غزل

0
0

 

 

 

ساجد انس ؔ

شمار کرتے تھے جو اپنے جاں نثارو ںمیں
وہ اب سمجھتے ہیں مجھ کو گناہ گارو ںمیں
جو تم پہ آئے مصیبت تو پیچھے ہٹ جائوں
کبھی نہ سمجھو مجھے ایسے ہوشیاروں میں
انہیں کا نام وطن دشمنوں میں آتاہے
جہاں پناہ کے جو تھے بھی رازداروں میں
جو بات آتی نہیں ہے بیاں میں پوری طرح
بخوبی ہوتی ہے ظاہر کبھی اشاروں میں
اگرچہ ایک ہی شاخ و شجر کے دونوں ہیں
صفت گلوں کی نہیں آسکی بھی خاروں میں
وہ اپنی ذات کی تشکیل کر نہیں پائے
گھِرے جو اپنی اَنا کے رہے حصاروں میں
کسی کی بیجا ستائش نہ کرسکا انسؔ
کبھی رہا نہ کسی کے گلہ گزاروں میں

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا