ملاوٹ

0
0

تحریر: احمدمنیب
تمہید
انسان کو فطرت صحیحہ سلیمہ پر پیدا کیا گیا۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہے:
ترجمہ:۔ یعنی ہر نومود کو فطرت صحیحہ و سلیمہ پر پیدا کیا گیا ہے۔
ترجمہ:اس کے والدین اسے بعد زمانہ ہوش یا تو یہودی بنا دیتے ہیں یا عیسائی یا مجوسی یعنی ستارہ پرست۔
فطرت سلیم کا مطلب ہے کہ کجی سے پاک لیکن ابلیسیت اور دجالیت نے اس کی سلیم فطرت کو گہنا دیا۔ اس میں گناہ کا لوث اور بدی کی ملونی کر دی اور منافقت کی ملمع سازی کر کے جنت بدر کروا دیا۔
*دنیوی پہلو*
ملاوٹ کو اگر دنیاوی پہلو سے دیکھیں تو اس کا آسان مطلب ہے کہ اصل میں نقل کو ملا جْلا دینا۔
خالص کو ناخالص میں اس طرح خلط ملط کر دینا کہ اصل اور نقل کی پہچان قائم نہ رہے۔
*تہذہبی پہلو*
مذہبی زبان میں اسے دجل یا تلبیس کہتے ہیں۔
*قرآن کریم*
سورۃ البقرۃ کی ابتدائی سترہ آیات میں تین گروہ کا ذکر کیا گیا ہے:
1: *مومن* جو خالص ایمان دار اور بے لوث گروہ ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا اور ایمان کی خاطر ہر تکلیف و کْلفت برداشت کرتا ہے یعنی ثابت قدم اور جراء ت مند لوگ!
2: *کافر* جو توحید و رسالت کا صاف انکار کرنے والوں کا گروہ ہے اور ایمان داروں کو تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔ گویا یہ لوگ بھی جراء ت مند ہوتے ہیں کیوں کہ کھل کر انکار کرتے اور صاف سامنے آ کر مخالفت کرتے ہیں۔
3: *منافقین* کا گروہ جو دھوکہ دہی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا گویا
*خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں*
*صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں*
مومنین سے ملتے ہیں تو ان کے ساتھ اور کفار سے ملتے ہیں تو ان کے ہوتے ہیں۔ گویا ملاوٹ کا معنی ہوا منافقت۔
منافقین کے بارہ میں یہ بھی ارشاد یوا کہ
ترجمہ:وہ بزعم خود اللہ اور مومنین کو اپنے اس گھناونے کردار کے ساتھ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ دراصل خود فریبی میں مبتلا ہیں لیکن اس کا شعور نہیں رکھتے۔
گویا قرآن مجید فرقانِ حمید نے یہ اصل بھی بیان فرما دی کہ دھوکہ دینے والا دراصل خودفریبی کا شکار ہوتا ہے کیونکہ بظاہر وہ فائدہ اٹھا رہا ہوتا لیکن فی الحقیقت ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اپنی آخرت سے ہاتھ دھو رہا ہوتا ہے۔
سلسلہء انبیاء
حدیثِ قدسی ہے کہ
ترجمہ:کہ میں ایک مخفی خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاوں سو میں نے آدم کو تخلیق کیا۔
حدیث قدسی ہے کہ
الخلق عیال اللہ
کہ خلق خدا کنبہء خدا ہے۔
قرآن کریم میں فرمایا
ترجمہ :۔اخلاق اللہ اپنائو۔:(سورۃ البقرۃ)
سو اخلاق اللہ اپنانے کے لیے ایسے لوگوں کی مطہر حیات پر نظر ڈالنا پڑے گی جو سرتاپا اللہ کے رنگ میں رنگین دکھائی دیتے ہیں یعنی زْمرہء انبیاء۔
پھر اگر ارشادِ ربانی
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ
کو دیکھیں تو انسانِ کامل حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دراصل تمام انبیاء ِ کرام کی نمائندہ ذات دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے اگر ہم صرف نبی اْمی و آخرالزمان کی سیرت مبارکہ و مطہرہ کو دیکھ لیں تو سب آشکار ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سب سخن کے جام بھرتے ہیں اسی سرکار سے۔
اْسوہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم
جملہ انبیاء علیہم السلام نے حق و صداقت، ایمان داری، نیکی اور تقویٰ کا ہی درس دیا اور خود ہر دم راستی پر عمل کر کے دکھایا اور اپنی جان کی پروا تک نہ کی۔ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا، حضرت عیسٰی علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا لیکن ان کے پایہء ثبات میں لغزش نہیں دیکھی گئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی مخالفت کی آگ بھڑکائی گئی لیکن وقت اور تاریخ کی آنکھ نے آپؐ کو ایک مضبوط چٹان کی مانند پایا۔ آپ کونے کا وہ پتھر ثابت ہوئے کہ جو آپ سے ٹکرایا پاش پاش ہوگیا اور جس پر آپ گرے وہ چکناچور ہو گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاندانی طور ہر تجارت پیشہ تھے۔ اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ مال تجارت لے جاتے اور تجارت کے گْر سیکھے۔ پھر عین عنفوانِ شباب میں اکیلے بھی تجارتی مال لے کر جاتے اور باقی تمام تْجّار سے پہلے مال فروخت کر کے واپس مکہ تشریف لے آتے۔
ایمانداری اور صداقت پر مبنی یہ سلسلہء تجارت ایسا معروف و مشہور ہوا کہ مکہ کی معزز ترین متمول خاتون طاہرہ لقب محترمہ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے کانوں تک پہنچا جو اس وقت کے بہت بڑے صوفی ولی اللہ صاحبِ کشوف و رویا بزرگ جناب ورقہ بن نوفل کی عزیزہ تھیں اور ان کی نیکی اور تقوی کا شہرہ حالتِ بیوگی میں بھی چاردانگِ عالم میں پھیلا اور جگمگا رہا تھا.
