مہندی کا پیڑ

0
0

افسانہ

اظہر نیّر
برہولیا۔ کنسی سمری، دربھنگہ ، بہار
9939749452

چار پہر رات بیت چکی ہے تھوڑی دیر میں صبح ہوگی اور صبح کے ساتھ ہی رام کلیاؔاپنے بابا کے گھر سے رخصت ہوجائے گی۔ چمڑ ٹولی ہریجن ٹولی کے پرائمری اسکول میں باراتی سوئے ہوئے ہیں، اندر جھونپڑی میں رام کلیا دیوار کے سہارے بیٹھی ہے اس کی مائی (ماں) بھی وہیں رام کلیا کو بتابتا کر ایک ایک سامان بکسے میں رکھتی جارہی ہے۔ چاندی کا لچھا، ہسنلی اور گردھنی، چھاپا والا لوں گا۔ مہکوا تیل ، کپڑے دھونے اور نہانے کا تین تین ٹکیہ صابن،لال ہرا گلابی بیگنی چار رنگ کا فیتہ (ربن) ہونٹ لالی اور آلتہ رنگ برنگی ٹکلی، کنگھی ، آئینہ اور نیل پالش ، چناگڑ اور لاوا کی تین پوٹلیاں الگ ! اپنی پندرہ سال کی زندگی میں رام کلیا نے یہ گہنا، کرنا پہنا نہ لوں گا پہنا اور نہ ہی تیل پھلیل لگایا، تیج تیوہار کے د ن کبھی کبھار مائی اس کے سر پر کڑوا تیل رکھ دیتی تھی۔ لیکن صابن تو آج تک نہیں لگایا تھا۔ کپا وہ دھوبیا گھاٹ کے پیچھے والی ریت سے ہی صاف کرتی تھی، کل پہلی بار رام کلیا چھا پا والا لونگا پہنے گی دو دو رنگ کا فیتہ (ربن) باندھے گی، چمیلی کا مہکوا تیل لگائے گی۔ اتنی ڈھیر ساری چیزیں پہلی بار اس کے لئے لائی گئی ہیں۔ بچپن میں ایک بار رام کلیا ماں کے ساتھ حویلی  میں وہاب بابو کی پوتی کی شادی میں گئی تھی اور دلہن کے ہاتھ گاڑھے لال رنگ کی مہندی دیکھ کر رام کلیا نے گھر لوٹتے ہی ماں سے مہندی لگانے کی ضد کی تھی۔ ماں نے تھوڑی دیر تک اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس مہندی کا پیڑ نہیں ہے ۔ اس زمانے میں مہندی بازار میں نہیں ملتی تھی۔ لیکن رام کلیا اپنی ضد کرتی رہی۔ ماں نے غصے میں چار تھپڑ اس کے گال پر جڑ دی۔ تھوڑی دیر تک وہ روتی رہی پھر ماں نے ہی اسے پھسلایا۔ جب تیری شادی ہوگی تو سسرال جائے گی نہ تب تجھے بھی وہاب بابو کی حویلی سے  مہندی لادوں گی اور لگادوں گی تب رام کلیاں چپ ہوگئی تھی۔ کل رام کلیا کو مہندی لگے اس تصور سے ہی رام کلیا پھولے نہیں سما رہی ہے۔ رام کلیا کی رخصتی کی تیاری ہورہی ہے۔ ماں نے گلے سے لگاکر آنچل میں دس روپیہ کا نوٹ باندھا بھروسہ دیا کہ جلدی ہی وہ اسے واپس بلائے گی۔ ماں بہن،کاکی، پھوا سب زور زور سے رو رہی ہیں۔ رکشا کے اندر بیٹھی رام کلیا بھی رو رہی ہے۔ دھیرے دھیرے رکشا گائوں سے باہر آگیا۔ ماں چھوٹی، باپ چھوٹا، گھر چھوٹا، گائوں گورو (گائے بیل) چھوٹے، بجھروچھوٹا، گیہوں ، سرسوں کے کھیت چھوٹے ۔۔۔۔۔سب کچھ ۔۔۔۔۔۔آنکھ سے دور ہوگئے، بہت دور!!! رکشا سیما (سرحد) پار کرکے نالے کے قریب پہنچا۔ رام کلیا کا رونا ابھی بھی بند نہیں ہوا ہے، رکشا والے  نے تاڑی پی رکھی تھی۔ مستی میں رکشا چلاتا فلمی گانا گاتا جارہا تھا، رکشا والے  کے گاتے گاتے سڑک ختم ہوئی اور رام کلیا کے سسرال کے دروازہ کے سامنے رکشا رکا۔ تو سونپ میں ایک لوٹا پانی لے کر پرچھن ہوئی اور لڑکے کی ماں بہن ، بھابھی نے رام کلیا کو رکشا سے باہر نکالا۔ گھر اور گائوں کی عورتوں نے اسے آنگن میں رکھا اور رسم بیت باتھ کی!! گھر کے سارے لوگ سو چکے ہیں۔ صرف رام کلیا جاگ رہی ہے۔ شوہر کے انتظار میں دور کھیتوں کی جانب سے سیاروں کی ہواہوا کی آواز آرہی ہے۔ دہلیز پرکتا اپنے کان ٹھپٹھپا رہا ہے۔ رام کلیاکا پیٹ خالی ہے چلتے وقت ماں نے کہا تھا کہ وہ ماں باپ کا گھر نہیں سسرال ہے ذرا لحاظ سے رہنا جو ملے کھانا، پہننا، کھاتے وقت شرما گئی۔ نندو بھائو نے کچھ کہہ دیا تھا وہ دو سوہاری اور تھوڑی سی کھیر کھاکر اٹھ گئی تھی۔پیٹی (بکس) کھول کر رام لیا نے تھوڑا سا چنا گڑ کھایا اور لوٹا پانی پیااور واپس چار پائی پر بیٹھ گئی۔ رام کلیا اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہے۔ انتظار کرتے کرتے۔۔۔۔آدھی رات بیت گئی۔ سوچتی رہی کہ مہندی نہیں لگی تھی سو نہیں لگی بار بار وہ اپنی سونی ہتھیلی کی جانب دیکھتی ہے دیکھتی ہے اور سوچتی ہے، سوچتی ہے اور دیکھتی ہے شاید وہاب بابو کی حویلی کامہندی کا پیڑ سوکھ گیا ہے، کیونکہ اب وہ حویلی نہیں رہی کھنڈر جیساہوگیا ہے۔ اب اس میں کوئی نہیں رہتا۔ سب چھوڑ کر باہر چلے گئے، اس لئے میرے ہاتھ میں ماں نے مہندی نہیں لگائی۔ رام کلیا کے شوہر نے شادی کی خوشی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوب تاڑی پی لی تھی۔ ساتھیوں کے رخصت ہونے کے بعد وہ اندر آتے ہی چار پائی پر بیٹھ گیا۔ رام کلیا کھڑی ہوگئی۔ گھر کے پچھوڑے سے املی کے پیڑ پر بیٹھی چڑیا اپنے پروں کو پھڑپھڑائے جارہی تھی، پھڑ پھڑاہٹ کی آواز کے سوا اس وقت ان دونوں کے درمیان خاموشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کچھ وقت۔۔۔۔۔کچھ کال۔۔۔۔۔کچھ لمحہ گزرا، رام کلیا کا شوہر چار پائی پر لیٹ گیا۔ چارپائی کے سرہانے دیا کی مدھم روشنی ہے۔ رام کلیا شوہر کا پیر دبانے لگتی ہے اور دباتے دباتے پوچھ بیٹھی ہے ’’آپ کے یہاں مہندی لگانے کا رواج نہیں ہے کیا؟ آپ کے گائوں میں مہندی کا پیڑ نہیں ہے‘‘؟ رام کلیا یہ سوال ایک سانس میں کر گئی مگر۔۔۔۔۔مگر دوسرے ہی لمحہ رام کلیا کا ہاتھ اپنے بائیں گل پر چلا گیا جہاں ماں نے بچپن میں تھپڑ مارا تھا۔ دیا کا تیل ختم ہوچکا تھا لو تھوڑی تیز ہوئی پھر کانپ کر بجھ گئی۔ جھونپڑی کے اندر اندھیرا چھا گیا، ایسا کالا اندھیرا رام کلیا نے پہلی بار دیکھا تھا۔ اندھیرا۔۔۔۔۔گھنا، خوفناک!! دہلیز پر کتا سوگیا ہے املی کے پیڑ پر بیٹھی چڑیا اب بھی اپنے پنکھ پھڑ پھڑا ئے جارہی ہے۔ رام کلیا کے ہاتھ اب بھی اس کے بائیں گال سے الگ نہیں ہوا ہے۔ ٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا