سیّد مبشر رفاعی
قدرت نے بنی نوع انسان کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے جن کی بدولت ایک انسان سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی گذارتا ہے۔ قدرت کی بخشی ہوئی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ”صحت“ ہے۔ صحت تندرست ہو تو ایک انسان اپنی زندگی کے معمولات بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ انسان کی دنیا میں چاہے کوئی بھی سماجی حیثیت ہو، اچھی صحت کو ہر کسی نے ایک بہت بڑی دولت سے تعبیر کیا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ایک انسان اپنی صحت کا ہمیشہ خیال رکھے۔ صحت جب بھی خراب ہو جا تی ہے تو اےک انسان جسمانی سکون حاصل کرنے کےلئے ایک طبیب سے رجوع کرتا ہے اور یہ حقیقی دولت حاصل کرنے کےلئے اپنی تمام دنیاوی دولت لٹانے کیلئے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ بیمارکو شفائ بخشنا اگرچہ صریحاًا±س ہستی کے دست قدرت میں ہے جس نے ایک انسان کو یہ نعمت عطا کی ہے، تاہم ا±سی خالق بشر نے دنیا میں اس کےلئے ذریعے بھی پیدا کئے ہیں، جن کا ہم استعمال کرکے اور سہارا لے کر بیماری کی حالت سے شفائ حاصل کرتے ہیں۔صحت کی حقیقت کو ہم سب اچھی طرح سے سمجھتے ہیںجس کی بدولت یہ بات ہمارے ذہن میں آجاتی ہے کہ صحت کا خیال رکھنا ایک انسان کےلئے کتنا اہم ہے اور طبیب کا پیشہ کتنا مقدس ہے۔ طبیب کے پےشے کو اس وجہ سے بھی اہمیت حاصل ہے کیونکہ جب آدمی بیمار ہو جاتا ہے تو وہ طبیب کے ساتھ اپنی ساری امیدیں وابستہ کرلیتا ہے اور ا±س کو اپنا مسیحا مان کراس کی تمام نصیحتوں اور اس کے مشوروں پر عمل کرتا ہے۔ لیکن یہ بات کتنی حیران کن اور تشویشناک ہے بہت سے لوگ اپنی صحت کو ایک عام سی چیز جان کر اس کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔اس سے زیادہ پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ بیشتر طبیب دنیاوی فائدوں کےلئے مریض کے ساتھ دھوکہ دہی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری وادی میں ایک عجیب صورتحال پیدا ہوئی ہے اور یہاں قدم قدم پرڈاکٹری کلینک دیکھے جاسکتے ہیں۔ قارئین حضرات مجھے غلط نہ سمجھیں۔ زیادہ ڈاکٹری کلینکوں کا مطلب ہے کہ ہمارے یہاں زیادہ طبی سہولیات میسر ہیں جو کہ ایک اچھی اورخوش آئند علامت ہے۔ لیکن اگر کسی مخصوص علاقے میں قائم دس ڈاکٹری کلینکوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو مشاہدے میں یہ بات آئے گی کہ دس میں سے آٹھ کلینک ایسے ہیں جہاںپر ”نیم حکیم“ مریضوں کا بلا کسی خوف و خطر علاج و معالجہ کرکے مجبور اور لاچار لوگوںکو دودو ہاتھوں لوٹ رہے ہیں۔ وادی کشمیر میں نیم حکیموں کی بھر مار ہے اور ہر طرف اس قسم کے لوگوں نے اپنی دکانیں سجا رکھی ہیں۔ شائد اسی لئے کہ مرض کی حالت میں انسان مول تول کئے بغیر صحت کی انمول نعمت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔نیم حکیم مریض کی اسی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اپنی کاروائیاں انجام دےتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اب فٹ پاتھوں پر دیگر بازاروں کے ساتھ ساتھ صحت بازار بھی لگتے ہیں اور کچھ خود ساختہ ڈاکٹر صاحبان فٹ پاتھ پر ہی مریضوں کا علاج کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری وادی میں بے شمار غیر ریاستی حکیم صاحبان کی آمد بھی لگی رہتی ہے، جو یہاں آکر بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں اور لاچار مریضو ں کو اپنی طرف راغب کرنے اور اپنے جال میں پھنسانے کےلئے اخباروں اور دیگر ذرائع سے تشہیر کرتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ سبھی غیر ریاستی ڈاکٹر اور حکیم اپنے آپ کو چند مخصوص بیماریوں کے ماہر قرار دیتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نیم حکیم اپنے ”کاروبار“ کی کامیابی کےلئے اپنے گاہکوں کی کمزوریوں کو اچھی طرح سے بھانپ لےتے ہیں۔ یہ حکیم ایسی بیماریوں کے کامیاب علاج کا دعویٰ کرتے ہیں جن کو ظاہر کرنے میں ایک مریض سماجی وجوہات کی بنائ پر کسی نہ کسی پریشانی یا شرم کا سامنا کرتا ہے۔مریض کی اسی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر یہ نیم حکیم نہ صرف بیماروں کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں بلکہ ایک مقدس پیشے کے ساتھ ناانصافی کرکے گناہ عظیم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ غیرریاستی حکیموں کی اس روش اور کامیابی کو دیکھ کر ہمارے کچھ مقامی لوگ بھی اس ”کاروبار“ میں کود پڑے ہیں جو چند خوبصورت اور لبھاونے نعروں کی مدد سے مریضوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ لوگ اپنے ہی سماج کو لوٹنے اور دوہری سطح پر کھوکھلا بنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ دولت سمیٹنے کی لالچ نے انہیں اس قدر نابینا بنا دیا ہے کہ انہیں یہی سب کچھ دائمی نظر آتا ہے اور اس بات کا انہیںکوئی خیال نہیں ہے اس سب کے لئے انہیں اس ہستی کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا جس کی امانت کے ساتھ وہ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک مریض کا علاج ایک ماہر ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے اور بیماری کی حالت میں کسی نیم حکیم کے پاس جانا اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔سائنس نے کافی ترقی کی ہے اور اب مختلف بیماریوں کا بہتر طریقے پر علاج کے علاوہ تشخیصی عمل بھی ممکن ہے۔ سائنس نے اس قدر ترقی کی ہے کہ ایک مخصوص انسانی عضو کے مرض کا ایک مخصوص ماہر معالج علاج کرتا ہے اور اس کے قابل بننے کے لئے ا±س ڈاکٹر کو برس ہا برس پڑھائی اور تحقیق کرنا پڑتی ہے۔ ایک عام انسان اس ماہر معالج اور ایک نیم حکیم کے مابین بخوبی فرق کرسکتا ہے جس کی بنائ پر یہ فیصلہ لیا جاسکتا ہے کہ بیماری کی حالت میں کس کو مسیحا مانا جائے اور کس سے علاج کروایا جائے۔ آج کل کے اس دور میں جب ہر سو علم کا نور پھیلا ہوا ہے ، نیم حکیم سے کسی بیماری کا علاج کروانا جہالت کی واضح دلیل ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بیماری کی صحیح تشخیص ایک ماہر اور سند یافتہ ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے اور اس عمل کے بعد موزون داکٹر مریض کو موزون ادویات تجویز کرتا ہے جس سے یہ بات ثابت ہو جا تی ہے کہ کوئی بھی دوائی ماہر ڈاکٹر کے مشورے کے بغےر نہیں لی جاسکتی ہے، اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن نیم حکیم حضرات یہاں بھی لوازمات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے میڈیا کے ذریعے اپنی ادویات کی تشہیر کرتے ہیں۔ اکثر ایسی ادویات کی تشہیر کی جاتی ہے جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ مردوں اور عورتوں کے پوشیدہ امراض کے لئے مفید ہیں۔ یہ عمل جہاں ایک طرف غےر قانونی ہے وہیں اس طرح کی ادویات کی تشہیر سماجی بگاڑ کا سبب بھی بن سکتی ہے اور اگر ان ادویات کااستعمال فائدہ مند ہونے کے بجائے سماج اور صحت کےلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ہمارے یہاں بیشتر نیم حکیموں نے اپنے ناموں کے ساتھ کچھ ایسی ڈگریاں جوڑدی ہیں جن کا پورا مطلب و معنی انہیںخود بھی معلوم نہیں ہیں۔ یہ لوگ دن بھر مریضوں کی اچھی خاصی تعداد کا جسمانی ملاحظہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مریض کے علاج کے لئے معالج کی ڈگری سے زیادہ دست شفا کا عمل دخل ہو تا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن اس بات کو اس کے مکمل تناظر میں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک سند یافتہ معالج اور ایک نیم حکیم کے مابین فرق کو واضح کیا جاسکے۔ اس بات کی اصل روح یہ ہے کہ جو سند ےافتہ ڈاکٹر اپنے منصبی اور پیشہ وارانہ فرائض بغیر کسی دنیا وی لالچ کے ایمانداری اور احساس آخرت(جواب دہی) کے ساتھ انجام دیتا ہے اس کو خالق کائنات دست شفا کی عظیم نعمت سے بھی نواز دیتا ہے، اور جو کوئی ڈاکٹر اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتنے کا مرتکب ہوجاتا ہے اور مریض کی صحت پر اپنے ذاتی فوائد کو ترجیح دیتا ہے، اس کے پاس چاہے کتنی ہی بڑی ڈگری ہو ،وہ دست شفا کی نعمت سے محروم ہو جا تا ہے۔ایک مریض کےلئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ علاج کروانے کےلئے موزون اور صحیح معالج کا انتخاب کرے اور خالق کی عطا کردہ اس عظیم نعمت اور امانت کے ساتھ خوامخواہ نہ کھلواڑ کرے اور نہ جہالت کا مظاہرہ۔نیم حکیموں کے پھیلاو کا رجحان ہماری وادی میں بڑی تےزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ سرکار اس وبائ کو روکنے میں انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس سرد مہری کی وجہ سے انسانی جانوں کے ساتھ ہورہا یہ کاروبار بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں باضابطہ طور پر قوانین وضع کئے گئے ہیں لیکن ان کو حیرت انگیز طور پر کاغذات تک ہی محدود کر کے رکھا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدہ نوٹس لیں اور اس وبا کو روکنے کی خاطر کار گر کاروائی عمل میں لائیں۔ اب سرکار کب خواب خرگوش کی نیند سے بیدار ہو، اور کب اس کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہو، اس بارے میں رائے زنی کرنا کسی کے بس کی بات نہیں، لیکن یہ با ت ہمارے ہی بس میں ہے کہ ہم ان غیر ریاستی نیم حکیموں کی حوصلہ شکنی کریں اور اطمینان و سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔ اس وبا کو روکنے کی خاطر ہر ایک شخص ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کر سکتا ہے۔