ادب، ادیب اور عالمی امن

0
0

تجزیہ نگار: خان محمد رضوان

(شعبۂ اردو ۔دہلی یونیورسٹی)

[email protected]

 

’’ادب، ادیب اور عالمی امن‘‘ گورنمنٹ ڈگری کالج ڈوڈہ جموں و کشمیرکی جانب سے منعقدہ دوروزہ قومی سمینار دسمبر 2017میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ جسے شعبہ کے دوفعال اور متحرک اساتذہ ڈاکٹر اختر حسین اور ڈاکٹر امتیاز احمد نے مرتب دیا ہے۔ اس میں کل بائیس مضامین شامل ہیں۔ افتتاحی کلمات ’’ڈاکٹر اختر حسین نے لکھے ہیں، خاص بات ،کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر شفقت حسین رفیقی نے ( پرنسپل ڈگری کالج ڈوڈہ) اورـ’ تاثرات‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد ریاض احمد نے اپنے خیالات کاخوبصورت اظہار کیا ہے۔ اس میں اردو ادب ، اردوشاعری ، سفرناموں اور جاہلی ادب میں امن کے عناوین سے چودہ مضامین ہیں۔ چند عنوانات ’’قرآن اور امن عالم کے عناصر ترکیبی، عالمی امن میں ہندی زبان و ادب کا کردار، عالمی امن میں حضرت عمرؓ کے خطبات اور خطوط کا کردار، خاص ہیں۔ کچھ مضامین اس طرح ہیں’ فارسی شاعری میں اخلاق …، وہ شیخ سعدی کے اخلاقی اقوال…، اور ایک سعدی شیرازی کی شاعری…، وغیرہ۔ اس طور پر ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کتاب متنوع مضامین کے اعتبار سے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔
’ادب، ادیب اور عالمی امن‘ یہ مجموعہ مقالات نہ صرف منفرد اہمیت کا حامل ہے بلکہ آج کے دور میں عالمی پیمانے پر قیام امن کے لیے نیک قدم ہے۔ اس مجموعہ کے تین حصے کیے جاسکتے ہیں۔ اول ادیب پھر ادب اس کے بعد عالمی امن، ادب کا تعلق ادیب سے ہے اور ادیب کا مشن ادب تخلیق کرنا ہوتا ہے اور ادب کا مقصد امن ، رواداری اور سماج میں پھیلی نابرابری کو دور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کو سماج کا آئینہ کہاگیا ہے کہ اگر ہم ادب کا بغور مطالعہ کریں اور سنجیدگی سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا ۔ معرض وجود میں آئی مختلف ادبی تحریکوں نے ادب کے فروغ کے لیے کام کرنے کے ساتھ ادب کو عالمی امن کا نقیب بھی بنایا بالخصوص ترقی پسند تحریک نے تو علی الاعلان اپنے منشور کے ذریعہ ادب کو انسانی ضرورتوں کے لیے تخلیق کیا۔ انھوں نے انصاف کی بات کی۔ ترقی کی بات کی،روزگار کی بات کی، مساوات کی بات کی اور انسان کو انسان کے ظلم سے نجات دلانے کی بات کی۔ انھوں نے ہر ظلم و جبر اور بربریت کے خلاف آواز بلند کی۔ بے روزگاری اور بھوک کو ملک کا کوڑھ تصور کرتے ہوئے اسے دور کرنے کے لیے ادب تخلیق کیا اور کامیاب بھی رہے۔ مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم امن کی خواہش تورکھتے ہیں کوشش نہیں کرتے۔ہم انصاف کی باتیں خوب کرتے ہیں مگر انصاف دلانے کے لیے دو قدم آگے چلتے نہیں۔ دورحاضر میں ہمارا سارا کام آفیشیل اور کاغذی ہے۔ مگر ان لوگوں کا سارا کام عملی اور زمینی ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ ہر محاذ پر کام یاب تھے۔
اگرہم امن کی بات کریں تو امن ہر زمانے اور ہر دور کے انسانوں کی ضرورت رہی ہے۔ یہ صرف آج کے دور کے انسانوں کی ہی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر محمدریاض احمد نے ’تاثرات ‘میں بہت سچی بات کہی ہے کہ زبان کو ’’جذبات کی سانس ‘‘ کہا گیا ہے کاش ہم اپنی زبان کو یعنی ادب کو خود سے مہمیز کرپاتے۔ انھوں نے اپنے تاثرات میں بڑی بے باکی سے اس بات کو کہا ہے کہ مادیت اور خود غرضی بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنارہی ہے، او ریہ بھی سچ ہے کہ جب خلوص، ہمدردی اور جذبہ اخوت کی جگہ خود غرضی اور مادیت لے لے گی تو پھر انسان اپنے ضمیر اور معیار انسانیت کو کھودیتا ہے۔ پروفیسر شہاب عنایت ملک اپنے مضمون ’’عالمی امن کے لیے ادب کی ضرورت اور اہمیت ، میں مدلل اور مفصل گفتگو کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جہاں امن کا قیام سیاست، تبلیغ ، مذہب ودھرم ، تاریخ ، سائنس اور تلخ آئینی بندشیں نہیں کرسکتی وہیں امن و سلامتی، دردومحبت اور ہمدردی کا احساس انسانی زندگی میں ادب ہی کے ذریعہ سرانجام پاسکتا ہے۔
ڈاکٹر عنایت اللہ وانی ندوی نے اپنے مقالہ ’’قرآن اور امن عالم کے عناصر ترکیبی‘‘ میں اس بات کو بے حد خوبصورتی اور شرح صدر کے ساتھ باور کرایا ہے کہ قرآن نہ صرف امن عالم کے اصول و ضوابط متعین کرنے والا ہے بلکہ قیام امن کا صحیح راستہ بتانے والا ہے۔ اور یہ بھی کہ قرآن کی آفاقی تعلیمات پر عمل کرکے ہی امن عالم کاقیام ممکن ہوسکتا ہے۔
یاسر عرفات بیگ ندوی کا مختصر مقالہ بعنوان’ عالمی امن میں حضرت عمرؓ کے خطبات اور خطوط کا کردار‘ہے۔ گوکہ یہ مقالہ مختصر ہے مگر جامع اس معنی میں ہے کہ انھوں نے قرآن وحدیث کو امن عالم کا ماخذ تصور کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ قرآن کے بعد دلیل کے طور پر انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ کے اعلان کا حوالہ دیا جو مکہ کے مجرموں کے لیے امن آشتی کا بے حد اہم مژدہ تھا۔ پھرانھوں نے حضرت عمرؓ کے خطبات اور خطوط کے اہم سرمایہ کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، ایک اچھی کوشش ہے۔
الطاف احمد کا مقالہ ’’اردو سفرناموں میں عالمی امن اورانسان دوستی کا پیغام آزادی کے بعد‘‘کے عنوان سے ہے۔ اس میں انھوں نے عالمی امن کی تعریف کوایک کیفیت سے تعبیر کیا ہے۔اور مختلف سفرناموں کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سفرناموں میں امن ویکجہتی کا پیغام کس طرح موجود ہے۔اس میں انھوں نے کشمیر لال ذاکر، ابن انشاء، مجتبیٰ حسین، جمیل زبیری، ڈاکٹر تنویر احمد علوی، ڈاکٹر کیول دھیر، رفعت سروش، عبدالماجد دریابادی، صالحہ عابد حسین اور سید احتشام حسین وغیرہ کے سفرناموں کے حوالے سے بڑی خوبصورتی سے امن وآشتی کے متنوع پہلو کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔اس طور پر یہ ایک اچھا مقالہ ہے۔
پرشوتم سنگھ کا مقالہ ’’عالمی امن میں اردو زبان وادب کا کردار‘‘ کے موضوع پر ہے جب کہ یہ مختصر مضمون ہے اسے مقالہ نہیں کہا جاسکتا۔اس مضمون میں انھوں نے عالمی امن میں اردو زبان وادب کے کردار سے بحث کرنے کا اعادہ کیا گیاہے ، مگر انھوں نے صرف چند شعرا کے حوالے سے گفتگو کی ہے جب کہ یہ موضوع پورے اردو ادب کا احاطہ کرتا ہے۔ شعرا کے حوالے سے اچھی باتیں آئی ہیں مگر اردو زبان وادب سے نہیں، انہیں اپنے مقالے کا موضوع ’عالمی امن میں اردو شعرا کا کردار رکھنا چاہیے۔باوجود اس کے انہیں ہر عہد کے شعرا کے اشعار کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہیے تھا تب جاکراردو شعرو ادب کا احاطہ ہوتا۔ بہر طور موضوع اچھا ہے اور خیالات بھی اچھے ہیں۔
محمد رفیع کا مقالہ ’’اردو شاعری میں امن کا پیغام انسانیت کے نام‘‘ہے جب کہ یہ مقالہ بھی مضمون کی صورت ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے چند شعرا کے اشعار بطور نمونہ پیش کیے ہیں جب کہ انہیں انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اہم شعراء کے ساتھ اٹھارہویں صدی کے نمائندوں شعرا کے اشعار کو بھی بطور حوالہ پیش کرناچاہیے تھا، تب جاکر مضمون کا حق ادا ہوتا تھا غالباً انھوں نے سہل پسندی کی بنا پر چند دستیاب شدہ شعرا کے اشعار کو حوالہ بنا کر مضمون مکمل کیا ہے۔ مضمون اچھا ہے مگر موضوع کے حساب سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ مشتاق احمد کے مقالے کا موضوع ’’اردو زبان وادب میں امن کا پیغام‘‘ ہے، اس مضمون میں انھوں نے پہلے ہندوستانی تہذیب کی تعریف بیان کی ہے۔ پھر 1947 کے واقعہ کا مختصر محاکمہ کیا ہے۔ اس کے بعد اردو کے اہم شعرا، ادیب اور تحریکوں کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر اس موضوع کے تحت ادبا و شعرا کے کارنامے اورجنگ آزادی کے لیے کام کررہی اردو تحریکوں اور ان کے کارناموں کا ذکر کیوں کر ہورہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اردو زبان و ادب میں امن کا جو پیغام ہے شعروادب کے حوالے سے پیش کیا جاتا۔ یا پھر موضوع کی نوعیت الگ ہونی چاہیے تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اسکالر نے موضوع کو پوری طرح سمجھانہیں ہے۔ بہر کیف اچھی کوشش ۔
ان مضامین کے علاوہ باقی مضامین جن پر میں نے کچھ لکھنے سے قصداً احتراز کیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ان تمام کے موضوعات اور مرکز خیال میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، یکسانیت اور موضوعاتی مماثلت کی وجہ سے میں نے قلم نہیں اٹھایا۔ مقالات کے اس مجموعہ کاموضوع ہر عہد کے لیے زندہ ہے۔ اس لیے اس تنوع کا احاطہ کرنا بے حد مشکل امر ہے۔ اس میں شامل باقی مضامین بھی عمدہ اور قابل مطالعہ ہیں۔ اسکالر کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے کہ سامنے کی باتوں کا اعادہ کرنے سے گریز کریں ۔ پھر روایتی انداز کی تحریر سے بھی بچنا چاہیے اور اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ انداز فکر روایتی نہ ہو۔ آپ کی سوچ اوروں سے قدر مختلف ہو، اور جب ایسا ہوگا تو تحریر میں نیا پن آپ ہی پیدا ہوجائے گا اورپھر نئی تحقیق سامنے آئے گی۔ کیوں کہ زیادہ تر اسکالر س نے روایتی انداز کی تحریروں ہی اکتفا کیا ہے۔ میں اس اہم اور گراں قدر کام کے لیے ڈاکٹر اختر حسین صاحب اور ڈاکٹر امتیاز صاحب کو دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور توقع کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اپنے اندر کے انسان کو زندہ رکھتے ہوئے اسی طرح کے اہم سمیناروں اور ورکشاپ منعقد کرتے رہیں گے تاکہ اسکالرس کو موقع ملتا رہے ۔ اور ان کے اندر کی خفتہ صلاحیتوں کو اسی بہانے پروان چڑھایا جاتارہے ۔ یقینا یہ کام نسل نو کی تربیت کاسامان ہے۔ اس طرح کے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ طلبا کو شریک بھی کرنا چاہیے۔ وما توفیق الا ماسعا۔
٭٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا