اور جب ضمیر مردہ ہوا

0
0

اشہر اشرف
دُنگدرہ،کریری،بارہمولہ
990645560

جنوری کا مہینہ اہل ِوادی کے لئے ہمیشہ سے ہی بہت سخت اور اصاب شکن رہا ہے،لیکن امسال جنوری گویا کوئی نیا طوفان لیکر ہی آیا ہے۔مجھے بھی یاد نہیں ہے کہ آیا اس سے پہلے بھی کبھی ایسی ٹھنڈ اور سردی رہی ہے یا نہیں۔اس سال تو نومبر میں ہی سردیوں نے(وندھ)نے پہلی برف باری کے ساتھ ہی اپنے تیور دیکھانے شروع کیے۔آج چلئی کلان(سخت ترین ٹھنڈ کا موسم)اپنے جوبھن پر نظر آرہا ہے۔پوری وادی کو برف کی سفید چادر نے اپنی  آغوش میں لیا ہوا ہے۔برف ابھی بھی بدستور پڑ رہی ہے۔اس کے ساتھ چاروں اور تیز ہوائیں بھی چل رہی ہیں۔جس سے برف کی رُویاں اِدھر اُدھر گر رہی ہیں۔اس طرح یہاں موسم نے ایک طوفانی صورتِ حال کا رُخ اختیار کیا ہے۔ایسے میں پانچ گز کی دوری سے کسی کو دیکھنا ناممکن ہو رہا ہے۔ایسی صورت حال میں لوگ اپنے ہی گھروں میں مقید ہوئے ہیں۔ٹھنڈ اتنی زورں کی ہے کہ لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا دشوار ہوا ہے۔کسی کی اتنی بھی ہمت نہیں ہوری ہے کہ ایک لمہے کے لئے بھی ہاتھ چادر یا پھرن ((Apprenسے باہر نکالے۔لوگوں نے اپنے گھروں کے در وروزانوں کو شاپر یعنی موم جام سے بند کیا ہوا ہے اور اندر چادریں اور رضیایاں اُوڑھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ اس طوفان میں بھی کسی بندہ غریب کو ایسے امتحان سے گزرنا ہوگا کہ کوئی تصور کر کے ہی کانپ اُٹھتا ہے اور سن کر انسان کے رونگتے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ہے رستم۔ گھر والے اسے پیار سے اپنے انداز میں رستمے کہتے ہیں۔ اب ان کوسارا گاوں پیار سے رستمے ہی پکارتا ہے۔یہ جنگلوں سے گرے ہوئے ایک پسماندہ چھوٹے سے گاوں ــ’’ پتھنار‘‘ میں اپنے تین بھائیوں اور دو بہنوں کے ساتھ رہتا ہے۔رستمے کے سبھی بہن بھائی اس سے چھوٹے ہیں اور گویا کہ رستم پر ایک طرح کا بوجھ ہیں،لیکن رستم انہیں بوجھ نہیں اپنی دنیا سمجھتا ہے۔رستم ، اب ہم بھی اس کو رستمے ہی بولتے ہیں۔رستمے کی بستی میں سارے لوگ گجر ہی ہیں۔رستمے ایک دراز قدگھٹیلے جسم کا نوجوان ہے۔اس کا چہرا سرخی مائل اور آنکھیں سیا ہیں۔اس کے گول چہرے پر کالی اور سفید داڑی ایک ساتھ اُگی ہوئی ہے۔مونچے اتنی لمبی کہ اس کے دونوں ہونٹ نظر ہی نہیں آرہے ہیں۔رستمے کے بال بھی تین چوتھائی اب سفید ہوچکے ہیں۔رستمے کا چہرا بتارہا ہے کہ وہ ابھی جوان ہے۔ بس یہی کوئی پچیس تیس سال کا نوجوان لیکن غریبی اور مفلسی کے ہاتھوں مجبور و بے بس رستمے چالیس سال سے کم معلوم نہیں ہوتا ہے۔ مجھے بھی شروع میں یہی گمان ہوا لیکن رستم سے بات کر کے پتا چلا یہ میرصرف ایک اندازہ ہے اور انسان کی فطری کمزوری کے سوا کچھ نہیں۔رستمے نے بھی سردی سے بچنے کے لئے ایک موٹی سی لیکن میلی ٹوپی سر پر لگا کر رکھی ہے جو کہ اس کے کانوں کو بھی چھپا یے ہوئے ہے۔ رستم کے بابا  ،راج خان، جو کہ پچھلے پانچ سالوں سے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے ۔ اب صرف ایک ہی جگہ پر اس انتظار میں ہے کہ کب وہ وقت آئے کہ اپنے پوتے پوتیوں سے کھیلے۔ اسی لئے تو اس نے رستمے کی شادی بھی چھوٹی عمر میں ہی کی تھی لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اپنی قسمت کس نے لکھی ہے۔رستم کے بابا تب سے اپاہج ہے جب وہ شہر میں کسی کے ہاں نوکر رہے تھے تو وہاں اس نے رستمے کے بابا ،راج خان، کو اخروٹ کے درخت پر چڑایا تھا لیکن اس کی قسمت پھوٹی تھی تو وہاں سے گر گئے اور عمر بھر کے لئے ناخیز ہوئے۔پھر شہرکے اس بڑے آدمی نے بنا علاج کئے گھر چلتا کیا۔رستمے کے بہن بھائی ابھی دنیاداری سے بے خبر ہیں ۔ گھر کا جو بھی بوجھ ہے وہ اکیلے بچارے رستمے پر ہے۔غریبی و تنگدستی کے ساتھ حالات کے بے رحم تھپیڑوں نے رستمے کو جوانی میں ہی بوڑھا بنادیا ہے۔رستمے پر یہی پر مصیبتوں اور غموں کا سلسلہ نہیں رکا۔ رستمے ابھی بابا کے اپاہج ہونے کے غم سے نہیں نکلا تھا کہ اس کی اَمّا  ’ ستارہ خاتون‘ جنگل سے لکڑیا جمع کرتے ہوئے ایک پہاڑی سے لُڑک گئی اور وہیں پر فوت ہوئی۔اس حادثے نے گویا رستمے کی کمر توڑ دی تھی۔اب اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ رستمے باہر موسم اور حالات کا جائزہ لیتے ہوئے بہت پریشان نظر آرہا ہے۔وہ بار بار کبھی بیٹھ جاتا ہے تو کبھی کھڑے ہوکر روشن دان سے باہر جانک رہا ہے۔رستمے کی اس بے چینی کی وجہ باہر ہورہی طوفانی برف باری اور قیامت خیز منظر ہے۔رستمے کی پریشانی میں ’نورہ ‘کی حالت اوراظافہ کررہی ہے۔جہاں پوری وادی کو اس جان لیوا ٹھنڈ نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہیں اس تازہ طوفانی برف باری کی وجہ سے کچی اور پکی سڑکے مسدود ہوچکی ہیں۔رستمے جو ابھی ’نورہ‘ کی حالت کو لیکر فکرمندتھا اور دل ہی دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ اگر ان حالات میں نورہ کو کچھ ہوا یا اس کی صحت بگڑ گئی تو میں اسے کہا لے جاوں گا۔رستمے کا سوچنے کاانداز کچھ اس طرح سے تھا:ـ’’ باہر غضب کی برف باری ہورہی ہے اور ساتھ میں بارش بھی تھمنے کا نام نہیں لی رہی ہے۔اب تو سارے راستے بھی بند ہوچکے ہیں۔کرو تو میں کروں ان حالات میں۔ میری تو قسمت پھوٹی ہے۔ابھی بچا ہی تھا تو بابا نے نورہ کو میرے پلے باندھد دیاہے اور خود بستر مرگ پر میری چھاتی کھا رہا ہے۔رستمے ابھی یہی بڑبڑا رہا تھا تو اندر سے نورہ کے کراہنے کی آوازیں آنے لگی۔رستمے تیزے سے دوڑتا ہوا اند گیا تو نورہ فرش پر اُوندھے منہ پڑی ہوئی تھی اور شدتِ تکلیف سے رورہی تھی۔رستمے یہ سب دیکھ کر اپنا سر پیٹنے لگا اور ہ حواس باختہ ہوکر کبھی ایک کمرے جارہا ہے اور کبھی دوسرے کمرے میں تو کبھی نورہ کے پاس آکر اسے دلاسا دے رہا ہے۔ ’’ نورہ تم گبھراو مت ۔میں تم کو کچھ نہیں ہونے دوںگا۔میں کچھ نا کچھ انتظام کروںگا۔دیکھ میری طرف نورہ ۔ تم زرا ہمت سے کام لو۔ مجھ سے تمہاری یہ حالت دیکھی نہیں جاتی ہے۔۔۔۔‘‘ نورہ جو درد ِزچگی میں پسی جارہی تھی بچاری بے سُد پڑی رستمے کے یہ درد بھرے الفاظ سن تو رہی تھی لیکن کوئی بھی جواب دینے سے معذور تھی۔رستمے بے بس و لاچار ہوا۔ بچارہ کیوں نہ ہوتا ۔ ایسے حالات سے کوئی اور بھی دوچار ہو تو ہمت کا جواب دینا ہی مقدر ہے یہ تو آخر رستمے ہے جو پہلے سے ہی مشکلات و مصائب میں گرا ہوا ہے۔نورہ کا ایسے میں بیمار ہونا اُوپر سے گھر میں کوئی پیسہ بھی نہیں ہے کسی آفت سے کم نہیں تھا۔نورہ کی یہ حالت دیکھ کر رستمے کی معصوم بہنیں زور سے رونے لگے جس سے ان کے پڑوسی کمال خان کی بیوی ختجہ بی بی باہر نکلی اور آواز لگائی۔ رستمے کیا ہوا ہے اور یہ نکیاں کیوں رورہی ہیں؟ رستمے نے یاس اور امید کے لہجے میں جواب دیا۔ چاچی وہ نورہ کی حالت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔اسے بہت درد ہورا ہے۔وہ اندر فرش پر پڑی ہوئی ہے۔ اس پر ختجہ بی بی تیزی سے اندر آئی اور نورہ کا جائزہ لتے ہوئے ایک ماہر کی طرح رستمے کو کہا۔ نورہ ماں بنے والی ہے لیکن اس کا بچہ یہاں اس سنسان میں نہیں ہوسکتا ہے۔ یہاں دونوں ماں اور بچے کو جان کا خطرہ لاحق ہوگا۔یہ کہہ کر ختجہ بی بی نے رستمے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ اس کو شہر کے بڑے اسپتال لے کر جا ابھی بھی وقت ہے۔رستمے نے حیرانے کے عالم میں جواب دیا۔، چاچی اس وقت میں کہاں جاوں گا؟ باہر سارے راستے بند پڑے ہیں تو ایسے میں نورہ کو کیسے شہر لے جاسکتا ہوں؟  ختجہ بی بی نے قدرے گرم لہجے میں رستمے کو ڈانتے ہوئے کہا۔ دیکھ بچے تیری ماں نہیں ہے۔ بچاری جنتی عورت تھی ستارہ خاتون وہ اگر زندہ ہوتی تو ایک بات تھی۔ بچاری مصیبت میں تو ہر ایک کے کام آتی تھی۔ اس کے لئے کوئی اپنا اور پرایا نہیں تھا۔میں اسے یہاں کچھ نہیں کر سکتی ہوں۔ بہتر یہی ہوگا تم اس کو شہر لے جاو نہیں تو بچاری یہیں تڑپتے ہوئے مر جائیگی۔ اب جائو  اندر چار پائی ہے اسے چارپائی پربٹھاکر آرام سے اسپتال لیکر جائواللہ آپ کی مدد کریگا۔ اتنے میں آس پاس کے گھروں سے دو تین آدمی اور آئے اور نورہ کو دوچار گرم کپڑوں میں لپیٹ کر اسپتال لیکر گئے۔ ٹھیک رات ۷ سات بجے رستمے اور اس کے ساتھی نورہ کو پیدل چارپائی پر بٹھا کر شہر کے بڑے اسپتا لائے۔ یہاں پہنچ کر پتا چلا کہ رات کو دو ہی ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہیں اور ان میں سے بھی ایک ابھی طفلِ مکتب ہی ہے۔ گویا کہ دونوں مرد حضرات ہیں جو کہ ہمارے ہر چوٹے بڑے اسپتال کا دستور ہے یا ریوایت سمجھے۔ رستمے نورہ کو کاری ڈور میں ایک طرف بٹھا کر جلدی سے  Receptionٹکٹ گھر کی طرف ڈوڑتا ہوا گیا اور جیب سے دس روپیہ نکال کر آگے بڑادیا۔  رستمے:’’ صاحب جی میری بیوی بہت بیمار ہے آپ جلدی سے ایک کاڑ نورہ کے نام سے دیجئے‘‘ وہاں موجود ملازم نے رستم کو دھتکارتے ہوئے کرخت لہجے میں ہاتھ اور سر باہر نکالنے کے لئے کہا اور ساتھ میں دو چار نازیبا الفاظ بھی بول دئے۔ ملازم: اوے خان ، گجر کہیے کے۔ دور رکھو اپنا یہ گندا ہاتھ اور دور سے بولو کیا بولنا ہے۔ بدبو آرہی ہے تیرے منہ سے ۔ ابھی مجھے زُکام ہوگا۔  رستمے یہ سب کچھ چپ کر کے سن کر زرا پیچھے ہٹا اور پھر سے فریاد کی۔ صاحب ہم بہت دور سے بڑی مشکل سے مریض کو یہاں چارپائی پر بٹھا کر لائے ہیں۔ اگر اسکا جلدی سے علاج نہیں ہوا تو مر جائے گی بچاری ۔ آپ کاڑ لکھو نا اب۔ملازم پر رستمے کی بات کا زرا بھی اثر نہیں ہوا ۔ اس نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں اور اپنے موبائل فون کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہوا۔ اتنے میں تکریباََ بیس منٹ ہوچکے ہیں تو رستمے نے پھر سے بولا۔ صاحب ہم بڑے دور سے آئے ہیں اب تو کاڑ دونا۔اس بار ملازم نے قلم اُٹھایا اور سست رفتاری سے رستمے سے مخاطب ہوا۔ او خانا بولو نام Patient کا ۔  رستمے کی آنکھوں چمک سی آئی اور تیزے سے بولا: نورہ بی بی۔ ملازم نے کاڑ تو لکھا ہے لیکن رستمے سے کہا تم یہی انتظار کرو میں پہلے ڈاکٹر کے پاس جاکر اس سے اجازت لیتا ہوں  اور یہ بھی پتا کرتا ہوں ڈاکٹر صاحب سوئے تو نہیں ہیں یا کہیں باہر کانٹین میں تو نہیں ہے۔اس پر رستمے نے احتجای انداز میں چلایا اور کہا: تم لوگ کیا انسان نہیں ہو یہاں۔ یا تمہارے اندر کا انسان مرگیا ہے ؟ میں کب سے آپ سے صاحب صاحب کہہ رہاہوں مریض مر جائے گا اگر اس جلدی سے ڈاکٹر کو نہیں دیکھایا۔۔۔ اس پر ملازم نے جواب میں کہا: ہم لوگ تمہارے نوکر نہیں ہیں ۔یہاں روز مریض آتے ہیں ان میں سے کچھ مر بھی جاتے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ہم کیا کسی کے مرنے کے زمہ دار ٹھوڑی ہیں۔ اگر فرست نہیں ہے تو کہیں اور لے کر جائو اپنی بیوی کو۔۔۔اور یہ سب کہہ کر اوپر ڈاکٹر کے پاس چلاگیا۔ جماد کیا بات ہے  اورنیچے شور کیسا تھا؟ ڈاکٹر نے جماد کو دیکھ کر کہا۔جماد وہی آدمی جو Reception میں موجود تھا۔وہ سر کوئی خان آیا ہے ایک جنگلی علاقے  ’’ پتھنار‘ ‘ سے۔ اچھا کچھ مال شال خرچ کرنے والے ہیں یا فقیر ہی؟ ڈاکٹر نے جماد کو مخاطب ہو کر بولا۔ نہیں سر وہ تو گجر ہے۔ ان کے پاس کیا ہوگا۔ ان سے تو بد بو آرہی ہے۔جماد نے جواب میں کہا۔اس پر ڈاکٹر نے کہا اچھا رہنے دو ان کو وہیں۔ اچھا سر جو حکم۔ جماد نے سر ہلا کر کہا ۔  نیچے رستم اسی جماد کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا اور نورہ بچاری دردِ زچگی میں جان دی رہی تھی اور زور زور سے چلا رہی تھی جس سے رستمے کا ثبر ٹوٹ گیا اور پتا کرتا ہوا ڈاکٹر کے روم میں جا گسا اور اندر جاتے ہیں ڈاکٹر کے پیر پکڑ لئے اور اس کے آگے منت سماجت کرنے لگا۔بہت گڑگڑایا، رویا، التجا کی لیکن ڈاکٹر ٹس سے مس نہیں ہوا۔اتنے میں ڈاکٹر نے خود کو رستمے سے آزا کرتے ہوئے ایک ذُور دار تھپڑ رستمے کے منہ پہ دے مارا اور ساتھ میں انگریزی میں دور چار گالیاں بھی دیںاور کچھ یوں بھی کہا: تم گجر کی اوقات کیا ہے جو تم میرے پرسنل روم میں داخل ہوئے۔ تم نے میرا پانچ ہزار کا سوٹ گندا کیا ہے۔ دفا جائو یہاں سے تمہارے جسم سے گندی باس آرہی ہے۔  جانور کہیں کے۔۔۔۔وغیرہ۔ اب ڈاکٹر  جماد کی طرف متوجہ ہوا اور کہا۔ جماد میں نے کیا کہا تھا آپ سے؟ میں نے کہا تھا نا اگر کوئی مر بھی جائے کسی کو اندر آنے نہیں دینا۔ میں نے بولا تھا نا اگر کوئی پوچھے بھی تو کہنا ڈاکٹر صاحب راونڈ پر ہے یا تھیٹر میں ہے۔  سر یہ لوگ شام ۷ سات بجے یہاں پہنچے تھے ۔ میں ان کو ایک گھنٹے سے ٹال رہاہوںیہ لوگ بہت دور سے آئے ہیں ۔ ان کا Patientبہت ہی نازک حالت میں ہے۔ جماد نے جلاد کی طرح یہ سب سر جکا کر کہا۔ ڈاکٹر جو کہ اب ڈاکٹر کم اور قصائی زیادہ لگ رہاتھا ،غسے میں بولا۔ میں کیا کروں۔ میں کسی کا نوکر نہیں ہوں ۔ کوئی کہاں سے آئے مجھے کیا ہے ان سب باتوں سے۔ میں نو بجے تک کسی کو نہیں دیکھوں گا۔ یہ میرے آرام کا وقت ہے۔  ایک ڈاکٹر کے منہ سے یہ سب سن کر رستمے سکتے میں آگیا اور ڈاکٹر کا گریباں پکڑ کر روتے ہوئے بولا:  تم لوگ اب انسان نہیں رہے ہو۔ تم اب جانورں سے بدتر ہوئے ہو۔  ارے شرم کرو کنجروں، تم لوگوں نے اس مقدس پیشے کو کاروبار بنادیا ہے۔ یہاں تو لوگ امید سے آتے ہیں۔ لوگ تو ڈاکٹر کو خدا کا درجہ دیتے ہیں۔ تم ڈاکٹر نہیں ہو سکتے ہو۔ تم جلاد ہو، تم قصائی ہو، تم نے اس پیشے کو بھی بدنام کیا ہے۔ ارے میں تو اتنی مشکل سے اپنی نورہ کو اتنے دور سے چارپائی پر بٹھا کر لایاتھا کہ تم اس کا علاج کروگے۔ تم میری بیوی اور بچے کو بچاوںگے۔ رستمے کی یہ آہ زاری سن کر ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ڈاکٹر کا سویا ہوا ضمیر جاگ جائے گا۔ اس کے مردہ ضمیر میں جان آجائے گی لیکن آپ کی طرح یہ میرا بھی وہم ہی ثابت ہوا۔ نا ڈاکٹر کا ضمیر ہی جاگا اور نا ہی میری طرح وہاں کسی کو اتنی ہمت ہوئی کہ اس مردہ ضمیر ڈاکٹر کا گریباں پکڑ کر اسے اپنا فرض یاد دلاتا۔ اسے وہ قسم یاد دلاتا جو اس نے ڈاکٹر بنتے وقت اُٹھائی تھی کہ وہ عبادت سمجھ کر لوگوں کی خدمت کریگا اور ہر امیر و غریب کو بس ایک مریض کی نظر سے ہی دیکھے گا۔کسی میں اتنا سا حوصلہ نا ہوا کہ ڈاکٹر سے پوچھتا کہ وہ رستمے سے یہ جانوروں جیسا سلوک کیوں کر رہاہے۔ شاید میری طرح ہر کوئی یہی سوچ رہاتھا کہ میں کیوں اس غریب خان کے لئے اتنے بڑے ڈاکٹر سے دشمنی مول لوں۔ یہ خان کیا دیگا مجھے۔ اسے مجھے کیا فائدہ ملے گا۔یہ غریب آدمی دور جنگل میں رہتا ہے۔ وہاں کیا کرنے جانا ہے مجھے جو یہ کبھی میرے کام آئے گا۔ اس کے برعکس یہ تو ڈاکٹر ہے کبھی نا کھبی یہاں کام آئے گا ہی۔پھر اس غریب خان کے لئے اتنے بڑے ڈاکٹر سے دشمن کیوں اور کس لئے؟۔ اس لئے سب لو گ چُپ ہی رہے۔ہاں سچ میں رستمے کو کون اس شہر میں جانتا تھا جو اس کے حق میں کوئی بات کرتا۔ابھی رستمے ڈاکٹر سے منت سماجت ہی کر رہاتھا کہ ڈاکٹر نے اسپتال میں موجود  اسکورٹی کو بلایا اور کہا:  باہر نکال دو اس گجر کی اولاد کو۔ دور کرو اس گندگی کو میری نظروں سے۔ اس کو اس کے Patientکے سمیت یہاں سے دفا کرو۔میں یہ سب کچھ وہیں ایک طرف کھڑے ہوکر دیکھ رہاتھا۔ میرا ضمیر بار بار مجھے اکسارہاتھا کہ اس گستاخ ڈاکٹر کو گردن سے پکڑ کر زور سے زمین پر دے ماروں اور رستمے کی بے عزتی کا بدلہ لوں۔میرے ضمیر کے بار بار جھنجوڑنے کے باوجود بھی میں خاموش ہی رہا کیوں کہ مجھے کئی بار یہ تجربہ ہوا ہے کہ یہاں کوئی حق کا ساتھ نہیں دیتا ہے بلکہ یہاں سب طاقت اور دولت کو سلام کرتے ہیں نہ کہ شرافت و انسانیت کو۔ ڈاکٹر کا حکم سن کر اسکورٹی گاڑ رستمے کی طرف تیزی سے بڑنے لگے تو اتنے میں نیچے سے کوئی شور سنائی دینے لگا اور ساری بیڑھ اب وہیں جانے لگی اور رستمے بھی اسی بیڑھ کے پیچھے پیچھے سست قدموں سے جانے لگا۔جب لوگ نیچے پہنچے تو پتا چلا کہ یہ شور باہر کاری ڈور سے آرہا ہے تو لوگ وہیں جانے لگے۔جب قریب پہنچے تو وہاں کچھ عورتے نورہ بی بی کے گرد جمع تھی اور اس کی بے کسی اور درد ناک موت پرافصوس کررہی تھیں۔ـ’’ کس طرح سے بچاری یہاں دوگھنٹوں سے تڑپ رہی تھی، بچاری آخری وقت میں اس کے حلق سے صرف رستمے رستمے نکل رہا تھا‘‘ اب ڈاکٹر اور وہی کاونٹر پر بیٹھا شخص جماد بھی وہاں پہنچے اور نورہ بی بی اور اس کے شکم میں مرے پڑے بچے کو دیکھ رہے تھے۔ نورہ اب اس دنیاں نہیں تھی رستمے کو یہ کون سمجھا سکتا تھا اور نا ہی وہاں کسی میں اتنی ہمت تھی کہ رستمے سے یہ سب کہہ سکے۔اتنے میں ڈاکٹر نے نے جماد کو اشارہ کیا جو کہ اب جلاد بن چکا تھا اور ایک طرف لے گیا۔ یہ تو مر چکی ہے۔ اس کے شکم میں بچہ بھی مر گیا ہے۔ اب کیا کریں۔ڈاکڑ نے جماد سے کہا۔جماد نے بڑی مکاری سے مشورہ دیا کہ ہم اسے رستمے کی تسلی کے لئے تھیٹر میں لے کر چلتے ہیں اس طرح ہم اپنی کاروائی بھی کریں گے اور ہم پر کوئی Case بھی نہیں بنے گا۔ ڈاکٹر: Case, my foot.کس کی مجال ہے کہ میرے خلاف آواز بلند کرے۔ اچھا یہ پتا کرو اس علاقے کا انچارج کون ہے۔جماد سے ڈاکٹر نے کہا۔ جماد نے فوراََ کہا S.H.Oجمیل۔ اچھا وہ اپنا جمیل جس کی میں پچھلے سال Fake Medical Certificateبنا کر دی تھی؟ جی سر! پھر تو سمجھو بات ختم۔ پھر بھی تم جمیل سے ساری باتیں کر کے رکھنا اور تمام حالات سے آگاہ کرنا۔ ایسا نا ہو کہ بعد میں پھر کوئی مسئلہ ہو۔ ڈاکٹر جماد کو یہ کہہ کر تھیٹر میں چلا گیا۔ اتنے میں جماد نے رستمے سے کہا: آپ گبھراو مت خان ، یہ ٹھیک ہے۔ بس درد کی شدت سے بے ہوش ہوئی ہے۔ پھر کچھ دو لوگوں کو بلایا اور انہیں نورہ بی بی کی لاش کو تھیٹر میں لے جانے کے لئے کہا جو کہ اب صرف رستمے کو خوش کرنے کے لئے کیا جا رہا تھا وارنہ سبھی یہ جانتے تھے کہ نورہ اب اس دنیاسے بے خبر ہوچکی ہے۔وہ تو اب اس گندی دنیا سے کوسوں دور چلی گئی ہے۔اب اسے نا ڈاکٹر کی ضرورت ہے نا کسی چارپائی کی اور نا ہی رستمے کو کسی کے پیر پکڑنے کی حاجت ہے۔ڈاکٹر کم و بیش بیس منٹ تک تھیٹر میں اپنے موبائل فون کے ساتھ کھیلتا رہا اور پھر اپنے چہرے پر جھوٹ کی ماسک لگائے سر جکا کر باہر آئے اور بڑا سا منہ کر کے بچارے ناخاندہ رستمے کو مخاطب ہو کر بولے:I am Sorry!میں دونوں میں سے ایک کو بھی نہیں بچا سکا۔ او خان تم نے بہت دیر کردی تھی نورہ کو یہاں لانے میں اور تو اور اس کو تو تم لوگوں نے کہیں چارپائی سے پہلے ہی گرا دیا تھا جس وجہ سے بچہ پہلے ہی مرگیاتھا۔یہ سنا تھا کہ رستمے یک لخت فرش پر گرپڑا اور بے جان سا ہوگیا۔ اتنے میں رستمے نے یک جھرجھری لی اور  ہمیشہ کے لئے آزاد ہوا۔ اب ڈاکٹر جماد کی طرف متوجہ ہوا اور اسے کہا ، اس کی Death certificateبناو اور خان کے Thumb-impression اُس پر لینا۔ ڈاکٹر یہ کہہ کر اند چلاگیا اور S.H.O Jameelکو کال کیا اور کہا: جمیل صاحب ایک پروبلم کا سامنا ہے۔ ہوسکتا ہے بات آگے بڑے گی تو آپ خود ہی سنبھال لینا۔ جمیل: کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب۔ اتنے پریشان کیوں ہوتے ہو؟ کیا کسی مریض کی موت واقع ہوئی ہے؟ ڈاکٹر: ہاں یار، ایک گجر عورت کی موت ہوئی ہے ۔ ہوئی  موت تو ہماری ہی لاپروائی سے ہوئی ہے۔ لیکن، ہم نے کسی حد تک سنبھالا ہے اور باقی کا کام آپ کے ذمے۔ S.H.Oجمیل: کوئی نہیں جناب۔ آپ بے فکر رہے ۔ Case کو ایسے الجھاوں گا کہ سالوں حل نہیں ہوگا۔ بس آپ زرا میرا خیال رکھنا۔ ڈاکٹر: آپ وہ سب مجھ پر چھوڑئے جناب۔اس کے بعد جلاد صفت جماد رستمے کی لاش کی طرف بڑا اور کہنے لگا: او خان، تم لوگوں نے تو بہت دیر کردی تھی اسے یہاں لانے میں ۔اگر یہ ٹھورا سا پہلے یہاں پہنچتی تو ان دونوں کی جان بچائی جاسکتی تھی۔آو یہاں اس کاغذ پر اُنگوٹھہ کرو ۔ جب رستمے نے کوئی جواب نہیں دیا تو قریب آکر دیکھا تو رستمے کب کے ٹھنڈے ہوچکے تھے۔  رستمے کا اپاہج باپ اور اس کے چھوٹے بہن بھائی اس انتظار میں تھے کہ رستمے نورہ اور بچے کو لیکر آئیگا کے لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ اب ان کے گھر اسپتال سے تین لاشے آنے والے ہیں۔اس طرح آج’ پتھنا ر‘ تین جنازیں پہنچنے والے ہیں۔ان کوکیا خبر تھی کہ اب شفا خانے ذبح خانے بن چکے ہیں ۔ ڈاکٹر قصائی بن گئے ہیں اور ان کا یہ عظیم پیشہ اب ان کا اسب سے بڑا تجارت بن گیا ہے۔سچ میں جب آدمی کا ضمیر مردہ ہوتا ہے تو اس کو اپنے مفاد اور فائدے کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ میرے کانوں میں نورہ کے وہ آخری الفاظ ابھی بھی گونج رہے ہیں جو اس نے مرنے سے پہلے رستمے کے لئے کہئے تھے: ـرستمے میں اور برداشت نہیں کر سکتی تھی۔مجھے معاف کرنا میں آپ کے بچے کو اپنی جان دیکر بھی نہیں بچاسکی۔ ہاں مجھے آپ سے شکایت ہے۔ آپ نے مجھے آکری وقت میں اکیلا چھوڑ دیا ہیـ‘‘ اور رستمے کے یہ الفاظ مجھے سونے نہیں دیتے ہیں جو اس نے نورہ کی محبت میں سر شار ہوکر بے کسی و لاچارگی کے حالات میں کہے:  ’’نورہ میری نورہ مجھے معاف کرنا۔ میں آخری وقت میں آپ کے لئے کچھ نہیں کرسکا۔ نورہ جب تجھے میری ضرورت تھی تو میں آپ کو تنہا  چھوڑ گیا ہوں۔نورہ تیرا یہ رستمے شرمندہ ہے، یہ آپ کو نہیں بچاسکا۔ نورہ ، لیکن میں بے وفا نہیں ہوں۔ میں بھی تیرے ساتھ ہی آرہا ہوں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا