دوسری عالمی جنگ سے کم نہیں روس، یوکرین جنگ

0
0

ہر منٹ میں 55 بچے رفیوجی بننے کو مجبور، کھانا – پانی تک نہیں مل رہا
لازوال ڈیسک

نیویارک؍؍وسطی اور مشرقی یورپ میں تیزی سے رہائشی سہولیات میں تبدیل ہونے والی عمارتوں میں پناہ لینے والے ہزاروں یوکرینی بچے اپنے ملک پر روس کے حملے کے بعد پناہ گزینوں کے طور پر فرار ہونے کی نئی حقیقت کو قبول نہیں کر پارہے ہیں۔ یونیسیف کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 24 فروری کو روسی حملے شروع ہونے کے بعد سے یوکرین سے پولینڈ، ہنگری، سلوواکیہ، رومانیہ اور مالڈووا بھاگ جانے والے تیس لاکھ سے زائد افراد میں سے نصف بچے ہیں۔ یوکرین کی سرحد سے متصل ممالک نے ان کے اکثر پناہ گزینوں کو پناہ تو دی ہے، لیکن ان ممالک کی انتظامیہ خوفزدہ یوکرینی بچوں کو طویل مدتی ذہنی نگہداشت فراہم کرنے کے بہت بڑے کام سے جوجھ رہی ہے۔ گزشتہ 20 دنوں سے ہر منٹ میں 55 بچے یوکرین سے فرار ہو کر ان ممالک میں جا رہے ہیں اور یہ رجحان تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ روسی فوجی دستوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ صرف مالڈووا میںپیسوں کی کمی سے جوجھ رہے ناقص انتظام والے اسکولوں میں، بلکہ نسبتاً امیر ملک پولینڈ میں مسلسل لوگوں کے پہنچنے کا امکان ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یوکرین کے نوجوان اپنے گھروں اور اپنے والدین سے علیحدگی کی طویل مدتی نوعیت کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔ مالڈووا کے دارالحکومت میں پناہ گزینوں کے سب سے بڑے مرکز میں یوکرین کے بچوں کے ساتھ کام کرنے والی چیسینا ؤکی ایک اسکول کی ماہر نفسیات ارینا پورکاری نے کہا کہ کچھ بچے زور دے کر کہتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹی چھٹی یا اسکول سے چھٹی پر ہیں۔ پورکاری کے مطابق سنٹر پہنچنے والے زیادہ تر بچے پریشان اور رابطے کتراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بچوں کی طرف ہمارا پہلا قدم ان کے ذہنی تناؤ کو کم کرنا ہے اور اس صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کرنا ہے۔انٹرنیشنل ڈیسک: وسطی اور مشرقی یورپ میں تیزی سے رہائشی سہولیات میں تبدیل ہونے والی عمارتوں میں پناہ لینے والے ہزاروں یوکرینی بچے اپنے ملک پر روس کے حملے کے بعد پناہ گزینوں کے طور پر فرار ہونے کی نئی حقیقت کو قبول نہیں کر پارہے ہیں۔ منگل کو یونیسیف کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 24 فروری کو روسی حملے شروع ہونے کے بعد سے یوکرین سے پولینڈ، ہنگری، سلوواکیہ، رومانیہ اور مالڈووا بھاگ جانے والے تیس لاکھ سے زائد افراد میں سے نصف بچے ہیں۔ یوکرین کی سرحد سے متصل ممالک نے ان کے اکثر پناہ گزینوں کو پناہ تو دی ہے، لیکن ان ممالک کی انتظامیہ خوفزدہ یوکرینی بچوں کو طویل مدتی ذہنی نگہداشت فراہم کرنے کے بہت بڑے کام سے جوجھ رہی ہے۔ گزشتہ 20 دنوں سے ہر منٹ میں 55 بچے یوکرین سے فرار ہو کر ان ممالک میں جا رہے ہیں اور یہ رجحان تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ روسی فوجی دستوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ صرف مالڈووا میںپیسوں کی کمی سے جوجھ رہے ناقص انتظام والے اسکولوں میں، بلکہ نسبتاً امیر ملک پولینڈ میں مسلسل لوگوں کے پہنچنے کا امکان ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یوکرین کے نوجوان اپنے گھروں اور اپنے والدین سے علیحدگی کی طویل مدتی نوعیت کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔ مالڈووا کے دارالحکومت میں پناہ گزینوں کے سب سے بڑے مرکز میں یوکرین کے بچوں کے ساتھ کام کرنے والی چیسینا ؤکی ایک اسکول کی ماہر نفسیات ارینا پورکاری نے کہا کہ کچھ بچے زور دے کر کہتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹی چھٹی یا اسکول سے چھٹی پر ہیں۔ پورکاری کے مطابق سنٹر پہنچنے والے زیادہ تر بچے پریشان اور رابطے کتراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بچوں کی طرف ہمارا پہلا قدم ان کے ذہنی تناؤ کو کم کرنا ہے اور اس صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کرنا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا