اصولوں کو توڑنا عاشق کی پہچان نہیں۔۔۔۔۔۔

0
0

بشری ارم ( جمشید پور )

گذشتہ دنوں ہم نے نیوز چینلز کے کیمرے کا رخ ان عورتوں کی جانب مڑتا دیکھا جو درگاہوں پر جاتی ہیں ، جانا چاہتی ہیں ، یا پھر نہیں جاتی ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کو پھر اس کوشش میں مصروف ہوتا دیکھا کہ جو خواتین درگاہ کی زیارت کیلئے نہیں جاتی ہیں ان میں کس طرح جانے کا شوق پیدا کیا جائے ، اور جو جانا چاہتی ہیں انکے حق کی آواز کو کیسے اور مضبوط کیا جائے ، اور جو درگاہ پر نہ جانے کی روایت کو اپنی روایت سمجھ کر عمل پیرا ہیں تو انکے اس عمل کی وجہ کیا ہے آخر انہوں نے ایک دقیانوسی روایت کو زندہ کیوں رکھا ہوا ہے۔
دراصل درگاہ کی زیارت کا یہ سارا معاملہ جو نیوز چینلز کی سرخیوں میں رہا ، دہلی میں واقع نظام الدین اولیا رحمت اللہ علیہ کی درگاہ کا ہے جہاں انکی قبر کے نزدیک نہ جانے کی خواتین پر پابندی عائد ہے، لیکن اب اس معاملے کیلئے عدالت کا رخ کیا جارہا ہے اور اس بات کی امید کی جارہی ہے کہ اس معاملے میں بھی عدالت کا وہی فیصلہ رہے گا جو ممبئی کے حاجی علی درگاہ میں خواتین کے داخلے پر دیا گیا تھا۔ لیکن تشویش کا پہلو یہ ہے کہ جب مسلم عورتوں سے درگاہ کے اندر نہ جانے کی بندش کے وجوہات جاننے کی کوشش کی گء تو زیادہ تر عورتوں کا کہنا تھا کے عورتیں ناپاک ہوتی ہیں اسلئے اندر کی جانب انکے داخلے پر پابندی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خواتین کی جانب سے یہی نظریہ مسجد اور قبرستان میں داخل نہ ہونے کی اجازت کیلئے بھی پیش کیا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت نے جب انسان کی تخلیق کی تو اسے اپنی تمام مخلوقات میں سب سے اہم اور افضل ترین مخلوق کا درجہ عطا فرمایا، اسے اشرف المخلوقات بنایا۔ اور اس دنیا میں پہچان کی بنیاد پر اسے دو شکل میں تقسیم کر دیا جس میں ایک قسم مرد حضرات کی ہے اور دوسری قسم کو ہم عورت کے نام سے جانتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا پھر اسکے بعد بی بی حوا کو انکی پسلی سے پیدا فرمایا۔ اسلام ہی وہ مزہب ہے جس نے دنیا میں عورتوں کو ایسے حقوق عطا کئے جنہیں دنیا کا کوئی مزہب یا قانون عطا نہیں کر سکتا۔ لیکن اسلام نے عورت کو اسکی تخلیق اور بناوٹ کے اعتبار سے اسکی حفاظت کیلئے اس پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کی وجوہات کی لا علمی کی وجہ سے وہ خواتین جو اعلٰی تعلیم یافتہ نہیں عورت کی نسل کو ہی ناپاک قرار دیتی ہیں ، اور یہ کہتی ہیں کہ مسجد ، درگاہ اور قبرستان پر جانے کی ممانعت انہیں اسی ناپاکی کی وجہ سے ہے۔ اور ایسی مسلم خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں اس بات کا واضح کر دینا ضروری ہے کہ اللہ کی وہ مخلوق جو اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتی ہے ناپاک کیسے ہو سکتی ہے ایک عورت ہمیشہ پاک ہی ہوتی ہے سوائے اس وقت کے جب وہ حالات حیض میں ہو ، یا پھر اس وقت جب اس نے کسی بچے کو جنم دیا ہو اور بچے کو جنم دینے کی صورت میں اسکے ناپاک رہنے کی مدت صرف 40 دن ہے اور اس مدت پر غور کیا جائے تو معلوم ہو کہ یہ مدت اسی کی بہتری کیلئے قائم کی گئی ہے۔ لیکن یہ مدت جسکا ذکر کیا گیا ہے ان میں بھی ایک عورت کو زبانی عبادت سے مثتشنہ نہیں رکھا گیا ۔ اور دوسرے معاملات میں ناپاکی کے جو مسائل پیش کئے گئے ہیں وہ مرد اور عورت دونوں کیلئے ایک ہی ہیں۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب عورت ناپاک نہیں ہے تو پھر مسجد، قبرستان اور درگاہ پر کیوں نہیں جا سکتی؟ حالانکہ خانہ کعبہ جو کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے وہاں عورتوں کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے؟
خانہ کعبہ وہ جگہ ہے جس کی حرمت کی زمے داری اللہ رب العزت نے اپنے زمے لے رکھی ہے اور وہاں پر خواتین کی حفاظت کے سارے انتظامات موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خواتین وہاں بغیر کسی زہنی پر یشانی کے اپنی عبادت کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ جہاں تک مسجدوں میں عورتوں کی عبادت کا سوال ہے تو عورت ہر اس مسجد میں عبادت کر سکتی ہے جہاں اسکی حفاظت کے سارے انتظامات موجود ہیں اور مسجد ایک ایسی جگہ ہے جسے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر ایک حصہ کو عورتوں کی عبادت کیلئے چھوڑ دیا جائے تو دوسری جانب مرد حضرات کے عبادت کر نے کا انتظام ہو۔لیکن قبرستان یا درگاہ وہ جگہ ہے جہاں جانے کیلئے عورت کی نیت کے ساتھ ہی فرشتے لعنت بھیجنے لگتے ہیں ، ہاں عبرت حاصل کرنے کیلئے کبھی کبھی عورتیں قبرستان کا رخ کر سکتی ہیں تاکہ دلوں میں دنیا کی محبت کم ہو اور موت کا خوف پیدا ہو جو زندگی کو اسلام کے بتائے اصولوں پر گزارنے میں مدد گار ثابت ہو۔ قبرستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر ایسے کام انجام دینے ہوتے ہیں جسے مرد با خوبی انجام دے سکتا ہے جب کہ عورت کے کمزور کاندھے اس کام کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے ، مثلا قبر کھودنا ، مردے کو قبر میں اتارنا اس پر مٹی ڈالنا ، قبر کو بند کرنا وغیرہ ، ان کاموں کی وجہ کر قبرستان میں کثیر تعداد میں مرد حضرات موجود ہوتے ہیں اور قبرستان ایسی جگہ ہے جسے منقسم نہیں کیا جاسکتا ہے چونکہ اسلام ایک دوراندیش مزہب ہے اور اس کا ہر قانون انجام کی حقیقت پر مبنی ہے لہٰذا ایسے جگہوں کے تقدس کو برقرار رکھنے کیلئے خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کی گء ہے ، مرد اور عورت کی نزدیکیوں کا انجام کیا ہوتا ہے اس راز کا پردہ فاش کر می ٹو کیمپین نے سارے دیش کو بتا دیا ہے تو کم از کم قبرستان اور درگاہیں تو اس طرح کے حادثات سے پاک رہیں۔
درگاہ میں خواتین کے داخلہ کی ممانعت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ بزرگان دین اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور انکا رزق جاری رہتا ہے تو جن شخصیات نیساری زندگی عورتوں سے دوری اور پردے کے حکم کے فرمان کو اپنائے رکھا اسکا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا اب دنیائے فانی سے پردہ فرمانے کے بعد انکے اصولوں کو کیوں توڑا جائے ، اس کی اہمیت کو کیوں ختم کر دیا جائے، زیرے غور بات تو یہ ہے کہ جب ہم کسی دفتر، کسی مال ، کسی مکان یا کسی شہر ، یا کسی ملک کا رخ کرتے ہیں، وہاں داخل ہوناچاہتے ہیں تو وہاں کے اصول اور ضوابط ہمارے اوپر نافذ ہو جاتے ہیں جنہیں ہم پورا کرنا اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں اور خوش اسلوبی کے ساتھ ان زمے داریوں کو نبھاتے ہیں۔ تو پھر جس آستانے سے عقیدت ہے اسکے اصولوں کو کیوں تار تار کر دیا جائے آخر یہ کیسی محبت ہے اور کیسی عقیدت ہے جسکی چاہ میں آستانے پر حاضری کی نیت کی جا رہی ہے اسی کے اصولوں کو نیست و نابود کرنے کا عزم کیا جارہا ہے ، تاریخ گواہ ہے عاشق یا عقیدت مند اپنی محبت اور عقائد کے اصولوں کو نبھاتا ہے اسے پائوں تلے روندتا نہیں ، اصولوں پر ثابت قدم رہنا اسکے سچے عقیدے اور محبت کا ثبوت اور اسکی قبولیت کی گواہی پیش کرتا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا