یواین آئی
نئی دہلیلوک سبھا میں اپوزیشن نے حکومت پر صدر جیسے آئینی عہدہ پر سیاست کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جمعرات کو کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے آئین اور آئینی اداروں کوکمزور کیا ہے ۔صدر کے خطاب پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کانگریس کے ملک ارجن کھڑگے نے کہاکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کا خطاب حکومت کی مبینہ طورپر کامیابیوں کا محض پلندہ ہے ۔ اس خطاب میں حکومت کے ساڑھے چار برس کی مدت کار کے کام کاج کو پیش کیا گیا ہے جو صدر جیسے آئینی عہدہ کے سیاسی استعمال کے مترادف ہے ۔انہوں نے اپنے خطاب میں موجودہ حکومت کے کام کاج کا موازنہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے ) کی سابقہ حکومتوں کے کام کاج سے کرنے کو نامناسب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی جہاں جاتے ہیں یہ کہتے پھرتے ہیں کہ گزشتہ 60برس میں کانگریس نے کیا کیا تو ہم نے (کانگریس نے ) ملک کو دودھ دیا ’ تعلیم دی’ پانی دیا سب کچھ دیا۔مسٹر کھڑگے نے 1951اور 2014کے ترقیاتی اعداد و شمار کی تقابلی تشریح کرتے ہوئے کہاکہ 1951میں جہاں ملک کی خواندگی شرح 16فیصد تھی وہیں 2014میں یہ بڑھ کر 74فیصد تک پہنچ گئی۔ آزادی کے وقت اناج کی پیداوار جہاں پانچ کروڑ ٹن تھی وہیں 2014میں 13کروڑ 80لاکھ ٹن ہوگئی۔ تب دودھ کی پیداوار ایک کروڑ 70لاکھ ٹن تھی’ جو 2014میں بڑھ کر 13کروڑ 80لاکھ ٹن پر پہنچ گئی۔ آزادی کے بعد ملک میں 500کالج تھے ’جن کی تعداد 2014تک 37ہزار کے پار پہنچ گئی۔انہوں نے نوٹوں کی منسوخی کے مضر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ سابقہ منموہن حکومت کے دوران ایک وقت مجموعی گھریلو شرح نمو 9.6فیصد تھی جبکہ مودی حکومت میں یہ اوسط 7.5فیصد رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نوٹوں کی منسوخی کا چھوٹے کاروباریوں اور تاجروں پر برا اثر پڑا ہے ۔مسٹر کھڑگے نے مودی حکومت کو نام بدلو، وعدہ خلاف اور جھوٹ بولنے والی حکومت قرار دیا ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مسٹرمودی نے شروع سے ہی جھوٹ بولا، ہر ایک کی جیب میں پندرہ لاکھ روپے جائیں گے ،ہر برس دو کروڑ روزگار دیں گے ۔ مالیات سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے کہاکہ نوٹوں کی منسوخی کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کو پریشانی ہوئی لیکن حکومت نے رپورٹ بدلوا دی۔ بے روزگاری کی شرح 2011-12میں 3.8فیصد تھی اور 2017-18میں 6.1فیصد ہوگئی۔ گاووں میں حالت اوربھی خراب ہے ۔ وہاں بے روزگاری 17.4فیصد ہوگئی۔ قومی نمونہ سروے محکمہ کے دو اراکین استعفیٰ دیکر چلے گئے ۔ جولائی 2017-18میں حکومت میں تقریباََ ڈھائی لاکھ عہدے خالی پڑے تھے ۔ مارچ 2018میں ڈاک تار محکمہ میں 55ہزار عہدے خالی تھے ۔ دوردرشن آکاشوانی میں 9ریزرو زمروں کے عہدے خالی پڑے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ ای ایس آئی اور ای پی ایف کے اعدادو شمار میں نئے روزگار کی بات پتہ ہی نہیں چلتی بلکہ پرانے روزگار کو اس کاروبار میں جوڑنے کی بات کہی گئی ہے ۔ انہوں نے جی ایس ٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ تین چار شرحوں میں اس کا مقصد ختم ہوگیا۔ ہم نے زیادہ سے زیادہ 18فیصد رکھنے کیلئے کہا تھا لیکن انتخابات آتے گئے تو شرح کم کرتے گئے ۔انہوں نے رافیل طیارہ کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ انکی حکومت کے وقت ہندستان ایروناٹکس لمیٹڈ کو کام دینے کی تجویز تھی جبکہ مودی حکومت نے جسے آفسیٹ پارٹنر بنایا ہے اس 45000کروڑ روپے کی کمپنی نے خود کو دیوالیہ اعلان کردیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں حکومت کے ذریعہ جھوٹا حلف نامہ دائر کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے اس معاملہ کی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے جانچ کرانے کی مانگ دہراتے ہوئے کہاکہ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوگا ہم تب تک لڑتے رہیں گے ۔مسٹر کھڑگے نے اداروں کو کمزور کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ ریزرو بینک میں گورنروں، اقتصادی مشیروں، نیتی آیوگ کے نائب صدور کے آنے جانے کا سلسلہ لگا رہا۔ سی بی آئی، وجی لینس کمیشن، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، انکم ٹیکس سب پر حکومت کا دباو ہے ۔ انہوں نے کسانوں کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ حکومت نے کاروبار دنیا کا ایک لاکھ دس ہزار کروڑ روپے کا قرض معاف کیا ہے لیکن کسانوں کا نہیں ۔ اب انتخابات کے پیش نظر اعلانات کئے جارہے ہیں۔مسٹر کھڑگے نے کہا کہ یو پی اے حکومت کے وقت کسانوں کی فصل کی کم از کم سہارا قیمت 11.28فیصد کی شرح سے بڑھائی گئی لیکن مودی حکومت کی مدت کار میں یہ اعداد و شمار صرف 4.91فیصد رہا۔ فصل بیمہ یوجنا 84لاکھ کسانوں نے چھوڑ دی ہے ۔ اس اسکیم سے انشورنس کمپنیوں کی کمائی ہورہی ہے ۔انہوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت سے ہوئی آمدنی کا حساب مانگا اور کہاکہ نو دس لاکھ کروڑ روپے کی کمائی کا کیا ہوا۔ انہوں نے خواتین ریزرویشن بل نہیں لانے کے لئے مودی حکومت کی تنقید کی اور منریگا کا الاٹمنٹ کم کرنے کا الزام لگایا جس کی حکمراں فریق نے سخت مخالفت کی اور کہاکہ الاٹمنٹ میں اضافہ کیا گیا ہے کم نہیں کیا گیا۔ انہوں نے صدر کے خطاب میں بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کا ذکر نہیں ہونے کی بات کہی۔ انہوں نے لوک پال بل کو طویل عرصہ تک لٹکا ئے رکھنے کا الزام لگایا۔مسٹر کھڑگے نے حکومت کے تقریباََ ایک درجہ فلیگ شپ پروگراموں کی فہرست پڑھتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ حکومت نام بدلو حکومت ہے اور اس نے یو پی اے حکومت کی اسکیموں کے نام بدل کرانہیں چلایا۔ انہوں نے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر اور کنڑ سنت بسوننا کے اقتباسات بھی پڑھے اور آخر میں کہا کہ مذہب میں عقیدت روح کی نجات کا راستہ ہے لیکن سیاست میں بھکتی گراوٹ کی وجہ بنتی ہے اور ایک طرح سے تاناشاہی کی طرف لیکر جاتی ہے ۔شیوسینا کے آنند راو اڈسول نے 14کروڑ کنبوں کورسوئی گیس کنکشن دینے کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس کے نفاذ میں خامی ہے ۔ غریب کنبوں کو پہلا سلنڈر تو مل جاتا ہے لیکن دوسرا سلنڈر یا تو ملتا نہیں یا لینے کے اہل نہیں ہیں۔ دس لاکھ غریب کنبوں کو علاج کے لئے سالانہ پانچ لاکھ روپے تک کی آیوشمان بھارت یوجنا کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اگر اس پر صحیح طریقہ سے عمل ہو تو یہ دنیا کی سب سے اچھی اسکیم ہے ۔صدر کے خطاب میں نوٹوں کی منسوخ: کی تعریف پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بلیک منی وہ تھا جو پیسہ ٹیکس چوری کرکے غیرممالک میں جمع کرایا گیا تھا۔ نوٹوں کی منسوخی کی وجہ سے کسان کھیتی کرنے والے مزدوروں کومزدوری نہیں دے سکے ، چھوٹی صنعتیں بند ہوگئیں جس کا اثر بڑی صنعتوں پر بھی پڑا ۔ آج بھی اس سے ملک باہر نہیں آسکا ہے ۔ اگر اس کی تعریف کی جائے گی تو اس پر انہیں اعتراض ہے ۔شیوسینا کے رکن نے کسانوں کی خودکشی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ ہر دن اخبارات میں ایک دو کسان کے خودکشی کرنے کی خبر آتی ہے ۔ترنمول کانگریس کے دنیش ترویدی نے تجویز کی مخالف کرتے ہوئے کہاکہ صدر نے خطاب میں کہا کہ 014کے انتخابات سے پہلے ملک میں غیریقینی کی صورتحال تھی۔ یہ سمجھ سے پرے ہے کہ وہ کس طرح کی غیریقینی کی بات کررہے تھے ۔ کیا حکومت نہیں تھی ، پارلیمنٹ نہیں تھی؟ انہوں نے موجودہ حکومت پر ملک کے جذبہ ے الگ ہٹنے کاالزام لگایا۔انہوں نے مغربی بنگال میں گزشتہ دنوں ہوئے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مرکزی حکومت پر انگریزوں کی خوف کا راج قائم کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہاکہ انگریز گھر میں گھس آتے تھے اور ڈراتے دھمکاتے تھے کہ جو ان کے ساتھ نہیں ہے اس پر حملہ کردیں گے ، اسی طرح آج مرکزی حکومت سی بی آئی ، ای ڈی کا استعمال کرکے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کررہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ مغل بادشاہ کی طرح جاری نوٹوں کی منسوخی کے فرمان نے لوگوں کو اپنے ہی پیسہ کے لئے بھکاری بنا دیا تھا۔ بے روزگاری آج چالیس سال کی سب سے اونچی سطح 6.1فیصد پر ہے ۔ نوٹوں کی منسوخی کا مقصدبھی پورا نہیں ہوسکا کیونکہ ریزرو بینک کی رپورٹ کے مطابق جعلی نوٹوں کا چلن 37.7فیصد بڑھ گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ‘نیو انڈیا’ 2019کا سب سے بڑا انتخابی جملہ ہے جس طرح 2014کا اچھے دن کا وعدہ جملہ ثابت ہوا اسی طرح یہ بھی ایک جملہ ہے ۔نیو انڈیا کا مطلب خوف ہے ، اس کا مطلب ملک کی گنگا ۔جمنی تہذیب کو تباہ کرنا ہے ، اس کا مطلب بے روزگاری اور زرعی بحران ہے ۔ اس کا مطلب کسانوں کی خودکشی ہے ۔تیلگو دیشم پارٹی کے جے دیو گلا نے حکومت پر وعدہ خلافی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت میں آنے سے پہلے آندھراپردیش کو دس برس تک خصوصی ریاست کا درجہ دینے اور اس کی راجدھانی کو دہلی سے بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس نے یہ وعدہ پورا نہیں کرکے وہاں کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے ۔انہوں نے حکومت پر صف بندی کی سیاست کرنے کا الزام لگایا اورکہا کہ جوسیاست بی جے پی کررہی ہے وہ ملک کی اکثریت کے مفاد میں نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نگرانی رکھ رہی ہے اور جس طرح سے سب کے ڈاٹا پر اس حکومت کی نظر ہے وہ ملک کے عام لوگوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے ۔مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے محمد سلیم نے کہاکہ صدر کے خطاب میں حکومت کی کامیابیوں کو گنایا گیا ہے ۔ ان کا الزام تھا کہ اس حکومت میں کسان، مزدور اور عام لوگوں کا حق چھینا جارہا ہے ۔ اقتصادی سروے نہیں لایا گیا ہے کیونکہ اس سے اصلیت سامنے آنے والی تھی۔ اس پر اعداد و شمار کے وزیر سدانند گوڑ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر سلیم غلط بیانی کررہے ہیں اور اخبارات میں شائع خبر کی بنیاد پر اپنی بات کہہ رہے ہیں۔راشٹریہ جنتادل کے جے پرکاش نارائن یادو نے کہاکہ گزشتہ عام انتخابات میں ملک کے عوام سے جووعدے کئے گئے تھے صدر کے خطاب میں انہی وعدوں کو اس بار رکھا گیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ تب اچھے دن کی بات کرنے والی بی جے پی کے ہی اچھے دن آئے ہیں اور وہ بھی سمجھ گئی ہے کہ ملک کے عوام کا موقف بدلا ہوا ہے اور وہ ا سے اقتدار سے اکھاڑ پھینکے کا دل بنا چکے ہیں۔شرومنی اکالی دل کے پریم سنگھ چندو ماجرا نے کہاکہ حکومت نے پانچ برس میں بہت کام کیا ہے اس لئے انے اپنی تمام کامیابیوں کو صدر کے خطاب میں گنایا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جن کے پاس بتانے کے لئے ہوتا ہے وہی اپنی بات کو ملک کے عوام کو بتا سکتے ہیں۔بی جے پی کے کریٹ پی سولنکی نے کہاکہ حکومت نے گزشتہ پانچ برس کے دوران چھ کروڑ رسوئی گیس کنکشن بانٹے ہیں۔ پہلی حکومت کے وقت پانچ برس میں جہاں صرف 25لاکھ مکانات بنے تھے موجودہ حکومت کی مدت کار میں ایک کروڑ 38لاکھ گھر بناکر غریبوں کو دے ئے گئے ہیں۔