رمانہ تبسم،پٹنہ سیٹی۔۸
رابطہ۔9973889970
سرزمین عظیم آباد نے ہمیشہ دنیا ادب کو ایک سے ایک عظیم دانشور،مفکر،شاعر،ادیب دئے، جنہوں نے عظیم آباد میں سکونت اختیار کر اس سر زمین کو چار چاند لگایا ،اس سر زمین پر ایک ایسا ہی درخشاںستارا1959میں نمودار ہوا جنہوں نے دبستان عظیم آباد کو چار شعری مجموعے ’’رقص سیماب، گرد سفر،فانوس خیال اور نقوش پا منظر عام پر لا کر اردو ادب کو سیراب کیا ۔اردو ادب نے ان ذیشان مجموعے کا خیر مقدم کیا اور ان مجموعے کو بزم راہی سے شگفتہ گیاوی اوارڈ 1999میں علمی مجلس بہار سے راسخ عظیم آبادی اوارڈ 2009میں بہار اردو اکادمی نے رقص سیماب پر اول انعام 2013انعام و اکرام سے بھی نوازاگیا۔ یہ بزرگ شاعر سید مظفر ضیاء عظیم آبادی ہیں ،اس وقت 83برس کے ہیں اور مدت سے داد سخن رہے ہیں۔ان کی پیدائش حضرت سائیں ضلع پٹنہ جو راسخ عظیم آبادی کی پیدائش ہے میں ہوئی ۔ضیاء عظیم آبادی نے حضرت سائیں کے اسکول سے مڈل بورڈ کا امتحان پاس ہی کیا تھا کہ 1946کو ہنگامی سال آدھمکا اور ان کے والدین حضرت سائیں سے ہجرت کی اور عظیم آباد میں مستقل سکونت اختیار کر لی،لیکن ضیاء صاحب کو گائوں کی وہ گلیاں اور وہاں کی شرارتیں ،اٹکھیلیاں انہیں آج بھی مسخور کرتی ہیں اور اسی جذبات و احساسات،تجربات،خیالات اور کیفیات کو الفاظ کو پیرہن میں سمیٹ کر شعر و شاعری کرنے لگے لیکن ان کے گھر والے ان کی شاعری سے سخت خلاف ہوئے کیونکہ ضیاء صاحب سائنس کے طالب علم تھے اوران کے گھر والے نہیں چاہتے تھے کہ وہ شعر و شاعری کی طرف راغب ہوں ،لیکن ضیا ء صاحب گھر والوں سے چھپ چھپ کر شعر کہنے لگے اور ان کے اس ذوق و سخن کو چنگاری کی ہوا ان کے خالہ زاد بھائی ضیاء الحسن رضوی نے دی۔ ضیاء عظیم آبادی نے جب کالج میں قدم رکھا تو انہیں غزل اور غزال دونوں کی قربت نصیب ہوئی اور کالج کی کھلی فضا میں ان کے اندر کا شاعر گنگنانے لگا ۔اور وہ غزلیں، نظمیں خوب کہنے لگے ۔ ان کی غزلیںاور نظمیں اخبارات و رسائل کی زینت بننے لگیں۔ 1960میں جب ان کا وٹنری کا رزلٹ آیا اور جولائی 1960میںانہوں نے جوائن کیا ۔ضیاء صاحب وٹنری ڈاکٹر ہونے کے بعد ان کی زندگی بڑی مشغول گزری اور اکژ ان کا تبادلہ ہوتا رہتا۔ملازمت کے دوران انہیں مختلف مقامات اور ہر طرح کے لوگوں سے سابقہ بھی پڑتا رہا۔ اس لئے ان کی شاعری میں قوم،معاشرے کا دکھ درد حالات کا کرب اور ان کے اصلاح کی خواہش و سعی کے نمونے نظر آتے ہیں اور قاری کی چال سے واقف بھی کراتے ہیں اور ماضی کے خوشگوار لمحات، واقعات اور عظمت ماضی سے سبق لینے کی ترغیب بھی دیتے ہیں ۔ ضیاء عظیم آبادی کی غزلوں میں زندگی کی حوصلہ مندی، طبیعت کی سرشاری ،زندگی کی بے قراری ،اضطرابی اور ذات کی بے چینی صاف طور پر دیکھائی دیتی ہے ۔ملاحظہ فرمائیں ؎ کون کہتا ہے ہمیں درد کا احساس نہیں سچ تو یہ ہے وفائوں کا ہمیں پاس نہیں خون اشکوں میں ڈھلے جاتے ہیں پھر بھی ہمدم درد دل کا مرے ان کو کوئی احساس نہیں ڈاکٹر سید مظفرضیاء عظیم آبادی کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے سخت بات کو بھی نرم و شیریں لب و لہجہ میں شاعری کے پیرائی میں اس طرح کہا کہ سخت دل بھی سبھی رنجش بھول کر ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے ہیں آئے قارئین دیکھتے ہیں ضیاء عظیم آبادی کس طرح سخت دل کو نرم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے گلے ملنے کے لئے بیقرار ہو جاتے ہیں۔ ؎وقت کی تند ہوائوں سے نہ مر جھا جائوں ایک شجر پیار کا ایسا بھی لگایا جائے بدلتے وقت کے ساتھ لوگوںکی بے رخی ضیاء صاحب سے برداشت نہیں ہوتی ۔جنہوں نے دوست بن کر ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کی بے رخی دیکھ کر ان کا دل بیقرار ہو جاتا ہے اور ان پر مایوسی اور یاس طاری ہو جاتی ہے ۔ملاحظہ فرمائیں ؎تھی روشنی تو سایہ بھی چلتا تھا ساتھ ساتھ سورج ڈھلا تو سایہ نہ جانے کدھر گیا جو بے خبر رہا میری حالت سے عمر بھر مجھ پر ہی بے رخی کا وہ الزام دھر گیا ؎اگر ملنے ملانے کا بھی کچھ تم سلسلہ رکھتے یقین مانو کہ ہم یہ سلسلہ تم سے مواد رکھتے ڈاکٹر مظفر ضیاء عظیم آبادی اپنی شاعری میں انسان کی سیرت اور ان کی شخصیت کو سنوارنے میں مدد کرتے ہیں اور ناکامی کی حالت میں جب انسان پرمایوسی کا رددِ عمل ایسا سخت ہے کہ وہ اپنی خودی اور اپنے خدا دونوں کی شکایت کرتا پھرتا ہے لیکن اگر انسان کے دل میں منزل کو پانے کی جستجو ہو تو اپنی محنت ومشقت سے اپنے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے اور کامیابی اس کے قدم چومیں گی۔ضیاء عظیم آبادی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔ ؎قدم چومنے خود ہی آئے گی منزل عزائم اگر ہوں مسافت سے پہلے ڈاکٹر سید مظفر ضیاء عظیم آبادی کے حمد ،نعت،نظمیں اور غزلیں پڑھنے کے بعد قاری کے دل و دماغ میں ایک خاص کیفیت سے سرشار ہو جاتا ہے ۔ضیاء عظیم آبادی شاہد باز بھی ہیں اور ذاہدشب دندہ دار بھی نظر آتے ہیں ۔