حضرت خدیجہ نے آپ ؐ کو اپنا تجارتی مال دینا شروع کیا اور آپ سب سے پہلے مکہ سے نکلتے اور مال بیچ کر اب سے پہلے واپس مکہ تشریف لے آتے۔ ایک بار کسی تاجر کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ میں مناسب قیمت پر چیز بیچتا اور جائز منافع لیتا ہوں اس لیے میری اشیا جلدی بک جاتی ہیں۔ گویا آپ تاجروں کے لیے بھی بہترین نمونہ ہیں۔
تجارت کے جو اصول آپ نے وضع فرمائے وہ حسبِ ذیل ہیں:
1: برائے فروخت اشیا کا معیار صاف طور پر بتانا۔
2: اچھی اور صاف ستھری چیز اور کم تر چیز کی قیمت الگ الگ بتانا۔
3: اپنی چیز کی خوبی اور خامی گاہک پر واضح کرنا۔
4: ساری اجناس کی الگ الگ ڈھیری لگانا اور اعلی و ادنی کو ملا جلا کر اعلی کے ریٹ پر فروخت نہ کرنا۔
5: مال بیچنے کے جھوٹی قسمیں نہ کھانا۔
6: اپنے مال کے بارہ بات کرتے ہوئے دوسروں کے مال کی بدتعریفی نہ کرنا۔ وغیرہ
یوں آپ سے مال لریدنے والے آپ سے بھاو تاو بھی نہیں کرتے تھے اور اعتماد کی ایسی فضا قائم ہو چکی تھی کہ غیر لوگ آنکھیں بند کر کے آپ سے مال خرید لیتے اور مکہ و طائف کی وادیاں یا صادق و یا امین یامحمد کے نام سے گونجتی تھیں اور بعض فصیح البیان آپ کو صادق سے بڑھ کر صدوق بھی کہہ کر بھی پکارتے تھے جس کا معنی ہے کہ صدق و صفا میں ایسا بڑھا ہوا کہ جان کی بھی پروا نہیں کرتا۔
*بعد ازبعثت*
*وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں*
*اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے بازاروں میں*
آپ نے کبھی کسی کام میں بھی مداہنت، منافقت، ملاوٹ کا سہارا نہیں لیا۔
بعثت کے بعد ایک بار بازار سے گزرتے ہوئے گندم فروخت کرنے والے کے پاس سے گزرے تو محسوس کیا کہ ملاوٹ کرتا ہے تو گندم کے اندر ہاتھ ڈالا اندر سے گندم کو گیلا پا کر فرمایا
من غش فلیس منا
ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔
اچھی اور گندی کھجوریں ملا کر پیچنے والے سے فرمایا کہ جہنم کی آگ کا ایندھن بننے سے بچو۔
رشتہ داریوں کے معاملات میں بھی لوگوں کو تلبیس اور دجل سے بچنے کی نصیحت فرمائی اور ہمیشہ صلہ رحمی کا درس دیا۔
آج لوگ اپنا مال بیچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے، دعوے کرتے اور ملاوٹ کر کے اشیا بیچتے ہیں۔
بعض قصائی مردہ جانوروں کا گوشت حلال کے طور پر بیچتے ہیں۔
بعضے لکڑی کے بْرادہ یا پھک پر سرخ رنگ چڑھا کر سرخ مرچوں کے طور پر بیچتے ہیں۔
معدودے سونف کو رنگ کر زیرہ کے بھاو فروخت کرتے ہیں۔
ایسیبلوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ ایسے تاجروں اور دکانداروں کی اولادیں حرام کھانے کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں اور عاقبت بھی تباہ ہو جاتی ہے۔
حرفِ آخر
پس ہمیں ہر ایک قسم کی ملاوٹ سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اسوہء حسنہ کو اپنانا چاہیے۔ اللہ ہمیں نیکی پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا