’نفرت کو ختم کریں اور’ملک میں محبت اور بھائی چارے کو مضبوط کریں‘

0
0

کشمیری شاعر سروانند کول پریمی کو جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ سے نوازا گیا
لازوال ڈیسک
جموں؍؍جموں و کشمیر کی حکومت نے 23 افراد کی فہرست جاری کی ہے جنہیں سرکاری اعزازات کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ اس فہرست میںشاعر، استاد اور سماجی کارکن آنجہانی سروانند کول پریمی بھی ہیںجنہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے!وہیںریٹائرڈ چیف انجینئر آنجہانی ہربنس لال مینی کو بھی بعد از مرگ یہی ایوارڈ دیا گیا ہے۔واضح رہے سروانند کول پریمی 1924 میں پیدا ہوئے تھے۔ انہیں اپنے بڑے بیٹے وریندر کے ساتھ 1990 میں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں واقع ان کے آبائی گاؤں صوف شالی سے انتہا پسندوں نے اغوا کر کے قتل کر دیا تھا۔ پریمی، جنہوں نے سیکولر اقدار اورکشمیریت کے لیے جدوجہد کی ان کی ساری زندگی تمام مذاہب اور نظریات کی مداح ہے ۔اس طرح ان کی موت نے ان لوگوں میں صدمے کی لہریں بھیج دیں جو ایک جامع کشمیر کے آئیڈیل پر یقین رکھتے تھے۔تاہمعظیم ادب کے حق میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ واقعی ایک قابل فخر لمحہ۔اس سلسلے میں آنجہانی کی بیٹے راجندر نے کہاکہ میرے والد ایک شاعر، محب وطن، قوم پرست، آزادی پسند، ہمارے ملک اور خاص طور پر جموں و کشمیر میں امن اور بھائی چارے کے مشعل بردار تھے۔پریمی نے کشمیری، اردو اور ہندی میں لکھا۔ وہ رامائن کے اردو ترجمہ اور مہابھارت کے کشمیری ترجمہ کے لیے مشہور ہیں۔مشہور کشمیری شاعر، مہجور نے سروانند کول پریمی کو’پریمی‘ کا خطاب دیا۔ انہوں نے فطرت، محبت، کشمیریت اور دیگر چیزوں کے بارے میں لکھا۔ سروانند کول پریمی ایک آزادی پسند تھے جنہوں نے کئی نامور شخصیات کے ساتھ کام کیا۔ انہیں مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا آزاد، علی محمد جناح، شیخ محمد عبداللہ، بخشی غلام محمد، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ سمیت غیر منقسم ہندوستان کی بلند پایہ شخصیات سے ملنے اور بات چیت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔انہوں نے ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ لیا اور چھ مرتبہ گرفتار ہوئے۔ کشمیر پر ان کی نظمیں مادر وطن سے محبت کے جذبات کو ابھارتی ہیں۔ ان کی نظم’ہل والے پیارے جھنڈے، تجھے سلام میرا‘ کشمیر سے ان کی محبت کے بارے میں بات کرتی ہے۔وہ سیکولر اقدار کے علمبردار تھے اور اتحاد کو برقرار رکھنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کی زندگی کا بخوبی اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں حضرت بابا نصیب الدین غازیؒ کی درگاہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ گاؤں والے ان کی عزت کرتے تھے کیونکہ وہ ان کے گاؤں میں واحد استاد تھے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا