں نہ صرف باباجی صاحبؒ بلکہ ان کے مرشد آفتاب فکر و ولایت غوث الزماںحضرت نظام الدین کیانویؒ بھی ان کے گرویدہ تھے ، یہی وجہ تھی کہ آنجناب نے پہلے سلسلہ قادریہ اور بعد میں نقشبندیہ میں خلعت بیعت و خلافت سے سر فراز ہو کر دین محمدیؐکی خدمت کا فریضہ انجام دیا۔چنانچہ ’’ اسرار کبیری‘‘میں حضرت مصنف رقم طراز ہیں:۔
’’ہم امام العلما ء ومحققین مولانا حضرت مجدّد صاحب ؒکا اتباع رکھتے ہیں۔آنجناب کو جو بارگاہ الٰہی جو ’’رب زد نی علما‘‘ کے صادق قول کا قبول کر نے والا ہے ،معارف مرحمت ہوئے۔آپ نے عالموں اور داناؤں پر وہ معارف ظاہر کر دیئے ‘‘ ؎5
حضرت شیخ احمد سر ہندی ؒ سے باباجی صاحب ؒ کی نظر یاتی وابستگی،عقیدت اور تاثر کی یہ اور بہت ساری مثالیں ان کی اس کتاب کے علاوہ زندگی،اقوال اور دوسری دو تصنیفات جو نظم و نثر کی ہیت میں ہیں سے مل جاتی ہیں۔اس کے علاوہ اس کتاب میں مصنف ؒ شاہ نقشبندؒ کے حالات واقوال، حضرت خواجہ گنج شکرؒ کی باتیں،حضرت مجدّد الف ثانی ؒ (جن کاذکر پہلے ہو چکا ہے)،امام جعفر صادق ؒ، حضرت یوسف ہمدانی ؒ ،حضرت خواجہ عبداللہ احرارؒ،حضرت خواجہ محمد پارسا ؒ اور اپنے پیر و مرشد حضرت نظام الدین کیانویؒ ؒکے حالات واوصاف پیش کر تے ہوئے طالب حق کو نصیحت کر تے ہیں کہ دنیا وآخرت کی بھلائی اور بہتری کی خا طر ان اور اس طرح کی دیگر تمام ہستیوں کی زندگیوں سے استفادہ کیا جائے جو شرعی قوانین کے مطابق بسر ہوئی ہیں،اپنے اس مقصد عظمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بابا جی صاحب ؒ کتاب ھذا کے دیباچے میں فر ما تے ہیں:
’’ حمد ہزار ہا وسپاس بے قیاس خلاق اکبر جن و بشر کو سزاوار ہے کہ جس نے اپنی قدرت کاملہ سے انبیاء کو نبوت و امامت کا خلعت پہنا یا ۔شریعت و طریقت کا امام بنایا،ان کی نبوت کی تصدیق کے لیے بڑے بڑے معجزے ان کے ہاتھ سے ظاہر کیے۔اولیائوں کو دین حق کی تکمیل کا تاج پہنا کر نیابت کا کام،زمانہ کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ اور ولایت کا اختیار بھی ان کے ہاتھ میں دیا۔ہزاروں کرامات اور خوارق عادات ان کے شاہد حال بنائے،جن کے دیکھنے سے انسان ضعیف نے جہل کی ظلمت سے نکل کر علم الیقین کی روشنی حاصل کی۔‘‘ ؎6
حضرت میاں عبداللہ عبد ؔ ؒ ( ؓٓؓٓ بابا جی صا حب ؒ)کی یہ تصنیف اسلامیات میں تصوف کے شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے، ایسا شاہ کار جس کے تمام حدود کا دائرہ شریعت محمدی ؐسے ایک معین سے نقطے کے برابر بھی باہر نہیں ہے۔ایسا شاہ کارتصوف جو سالک کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ عمومی ذہن و فکر کے مالک عوام الناس کی اہل کمال کی شناخت کے عمل میں مکمل رہبری کر تا ہے نیز اند ھیروں سے روشنی کی سمت سفر کراتا ہے۔مثلاً صاحب کتابؒ موضوع’’ اہل کمال کی پہچان‘‘کے ذیل میں فر ماتے ہیں:۔
’’دربیاں آنکہ شناخت سے معلوم کر نا کہ کمال کی صفتیں و کمالیت کس طرح پہچانی جاتی ہے،اور جو طائفہ رند و خامکار، مشا یئخی و شیخی کا دعویٰ کر نے والے کس طرح سے پہچانے جاتے ہیں ، کیونکہ ان ہر دو قافلوں کا پہچاننا اور فرق کر نا ،اس زمانہ میں محال اور دشوار ہے۔اس واسطے کہ جو مشائخ کمال ہیں ان کے مطلب و دام اپنے مالک کے ساتھ ہو تے ہیںکہ بنیاد شریعت کے قائم کر نے سے سنّت نبویہؐ کے زندہ کر نے میں غر قاب ہو جاتے ہیں ۔ اس واسطے کہ ظاہراً تن پرستی و آراستگی کو ترک کر دیتے ہیں۔اور کشف و کرامات کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو تا،کہ صرف محبّت کے شعلہ کو روشن کر کے مثل پتنگ انوار ربوبیت اورتجلیات وحدیث میں جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں۔پھر ان کو ماسواے اللہ کے کوئی خبر نہیں ہوتی۔بر خلاف طائفہ خامکار رنداں کے وہ اپنے آپ کو تن پرستی وجسم آراستگی کما حقہ بجا لاتے ہیں ۔ مگر غور کی نظر سے دیکھا جائے تو حدود و بنیاد شریعت کے قاطع ہو کر، نائب رسولوں کے رہزن ہو کر دعوائے شیخی و مشائخی کا قائم کر کے مشائخ منتہی بن بیٹھتے ہیں، لیکن بہ ذریعہ استد راج کشف و کرامات وغیب گوئی کے مستحق نیکی بدی کے ہو جاتے ہیں،تو اس طائفہ شقیہ و بد بخت کے ذہن میں بھی بات ہوتی ہے کہ اولیائی یہی ہے۔ مگر جو گمان ان بدبختوں کا ہے وہ بالکل بعید ہے۔‘‘ ؎7
مشائخی و شیخی یا ولایت کی جانچ پرکھ کا یہ ایسا میٹر یا کسوٹی(METER OR TOUCH STONE) ہے جس پر کھرا اتر نا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ،نیز وہ اس طبقہ کو جو اپنی وضع قطع سے تو صوفی دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ اپنے آپ اور قوانین شرعیہ سے ناآشنا لوگوں کو ماسوائے دھوکے اور گمراہی کے کچھ بھی دینے کے اہل نہیں ہوتے،اور ان لوگوں کو مصنف ؒ ’’اسرار کبیری‘‘ درج بالا اقتباس میں’’نائب ر سو لوں کے رہزن ‘‘ اور ’’بدبخت ‘‘قرار دیتے ہوئے انہیں اور ان کے دائرہ صحبت میں بیٹھنے والے ان کے پیرو کاروں کو نہ صرف تنبیہ کرتے ہیں بلکہ سچائی کا ایسا آئینہ دکھا تے ہیں جس میں ان نفس پرستوں کوگمراہی اور ہدایت کے راستے صاف اور واضح دکھائی دیتے ہیں۔یہ اور اس کتاب میں اس طرح کا ہر اقتباس صاحب کتابؒ کی عالمانہ نگاہ ،صوفیانہ بصیرت ،معر فت الٰہی اورعشق حضور رسالت مآب ؐ کا پختہ ثبوت پیش کر نے کے ساتھ ساتھ دور جدید کے انسان کو جو مختلف مسائل و مصائب میں گھرا ہوا ہے کے ایمان کی دولت بھی ان رہزنوں سے بچانے کی سعی مسلسل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مختصر یہ تحریر نہ صرف اہل اللہ اور غیر اللہ کے درمیان قوائد شر عیہ کے مطابق حد فاصل(DIVIDING LINE)قائم کرتی ہے بلکہ ہر اس شخص کے دعویٰ ولایت کو بھی خارج کرتی ہے جس کا ظاہر و باطن درس حدیث کے بر عکس ہو یا جوظاہری شکل و صورت تو بنا لیتے ہیںمگر ان کے دل میں خالق حقیقی کی محبت کے بجائے نفس پرستی اور مال و زر کی ہوس ہوتی ہے۔زیر بحث کتاب میں باباجی صاحب ؒ کافر مان جو انہوںنے ’’چار چیزیں حجاب ہیں‘‘ کے عنوان سے رقم کیا ہے بھی طالب حق کی راہبری کے لیے آفتاب نصف النہار کادرجہ رکھتا ہے:۔
’’ ناطے رشتے وغیرہ بہت ہی حجاب ہیں۔جب تو ان پیوندوں کو توڑ دے خداوندتعالٰے کی در گاہ کا واصل ہے۔
علم سلوک کے ایک رسالہ میں دیکھا گیا ہے کہ اس راستہ میں خدا کے طالب کے لیے جو حجاب ہیں ، وہ چار چیزیں یعنی دنیا،خلقت،نفس اور شیطان۔دنیاآخرت کا پر دہ ہے۔خلقت عبادت کا،شیطان دین کا اور نفس خدا تعالیٰ اور بندہ کے درمیان کا پردہ ہے۔جب سالک زہد و پرہیز گاری پر تل جائے اور تھوڑئے ہی پر راضی ہو جائے تو وہ دنیا کے پردہ سے نکل جاتاہے۔اور جب تنہائی اور خلوت اختیار کرے اور لوگوں سے میل ملاپ ترک کر دے تو خلقت کے پردہ سے نکل جاتا ہے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں پورے حوصلہ سے مستقل رہے تو شیطان کے پردے سے آزاد ہو جاتا ہے۔اور جب ریاضت و مجاہدہ اور ذکر و اذکار میں مشغول ہو تو ماسو یٰ اللہ کے پردہ سے خلاصی پاتا ہے۔اور نفس کے حجاب اور غفلت کے پر دے سے باہر آجاتا ہے ،جب ایسا ہو جائے تو قرب ہی قرب اور حضور در حضور ہے۔‘‘ ؎8
حضرت میاںعبداللہ ؒ عبدؒ( بابا جی صاحب ؒ) کی بیان کر دہ اسی نثری عبارت کو حکیم الاامت شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ منظوم شکل میں اس طرح پیش کر تے ہیں۔
؎ یہ مال دولت دنیا یہ رشتہ و پیو ند
بتان وہم و گماں لاالٰہ الا اللہ
؎ کیا ہے تو نے متاع غرور کا سو دا
فریب سود و ذیاںالٰہ الا اللہ
اسی طرح اس کتاب میں حضرت مصنف ؒ’’ اہل کمال کی پہچان ‘‘ کے عنوان میں استدراج ،کشف اور کرامات پر بھی بحث کرتے ہیں۔ ان میں جہاں استدراج کا واسطہ شیطان پرست جنات سے ہے اور ولایت جیسے عظیم مرتبے سے اس کا دور کا بھی رشتہ نہیں وہیں کرامات کا تعلق اولیا ئے کرام سے ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح معجزات کا انبیاء سے ہے،مگر نظام شریعت میں کرامت کا اظہار شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔بابا جی صاحب ؒ اظہار کرامت سے باز رہنے کی تلقین کر تے ہوے شریعت محمدیؐ کا پاس رکھنے کی نصیحت و ہدایت بھی کر تے ہیں ۔یہی حقیقی اسلامی فقر ہے اور ساری تصنیف میں وہ اسی کی دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں،جس کے متعلق اقبالؒ فر ماتے ہیںکہ:۔
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری!
میراث مسلمانی سر مایہ شبیری!
یہاں عرض کرتاچلوں کہ میں نے ان کی زندگی کے بہت سارے وقعات قبیلے کے بزرگوں سے سنے ہیںکہ جب کوئی طالب حضرت صاحب ؒ کی بارگاہ میںتحصیل علم یاکسی اور عرض سے حیات و کائنات کے کسی ایسے مسئلے کے متعلق کوئی ایساسوال رکھ دیتا جس کے جواب کی خاطر کرامت کا سر زد ہونا ضروری ہو تا تو وہ اس سوال کو بڑی سختی سے یہ فر ما کر رد کر دیتے کہ’’ نبی کریم ؐ کی شریعت مطہرہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔یا اگر کبھی کسی زاہد و پر ہیز گار شخص کی موجود گی میںاظہارِ کرامت ہو بھی جاتا تو حاضر مجلس اس شخص کوبڑی سختی سے منع فر ماتے کہ عوام میں اس کا اظہار ہرگز نہ کرے۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی (اقبالؒ)
باباجی صاحب ؒ کے عہد تک آتے آتے برّصغیر کی ثقافتی زندگی پرصنعتی انقلاب اور یورپ کے مادی رجحان( MATERIALISM) کے نقوش جلوہ گر ہو رہے تھے ۔نتیجہ کے طور پر مذہبی اور روحانی سطح پر ُجس طرح کا ماحول پنپ رہا تھااس کی تصویر کشی علامہ اقبال کے اردو وفارسی کلام میں اعلیٰ انداز میں کی گئی ہے۔چنانچہ میاں عبداللہ عبدؒ(باباجی صاحبؒ)’’ اسرار کبیری‘‘ میں اس حقیقت کی تفہیم بھی کراتے ہیں کہ مادّی اور روحانی(MATERIAL AND SPIRITUAL ) نظریات ورجحانات کے انسانی معاشرت و اخلاق یا جسم و روح پر کس طرح کے منفی و مثبت اثرات پڑھتے ہیں اور روحانی دنیا جو مادی دنیا کی حدوں سے کافی پرے کائینات کی وسعتوں کو اپنے دائرہ اختیار میں رکھتی ہے تک مسلمان کی رسائی کیسے ممکن ہے اس نقطہ کی تفہیم یا تشریح حضرت مصنف ؒ ’’ اسرار کبیری ‘‘میں تصوف کی ابتداء کے تین درجوں کا بیان کر تے ہوے فر ماتے ہیں کہ:۔
1) اس کا نفس مقہور و مغلوب ہو گیا ہو۔اس میں کو ئی غصہ اور خواہش نہ رہا ہو۔
2)یہ جہاں اور وہ جہاں اس کے سامنے سے اٹھ گئے ہوں۔یعنی حس و خیال سے گذر گیا ہو۔
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے (اقبالؒ)
3)اسے حق تعالیٰ اور اس کے جلال و جمال نے بالکل گھیر لیا ہو۔
یہ اور اس کے علاوہ اس مو ضوع پر حضرت صاحب ؒ نے جو مضامین اس پر فتن دور میںعقائد کی پختگی،درستگی،حفاظت اور عوام و خواص کی رہنمائی کی غرض سے پیش کئے ہیںان میں چند ایک اس طرح ہیں۔
1) ابتداء مجاہدہ میں مرید کی شرطوں کا بیان۔ ۲)امر ونہی کی تبلیغ کا بیان۔ ۳)اہل کمال کی پہچان۔
۴)کفر وشرک اور بدعت کا بیان۔ ۵)محاسبہ کا بیان۔ ۶)توبہ اور ماہیت تو بہ کا بیان۔ ۷)شیطان لعین کا بیان۔ ۸)دربیان حقوق استاد و مشائخ۔ ۹)بد مذہب رندوںوتن پرست نفس پرستوںکا بیان۔ ۱۰)سالک اور احمق میںفرق۔ ۱۱)اعمال صالح میںتقویٰ اور حسن خلق جنت میںجانے کے لیے بہترین سبب ہے۔
’’ اسرار کبیری‘‘ کے موضوعات میں اسلامی تصوف، اسلامی تحریک سے وابستہ تاریخ ساز ہستیوں کے ذکر اور اسلامی عقائد و اقدار کی پختگی پر مدلل بحث کے علاوہ دنیائے اسلام کے عروج و زوال کی داستان کی جھلکیاں،ثقافت اسلامیہ کے ساتھ پیدا ہونے والے تصادم کی تصاویریں،تنگ نظر اور کم ظرف افراد کا نئی تہذیب (جو اپنے اندر بے شمار مسائل اور پیچیدہ مشکلات کا نظام لیے ہوئے ہے)کو پسند دید گی کی نظر سے دیکھنا نیز موجودہ عہد تک آتے آتے فرعونیت،نمرودیت اورچنگیزیت کو عملی و نظر یاتی طور پر اہل اقتدار نے لاگو کر کے جس انداز سے مسلمان دنیا میں عوام و خواص کے دلوں سے عمل کی روح کو نکال کر انہیں بے عملی وزال کے ایسے خول میں دھکیل دیا ہے جہان سے صہونی و سامراجی طاقتیں انہیں کسی طرح بھی ہا ہر نکلنے نہیں دیتی اس پر بھی مصنف ؒ کا اظہار خیال ملتا ہے۔
اسلامی سیاست کا یہ نظر یہ حضرت مصنف ؒکی زندگی اور کتاب ھذا کی تصنیف کے عہد میں ہی تیار ہو چکا تھا۔1925؁ عیسویں میں دنیا کی عظیم ترین اور ترقی پسند و ترقی یا فتہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ، انبیا و اولیا اور علماء کی سر زمین اعراق پربر طانیہ کا تسلط،عر بوں کے وسائل کا استحصال،دنیا میں کمزور ہوتی مسلمانوں کی طاقت،یہود کا قبلہ اول پر قبضہ،ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم ترین اور لمبے دور اقتدار کا خاتمہ،غیر اسلامی نظام معاشرت کا بڑھتا تسلط وغیرہ چند ایسے محر کات تھے جن کے اسلامی دنیا پردور رس اور خطر ناک اثرات کا مشاہدہ حضرت مصنف بحثیت ایک نقطہ داںدانشوراَپنی عالمانہ نگاہ سے کر چکے تھے اور پھر ہم اس بد نصیب نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن نے عرب دنیا جو مسلمانوں کی بڑی طاقت تھی کی غلامی،صدام حسین کی شہادت،افغانستان کی بر بادی،فلسطینی مظلوموں پر مظالم،دنیائے اسلام کی اہم ومقدس جگہ قبلہ اول کی بے حرمتی،حجاز مقدس کی سر زمین پر امریکی فوجی اڈوں کا قیام اور عرب کے بدوی حکمرانوں کو ان کی کٹھ پتلی بنتے ہوئے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمارے عہد کا المیہ یہ بھی ہے کہ حجاز مقدس کی سر زمین پر43 14 سال بعد یعنی 2021 ؁ء میں محمد بن سلمان السعود نے ملک کی اقتصادی اصلاحات ( Economical Reforms ,) سیاحتی ترقی (Turism Development )اور سعودی وژن (Saudi Vision 2030 ) منصوبے کے تحت جو میوزیکل کنسرٹ( Musical Consert ) منعقد کروایا میرے نزدیک وہ اسلام جو دنیا کا واحد عملی مذہب( Practical Religion ) ہے کو نظریے کی حد تک محدود کرنے ،اسلام کے اصولوں پر قائم خاندانی نظام ( Family System ) کے خاتمے اور مغر بیت( Westernisation ) جس کی بنیاد فحاشی ،لادینیت او ر جنسی بے راہ روی جیسے غیر اسلامی نظریات پر ہے کی قبولیت اور ذہنی مرغوبیت کی طرف پہلا قدم ہے ۔چنانچہ اسلام کی اسی سیاسی و معاشرتی صورت حال کی طرف اشارہ کر تے ہوئے حکیم الاامت ’’بانگ درا‘‘کی ایک غزل میں فرماتے ہیں:
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں توآزادی ہے باطن میں گرفتاری!
تو اے مولاے یثربؐ آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے ا فرنگی مرا ایماں ہے زناری
آج اکیسویں صدی کی تیسری دھائی میں داخل ہوتے ہو تے دنیائے اسلام جس طرح کے تہذیبی تصادم اور سیاسی زوال سے گزر رہی ہے اس سے ہر بشر آگاہ ہے۔اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ اسلامی رومانیت (ISLAMIC ROMANTICISM) ہے اور اس فکری و نظر یاتی رجحان سے دنیا ئے اسلام اس وقت تک نہیں نکل سکتی جب تک یہ اس مذہب کی بنیادوں ، حقیقت کی تفہیم اور اس کے احکامات کو عملی زندگی میں شامل نہ کرے۔حضرت بابا جی صاحبؒ اس کتاب کے ہر موضوع و عنوان میں اسلامی معاشرت پر اظہار خیال کر تے ہوئے احکام شرعیہ کو دین و دنیا کی بھلائی اور بہتری کے لیے عملی زندگی میں نافذ کر نے کی تلقین کرتے ہیں ۔زیر نظر کتاب کے عنوان ’’ بد مذہب رندوں وتن پرست نفس پر وروں کا بیان‘‘ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
عصر حاضر میں ملت اسلامیہ جس طرح کے سیاسی انحطاط و زوال سے گزر رہی ہے اس سے اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک مسلمانان عالم میں تعلیم جدیدیہ یا سا ئنس و ٹکنا لو جی کے علوم کی تشریح ،تفہیم و تعبیر کا رجحان علوم قر آنی کی روشنی میں پیدا نہ ہو گا ا ور مسلمانوں میںاس عملی زندگی کی از سر نو تعمیر شروع نہ ہو جس کی تصویریں ہمیںدور رسالت ؐ اور خلفائے راشدین کے عہد زرین میں ملتی ہیںاور ہمارا یہ خواب اس وقت تک شر مندہ تعبیر ہو ہی نہیں سکتا جب تک ہم میں سے ہی ایسے علماء پیدا نہ ہوں جو قومی سیرت کی تشکیل و تعمیر کی کار خیر میں اپنے ذاتی،نجی و دنیا وی معا ملات و مسائل کو ایک طرف رکھ کر معاشرے کے ہر فرد کو خالص قوانین شر عیہ کی پا بند ی یا نفاذ کی اہمیت اور اپنا کھو یا ہوا وقار حاصل کرنے کے لیے اس کی ضرورت کا احساس اپنی زندگیوں کو نمونے کے طور پر پیش کر کے نہ دلوائیں۔ کیوں کہ ملت کی تمام تر کامیابیوں و کا مرانیوں کا سہرہ ان ہی لوگوں کے سر ہے جو وارث انبیاء یا نائب رسولﷺ ہیں۔
مگر دور جدید میں مغربی تمدن کے اثرات کی بدولت عالمی سطح پر صارفینی تہذیب (CONSUMER CULTURE)نے دنیا کو نرغے میں لے کر مذہب بیزاری،اقدار کے زوال اور ترقی کے نام پر جو ظاہری چمک دھمک پیداکی ہے یہ ایسے سیلابی ریلے کی حیثیت رکھتی ہے جس کی زد میں عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ علماء کرام بھی آ گئے ہیں جو دین کے قوائد و قوانین کو بنی نوع انسان یا ملت کی بہتری کے لیے استعمال کر نے کے بجائے بے خوف و خطر اپنے دنیاوی یا فرقہ پرستانہ اغراز و مقاصد کی تکمیل کے لیے بروئے کار لاکر اس گہر بے بہا کو روزی روٹی کے معمولی یا حقیر قضیے کو حل کر نے یا دنیاوی شان و شوکت اور مال و زر کے حصول کی خاطر اپنے فکر و خیال کو پیش کر کے عالمی سطح پر پوری امت کو صہیو نی طاقتوں کے شیطانی جال میں پھسا رہے ہیں۔ اس طرف اشارہ کر تے ہوئے مصنف ؒکتاب ھذا میں ’’کفر و بدعت کا بیان ‘‘ کے عنوان سے بیان کردہ موضوع کے تحت رقم طراز ہیں۔
ـــــــــ’’باغبان چمنستان طو طیان شریعت و ماہران حقیقت کی خد مت میں التماس کی جاتی ہے کہ اس زمانہ میںکفر و شرک اور بدعت نے پھیل کر خیمہ اسلام کو معدوم کر دیا ہے،اور جو علماء راسخین و علمائے کرام خیمہ اسلام کو زندہ و تروتازہ سر سبز و شا داب کر نے والے تھے، تو وہ بھی دار الفناء سے کوچ کر کے در گور خفتہ و نہفتہ ہو گئے ہیں،کہ شاید خاتمہ نور محمدی ﷺ کا زمانہ قریب تر آ گیا ہے۔اس واسطے بدعت کی شاخوں نے زور دے دیا ہے،اور جو نائب رسولؐ ہیں،وہ متقدمین مشائخ اور علماء راسخین کے مطابق خیمہ اسلام کو روز بروز ترو تازہ و زندہ کر نے کے لیے کم از کم دستیاب ہوتے ہیں۔اور اگر کوئی علماء راسخین ومشائخ اوصاف حمیدہ و اخلاق پسندیدہ پا یا جائے،تو وہ مثل طوطی در قفس گرفتار و پابند ہے۔کیوں کہ کوئی نائب حامی اہل اسلام نہیں رہا ہے۔اسی واسطے اہل اسلام یتیمان و غریبان و بے کساں کی طرح پائمال ہیں۔
اس زمانہ کے اکثر علماء جو علمائی کا دعویٰ کر نے والے ہیں ،تو ان کا پیشہ یہ ہے کہ متا ع دنیا خسیس کے لیے دنیا داروں کے ساتھ محبت و رغبت رکھتے ہیں۔بلکہ ان دنیا داروں کو اپنی روزی جان کران کے بد اخلاق،ناپسندیدہ و بد کر داری کے مطابق حق بیان نہیں کر سکتے۔اگر کم از کم بیان بھی کریں تو اسی سبب سے مخلوقات کو ذرہ بھر اثر و تاثیر نہیں ہوتی۔
اگر علماء جو نائب رسول ہیں،یعنی علمایان دین متین محمدیہ اگر وہ اس زمانہ میں اصلی حق بیان کرتے،تو دنیا داروںکے ساتھ عداوت وضد کر تے ہوئے حقارت کی نظر سے ان کی طرف دیکھتے۔اس لیے کہ وہ نائب رسول اپنی نیابت میں مجبور ہیں ،تو جب غور سے دیکھا جائے کہ نائبوں کے کردار ایسے ہو چکے ہیںتو پھر خیمہ اسلام کو شکستی ہے۔‘‘ ؎۹
اسی پیچیدہ مسلے کو دانائے راز حضرت علامہ اقبال نظم ’’ ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ میں کچھ اس طرح پیش کر تے ہیں ۔ ؎
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈر تا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مر غزار ختن سے نکال دو
اقبال ؔ کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
اسی موضوع کے تحت آگے چل کر حامی و مبلغ شریعت و طریقت حضرت جناب با با جی صا حبؒ بے علم اور بے عمل واعظ کے بارے میں فر ماتے ہیں۔’’جوایسے شہر ہیں کہ جہاں کوئی عالم یا واعظ ایسا نہیں جو منبرپر بیٹھ کے واعظ کہے۔یااس شہر کے عالم دنیا میں پھسے ہوئے ہیں،دین کی مصیبتوں میں مشغول نہیں ہیںتو وہ بھی غفلت میں رہے گا کیونکہ وہاں کے عالم بھی غافل اور سوئے ہوے ہیں،کہ وہ دوسروںکو کیونکر جگا سکیںگے۔
