قسط اول
از۔ڈاکٹر معین الدین شاہینؔ۔ایسو سئیٹ پروفیسر۔
سمراٹ پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج،اجمیر
مرحوم لعل محمد جوہر کوٹوی ثم اجمیری شعرائے راجستھان کی فہرست میں اپنی برگزیدہ شخصیت کے سبب انفرادی پہچان رکھتے ہیں۔جوہرؔ صاحب کا سلسلۂ تلمذ حضرت امیر مینائی سے ملتا ہے جو بذاتِ خود ایک دبستان کی حیثیت رکھتے تھے۔امیرؔ کے شاگرد مضطرؔ خیر آبادی کے ارشد تلامذہ کی طویل فہرست میں مرزا مغل بیگ مغلؔ اجمیری نے آزادی سے قبل صوبۂ راجستھان میں اردو کا پرچم لہرا کر ایسے ذہین اور با صلاحیت نوجوانوں کو علم و ادب سے وابستگی کی ترغیب دلائی جنھوں نے اپنی فکرِ رسا کی بنیاد پر جہانِ شعر و سخن میں ناموری حاصل کی۔ جوہرؔ کوٹوی ان ہی یکتائے روز گار شخصیات میں ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔مغلؔ اجمیری جوہرؔ مرحوم کے استاد سخن ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے پھوپھا بھی تھے۔تاہم مغلؔ اجمیری نے اس رشتہ کی گہرائیوں کے با عث جوہر کو جوہرِ قابل بنانے میں خصوصی توجہ صرف کی۔
جوہرؔ کوٹوی نے شاعری کی مروّجہ روش کو اپنا تے ہوئے اردو فارسی کی اکثر اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔آزادی سے قبل ان کی تخلیقات خاصی تعداد میں جمع ہو گئی تھیں۔لیکن صد افسوس کے آپ کے عہدِ شباب کا تمام کلام تقسیم ہند کی ہنگامہ آرائیوں کی نذر ہو گیا اور انھیں اجمیر کوخیر باد کہہ کر کوٹہ میں پناہ لینی پڑی۔جوہرؔ صاحب کو تا دمِ حیات اس بات کا صدمہ اور ملال رہا کہ ان کا بہترین کلام نذرِ آتش ہو گیااور شاید یہی وجہ رہی ہو کہ بعد ازاں جو تخلیقات وجود میں آئیں ان کے تحفّظ کے سلسلے میں آپ نے خصوصی اہتمام نہیں کیا۔آپ کے نورِ نظر اور عہدِ حاضر کے کے مشہور و مقبول اور صاحبِ طرز شاعر عبد العزیز تنویرؔ کوٹوی ثم اجمیری اکثر دورانِ گفتگو راقم کو بتاتے رہتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی مرحوم اسحق محمد روشنؔ کوٹوی نے جو کچھ تخلیقاتِ جو ہر ؔ تبرکاً محفوظ رکھیں تھیں انھیں کی بنیاد پر ان کے مجموعہ کلام بہ عنوان’’جو ہرؔ پارے‘‘ کے ترتیب و تدوین عمل میں آئی۔
راقم نے گزشتہ سطور میں یہ اشارہ کیا ہے کہ جوہرؔ صاحب نے مروّجہ اصناف میں طبع آزمائی فرمائی تاہم کلامِ جوہرؔمیںحمد،نعت،منقبت،غزل،نظم،رباعی قطعہ،تضمین،مستزاد وغیرہ اصناف موجود ہیں۔جو آپ کی پختہ کاری اور قادرالکلامی کا بیّن ثبوت ہیں۔چونکہ جوہرؔ مرحوم کی تعلیم و تربیت مذہبی گھرانے میں ہوئی تھی اس لئے حضور ﷺ اور بزرگان دین سے عقیدت و محبت کا جذبہ آپ کی رگ رگ میں سمایا ہوا تھا۔یہی وہ جذبہ ہے جو آپ کی مذہبی شاعری کا محرّک ثابت ہوا۔آپ کی اس قبیل کی تخلیقات ایک طرف جوشِ عقیدت اور دوسری طرف مشاقی کی اعلیٰ و ارفع مثالیں پیش کرتی ہیں۔میدانِ حمد و نعت گوئی میں جوہرؔ صاحب نے سنبھل سنبھل کر موضوعات و مفاہیم کو تخلیق کا جامہ پہنا یا ہے جن میں اعتدال پسندی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر واضح کرنے کی ہنر مندی کارفرما ہے۔جس کی صراحت کے لئے ’’جو ہر پارے‘‘سے ان اشعار کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
بہاروں میں،فضائوں میں گلوں میں گلعذاروں میں
خدایا تیری قدرت کے مناظر ہی نظر آئے
زمین و آسماں،مہر و مہ و اختر بنے کیسے
کہاں سے کوہ و دریا اور کہاں سے بحر و بر آئے
یہ سبزہ زار اور یہ رنگ و بو گلشن کے پھولوں میں
تیری قدرت کہ مٹّی سے نکل کر یہ ابھر آئے
بہت حیراں ہوں میں قدرت کو اس کی دیکھ کر جوہرؔ
شجر میں برگ و کلیاں آئیں پھر گل اور ثمر آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگاہوں میں مری اتنا اثر ہو یا رسول اللہ
کہ روضہ آپ کا پیشِ نظر ہو یا رسول اللہ
کوئی کملی کے سائے میں رہیگا کوئی جنّت میں
مگر جوہرؔ حزیں زیرِ نظر ہو یا رسول اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بن کے مہمانِ خدا عرش پہ پہنچے حضرتؐ
تعالیٰ اللہ یہ خاطر یہ مدارات ہے اور
بخش دیں چاہیں تو کونین کی دولت جوہرؔ
ان کا اندازِ کرم، موجِ عنایات ہے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو مجھ کو بھی دکھا یا رب دیارِ احمدی
پہلوئے دل میں کھٹکتا ہے یہ خارِ احمدی
ڈال دینا میری تربت پر مدینے کا غبار
حشر تک باقی رہے تا یادگارِ احمدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدائے دو جہاں خود طالبِ دیدار ہو جس کا
صفت کیا ہو بیاں اس جلوۂ حسنِ مجسّم کی
نہ عالم پوچھئے اس کے سُرور و کیف کا جوہرؔ
کہ جس پر ہو نظر محبوبِ خلّاقِ دو عالم کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اور سوا مانگ طلبگارِ مدینہ
مختارِ دو عالم ہیں وہ مختارِ مدینہ
خورشیدِ قیامت کا مجھے خوف ہی کیا ہے
ہے سر پہ میرے دامنِ سرکارِ مدینہ
جوہرؔ میں غلامِ شہِ ابرارؐ ہوں مجھ کو
ہے فخر کہ، ہوں بردۂ مختارِ مدینہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوہرؔ کوٹوی کے مذکورہ اشعار میں جو تزک و احتشام موجود ہے وہی طمطراق آپ کی منقبتیہ شاعری میں موجود ہے جو کلام کو جلا بخشتا ہے۔’’جوہر پارے‘‘کے مشمولات میں جو تخلیقات مناقب کی صورت میں موجود ہیں ان میں چند ایسی مثالیں اکابرین شعراء کے دوش بدوش نظر آتی ہیں۔:
زباں پر جب محبت میں مری نامِ علیؓ آیا
وہیں بادِ صبا کے ہاتھ پیغامِ علیؓ آیا
جو دیکھا مے کدے میںساغرِ حبّ علیؓ میں نے
مری آنکھوں میں کھنچ کر نقشۂ جامِ علی آیا
مجھے دم بھر میں ہوتی ہے زیارت اس طرح جوہرؔ
اُدھر آنکھوں میں صورت اور اِدھر نام ِ علیؓ آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا زباں سے جب یا معیں غریب نواز
مدد کو آگئے فوراً وہیں غریب نواز
یہی ہے اب دلِ جوہرؔ میں آرزو خواجہ
فدا ہو آپ پہ جانِ حزیں غریب نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو دیکھی خواجہ ٔ اجمیر نے تنویرِ عثمانی
تو اے جوہرؔ سراپا بن گئے تنویرِ عثمانی
ہوئی روشن میری تربت ،ہوئی کافور تاریکی
لحد میں جبکہ جوہرؔ، آگئی تنویر عثمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اپنی موج میں جس وقت آئے شاہِ جیلانی
ہزاروں فیض کے دریا بہائے شاہِ جیلانی
یہ خوش خبری سناتا ہوں مریضانِ محبت کو
دوائے دردِ دل ہے خاکِ پائے شاہِ جیلانی
دعا شام و سحر میری یہی ہے حق سے اے جوہرؔ
مرادیں سب کی بر آئیں برائے شاہِ جیلانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائبِ احمدِؐ مختار،امامِ اعظم
زُہدو تقویٰ کے علمدار امامِ اعظم
عدل انصاف کی تلوار امامِ اعظم
مرہمِ زخمِ دل افگار امامِ اعظم
صاحبِ جوہرِؔ ایثار امامِ اعظم
عظمتِ دین کے مینار امامِ اعظم
قطعہ اور رباعی جیسی سخت گیر اور دقّت طلب اصنافِ سخن میں فنکارانہ باریکیوں کے سبب کامیاب و کامران ہو کر مسافتِ سخن میں فکرِ رسا کے جوہر دکھاتے ہوئے گزر جانا جوہرؔ صاحب کو خوب آتا تھا۔اس لئے آپ کی رباعیات اور قطعات میں فکر و فلسفہ،تصوّف اور روحانیت اور معرفتِ الٰہی کے علاوہ بعض دیگر موضوعات کو ایک کامیاب جوہری کی طرح پیش کیا گیا ہے۔اس لئے آپ کی رباعیات و قطعات اردو فارسی کے ان شعراء کرام کی رباعیات و قطعات کے ہم پلّہ ہیں جنھیں رباعی گوئی اور قطعہ نگاری میں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