اور جو شہر کا عالم منبرپر بیٹھتا ہے ،تو مجلس واعظ سے منبر کو گرم رکھتا ہے،جیسا کہ بے ہودہ ناصحوں کی عادت ہو تی ہے کہ وہ گرم فقرے گھڑ گھڑ کے مقفیٰ و مسجع بناکر بولتے ہیں اور واہیات باتیں تراشتے ہیں۔اور رحمت الہٰی کے وعدے سے لوگوں کو فریب دیتے ہیںاور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جس حال پر ہوں گے خدا کی رحمت ہمارے شامل حال رہے گی۔اور ان لوگوں کا کام خلاف قوموں سے بھی بد تر ہے۔اور ان کی مثل اس شخص کی سی ہے جو سر رہ سوتا ہو اور کوئی اسے جگا کر ایسی شراب پلا دے کہ جس سے وہ مد ہوش وبالکل مست ہو کر گر پڑے،اور یہ بد بخت پہلے تو ایسا بھی تھا کہ ذراسی آواز بھی سنتا تھاتو فوراً جاگ اٹھتا تھا،اب ایسا ہو گیا ہے کہ اگر پچاس لاتیں بھی اس کی کھوپڑی پر ماری جائیں تو اسے خبر نہ ہو۔اور جو عام آدمی ان مجلسوں میں بیٹھے،تو وہ بھی ویسا ہی ہو جاوے کہ کوئی خطرہ آخرت کا اس کے دل میں نہ آوے۔اور اگر اس سے کچھ کہا جائے تو کہے کہ خدا تعالیٰ بڑا رحیم وکریم ہے، اسے ہمارے گناہوں سے کیا نقصان۔اس کی بہشت تو بڑی فراخ ہے۔ایسی نہیں کہ مجھ سے یا مجھ جیسے لوگوں سے تنگ ہو جائے۔اور اس کی مثل بے ہودہ باتیں اس کے دل میں سما جائیں۔جو واعظ و ناصح لوگوں سے اس طرح کی باتیں بگار ے تو وہ دجال ہے اورخلق کا دین بگاڑ تا ہے۔
اس کی مثال اس بے وقوف طبیب کی سی ہے کہ جو بیمار حرارت کے سبب قریب المرگ ہوتو اسے شہد پلائے اور کہے کہ اس میں شفا ء ہے۔سو یہ کہنا اس کا اگر چہ ٹھیک ہے،مگر شفا ء تو اسی بیمار کے لیے ہے کہ جس کی بیماری سر دی سے ہو‘‘ ؎۱۰
اس سارے منظر نامے کو اقبال کی زبان میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ؎
؎ صوفی کی طریقت میں فقط مستئی احوال
ملاّ کی شریعت میں فقط مستئی گفتار
اور ارمغان حجاز کی طویل نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں فر ما تے ہیں۔
؎ ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تا ویلات میں الجھا رہے
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
ابن مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے؟
ہیں صفات ذات حق،حق سے جدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدّد جس میں ہوں فر زند مریم کی صفات؟
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہیات کے تر شے ہوے لات و منات
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کر دار سے
تا بساط عالم میں اس کے سب مہرے ہوں مات
’’اسرار کبیری ‘‘ میں جہاں حضرت مصنف نے زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کو قرآن وحدیث کی عینک سے دیکھ پرکھ کر عوام الناس کو سمجھا یا ہے وہیں اس کتاب میں ادب و انکساری جیسی اعلیٰ انسانی قدروں کی تبلیغ بھی جگہ جگہ ملتی ہے۔اس کتاب میں مصنف حضرت بابا جی صاحب ؒ نے مختلف موضوعات کے تحت ذات باری تعالیٰ،حضور رسالت مآب ﷺ اور دیگر انبیائ،اصحاب مصطفی ﷺاور اولیائے امت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے شایان شان الفاظ کا استعمال جس انداز سے کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے مریدین اور دوسرے لوگوں کو اس عظیم انسانی و اخلاقی قدر کو اپنانے کی تلقین کی ہے بلکہ اپنی ذات کو بھی ادب و انکساری کا بہترین نمونہ بناکے پیش کیا ہے اور یہ مومنوں کی میراث ہے۔بقول دانائے راز ؎
؎ اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگاہ دل نواز
نرم دل گفتگو گرم دل جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل پاک باز۔
’’ اسرار کبیری کے مصنفؒ نے مختلف موضوعات کے تحت ذات باری تعالیٰ،حضور پر نور ﷺ اور دیگر انبیاء واصحاب رسول ﷺاور اولیائے کرام کا تذکرہ کر تے ہوئے ادب و انکساری کا جو مظاہرہ کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ منازل سلوک کے حصول کے لیے وہ طالب کا باادب اور منکسر المزاج ہونا کتنا اہم تصور کر تے تھے۔مثلاً کتاب ھذا سے ’’کبر کی حقیقت اور اس کی آفتوں کا بیان‘‘ میں فر ماتے ہیں۔ً
’’ واضح رہے کہ کبر یعنی تکبر و بڑائی ایک برا اخلاق ہے۔اور اخلاق دل کی صفت ہے۔اور ان کا اثر ظاہر ہو تا ہے۔اور کبر کے یہ معنی ہیں کہ اپنے آپ کواوروں سے مقدم رکھے اور اچھا جانے اور اس کے سبب اس میں ایک ہوا بھر جائے۔اور پھولا نہ سمائے تو اس پھلائے والی ہوا کا نام تکبر ہے۔حضرت رسول کریم ﷺ نے فر مایا:’’ اعوذبک من نفختہ الکبر‘‘ (اے اللہ ! میں تیرے سے پناہ مانگتا ہوں کبر کی ہواکسے۔)
جب آدمی میں یہ ہوا بھر جایا کرتی ہے تو وہ اوروں سے اپنے آپ کو بڑااور بر تر جانا کرتاہے۔ اور انہیں اپنا خادم سمجھ کر دیکھا کر تاہے،بلکہ یہاں تک ہوا بھر جاتی ہے کہ انہیں اپنی خدمت کے لائق بھی نہیں سمجھتااور کہہ دیا کرتا ہے کہ تو میری خدمت کے کیا لائق ہے،جیسے کہ بادشاہ لوگ ہر کسی کوقابل نہیں سمجھتے کہ وہ آستان بوسی کرے اور اپنے کو بندہ لکھ سکے اور یہ انتہا درجہ کا تکبر ہے کہ خداکی کبریائی سے بھی بڑھا ہواہے۔کیونکہ وہ سب کو اپنی بندگی اور سجود میں قبول کر لیتا ہے۔
لوگوں نے حضرت محمد ﷺ سے پو چھا کہ کبر کیا ہے۔؟فر مایا کہ حق تعالیٰ کے لیے اپنی گردن نرم نہ رکھنا،اور لوگوں کو حقارت سے دیکھنا کہ یہ دونوں خصلتیں حق تعالیٰ اور انسان کے درمیان بڑے حجابوںمیں سے ہیں۔انہی سے سارے برے اخلاق پیدا ہوتے ہیںاور ان ہی کے سبب بندہ اچھے اور نیک اخلاق اختیار کرنے سے قاصر رہتا ہے۔کیونکہ جس میں خواجگی،عزیزنفسی اوربڑائی گھسی ہوئی ہو وہ جو چیز اپنے لیے پسند کرے گا وہ دوسروں کے لیے پسند نہ کرے گا اور ایمانداروں کی شرط نہیں وہ کسی کے ساتھ فروتنی نہ کر سکے گا۔مگر یہ پرہیز گاروں کی صفت نہیں،اور وہ کینے،حسد،بخل سے ہاتھ نہ روک سکے گا۔اور جو کوئی اس کی تعظیم نہ کرے تو وہ اپنے دل میںاس کی طرف سے کچھ میل رکھے گا۔‘‘ ؎۱۱
درحقیقت کبر وغرورزند گی گزارنے کا ایک منفی رویہ ہے،ذہنی مرض کی علامت اور ہر قسم کے زوال کی بڑی نشانی ہے جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قر آن حکیم میں شیطان کا وہ واقعہ بیان فر ما کر پیش کی ہے جب اس متکبر نے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کر نے سے انکار کر دیااوراس کبریائی کے نتیجہ کے طور پربارگاہ خداوندی سے رد ہو گیااور عزازیل سے شیطان لعین بن گیا۔اس واقعہ کا بیان قرآن میں یوں ملتا ہے۔
’’واذقلناللملِٓئکۃاسجدوالاٰدم فسجدواالاابلیس ابے واستکبر وکان من الکفرین‘‘۔ ؎۱۲
مصنف کتاب ’’ اسرار کبیری ‘‘حضرت بابا جی صاحب ؒ تکبر کے درجوں کا بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ واضح رہے کہ بعض کبر تو بہت ہی برا ہے اور اس کا فرق متکبر کے تفاوت درجات سے پیدا ہوتا ہے۔کیونکہ تکبر تیں طرح کا ہے:
(۱)خداپاک سے تکبر۔ (۲)رسول پاک سے تکبر۔ (۳)بندگان خداسے تکبر۔ ‘‘ ؎۱۳
حضرت مصنف ؒ نے اپنی اس شہر آفاق کتاب میں کبر و غرور کے عنوان کے تحت جو کچھ بیان فرمایا ہے میری دانست میں اسے قرآن حکیم،قوانین شرعیہ اور رسول اکرم ﷺ کی حیات پاک کی رو شنی میں دیکھا ،پر کھا اور سمجھا جائے تو قاری پر وہ راز منکشف ہو جائے گا جو بندے کی تکمیل خودی کے جان سوز عمل میں مشکل کشا ثابت ہو سکے اور اگر بندہ بابا جی صاحب ؒکے پیش کردہ اس فارمولے کے قالب میں اپنی ذات کو ڈھالنے میں کامیاب ہو جائے تو بقول دانائے راز وہ یہ رتبہ حاصل کر لیتا ہے کہ
؎ خدابندے سے خد پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے۔
حضرت مصنف ؒ جن کا شمار سر کار دو عالم ﷺ کی امت کے اکابرین اولیائے کرام میں ہوتا ہے کی شخصیت بھی عجز و انکساری کا اعلیٰ نمونہ تھی ،ایسا نمونہ جس کے بارے میں سن پڑھ کر رسول پاک ﷺ کی سیرت کے بہت سارے وقعات یاد کی تختی پہ کنندہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ’’اسرار کبیری‘‘ میں بیان کردہ ابتدائی الفاظ یا’’آغاز سخن ‘‘( Opening Words)کے عنوان سے انہوں نے جو دیباچہ ( Foreword )تحریر کیا ہے اس میں فر ماتے ہیں۔
’’واضح ہو کہ خادم الفقرا تصنیف کی قابلیت نہ رکھتا تھا مگر مجبوری سے حکم ہذا کی تعمیل کی گئی ہے۔اس لیے ہر ایک صاحب کو چاہیے کہ بندہ کی تقریر میںجو سہواًغلطی الفاظ واقع ہوئی ہے تو اس میں کسی قسم کی انگشت نمائی نہ کریں،بلکہ بندہ کی غلطی الفاظ و عبارات قبول فر ماکر فدوی کے حق میں دعاے خیر کرنی چاہیے۔‘‘ ؎۱۴
مختصر ’’اسرار کبیری‘‘ بر صغیر میں اسلامی تصوف کے نظریہ پر تحریر کردہ منفرد اور شہکار نسخہ ہے،جس میں صاحب کتاب (حضرت میاں عبداللہ ؒ المعروف بابا جی صاحبؒ )نے تقریباً102عنوانات پر قران و حدیث ،حضور رسالت مآب ﷺ کی سیرت مقدسہ آپؐ کے اصحاب ؓ اور ائمہ و مجتہدین کی زندگیوں اور ان کے طریقوں کو نہ صرف انسانی زندگی میں پیش آ نے والے اہم مسا ئل ومعاملات کی تفہیم کی غرض سے پیش کیا ہے بلکہ وہ ان تاریخ ساز ہستیوں کے واضح کردہ نقشہ راہ (Road Map ) کے مطابق زندگی گزارنے کی سختی سے تلقین بھی کرتے ہیں۔کتاب کا آغاز حمد باری تعالیٰ (منظوم )سے ہوتا ہے اور اختتام مناجات مصنف ( منظوم) جو پنجابی زبان میں ہے پر ہو تا ہے۔
دور حاضر یا جدید (Modern Period)تعلیمی منشا( Knowledge Explosion )اور ( Information Democracy or information Technology) کا عہد ہے جس نے (Slective Study) کے رجحان کو عام کر نے کے ساتھ ساتھ علوم کے معیارات و عقائد(Beliefs)اور بہت سارے مذہبی نظریات ( Religious Ideologies)کو بھی بدل کے رکھ دیا ہے اور عالمی سطح پر ما دیت ( Materialism) کے تصور
نے مادیت پرست اور صارفینی تہذیب( Materialistic and Consume culture)
کی پروردہ انسانی نسل اخلاق ،ہمدردی،بھائی چارہ وغیرہ جیسے زریں اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ہر شے کو نفع اور نقصان کی نظر دیکھتی ہے ۔فکر کا یہ زاویہ غیر فطری بھی ہے اور غیر اسلامی بھی۔اس مابعد جدید ثقافتی صورت حال( Post Modern or Post .post Modern Cultural condition) کے دور میں اہل حق کی پرکھ ان سے وابستگی یا ان کے روحانی فیض سے مستفید ہونے کا ایک اہم ذریعہ باباجی صاحب ؒ کی یہ تصنیف یعنی ’’ اسرار کبیری‘‘ہے جس کے مطالعے سے نہ صرف ہمارے دینی علم کے سر ماے میں اضافہ ہو تا ہے بلکہ باباجی صاحب ؒکی زندگی اور ان کے دنیی کردار کی تفصیلی خبر بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ہمارا عہد جو اسلاف کے عقائد سے بیزاری ،رو حانیت سے دوری اور معربی تہذیب ( Western Culture) کی زوال آمادہ ظاہری چکاچوند کا شیدا ہے اس میں اسلامی معاشرہ اپنے دانشوروں سے یہی اپیل کر تا ہے کہ بابا جی صاحب ؒ اور عرب عجم کے دیگر اولیائے کرام نے جو بھی علمی سر مایہ چھوڑاہے اسے تراجم کے ذریعے دینا کی تمام بڑی زبانوں میں منتقل کیا جائے خاص طوپر اس میدان میں ’’ اسرار کبیری‘‘ جیسی بت شکن تصنیف پر شدو مد کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے ساتھ ساتھ اس کی سافٹ کاپیاں( Soft copies ) تیار کر کے اس (Information highway ) کا حصہ بھی بنا نے کی ضرورت ہے جس سے سا ری دنیا مستفید ہو ،اسی صورت میں ہمارے نوجوان حکیم الاامت ،دانائے راز علامہ اقبالؒ کے اس شعر میں پوشیدہ معنی کے جہاں کو منکشف کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں کہ:۔
؎ خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے۔
حواشی
۱)اسرار کبیری ، حضرت میاں عبداللہ (بابا جی صاحبؒ) ، گوجری ادبی بورڈ پاکستان لاہور ۱۹۹۴؁ء
صفحہ نمبر ۳۶۲۔ (۲)ایضاً، صفحہ نمبر ۳۶۲۔ (۳)ایضاً، صفحہ نمبر ۲۷۱ ۔ (۴) فکر اقبال ،ڈاکٹر خلیفہ عبدلحلیم ۔بزم اقبال لاہور ؁ء ، صفحہ نمبر ۳۷۳۔ (۵)اسرار کبیری،حضرت میاں عبداللہ ؒ (بابا جی صاحب ؒ ) ِگوجری ادبی بورڈ پاکستان لاہور ۱۹۹۴؁ء صفحہ نمبر ۲۷۱۔ (۶) ایضاً ، صفحہ نمبر ۱،۲۔ (۷)ایضاً صفحہ نمبر ۷۰ ،۷۱۔ (۸) ایضاً صفحہ نمبر ۱۸۷،۱۸۸۔ (۹)ایضاً صفحہ نمبر ۷۶،۷۷۔ (۱۰)ایضاً صفحہ نمبر ۷۹،۸۰۔ (۱۱) ایضاً صفحہ نمبر ۵۲۔۵۳ ۔ (۱۲)القر آن ،پارہ نمبر ۱ ،سورہ ابقر ہ،آیت نمبر۳۴۔
(۱۳)اسرار کبیری ، حضرت میاں عبد اللہ لارویؒ ، گوجری ادبی بورڈ پاکستان لاہور،۱۹۹۴؁ء صفحہ نمبر۵۴،۵۵۔ (۱۴) ایضاً صفحہ نمبر ۱۔ (۱۵) کلیات اقبال ،اردو کلام۔ (ختم شُد)
نوٹ: (مقالہ نگار ادب میں ڈاکٹریٹ ہیں، معروف کالم نگار،براڈ کاسٹر، محقق اور شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں)۔
٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا