داستانوں کی ادبی و ثقافتی اہمیت آج بھی مسلّم ہے: شیخ عقیل احمد

0
0

قومی اردو کونسل نے ’داستانوں کے عروج و زوال کی کہانی،ادبا کی زبانی‘ کے عنوان سے آن لائن مذاکرے کااہتمام کیا
یواین آئی

نئی دہلی؍؍داستانوں کی ادبی و ثقافتی اہمیت مسلم ہونے کی وکالت کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زباں (این سی پی یو ایل) کے ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ اردو نثر کے ساتھ ہی اردو داستان نگاری و داستان گوئی شروع ہوتی ہے،جو بتدریج ترقی حاصل کرتی ہے اور پھر بیسویں صدی کے انقلابات کی زد میں آکر دھندلانے لگتی ہے۔قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ’داستانوں کے عروج و زوال کی کہانی،ادبا کی زبانی‘ کے عنوان سے آن لائن مذاکرے میں مہمانوں کا استقبال کیا اور موضوع کا تعارف کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اردو نثر اور داستان کی ابتدا کا زمانہ تقریباً ایک ہی ہے۔ انھوں نے اہم داستانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان داستانوں نے مجموعی طورپر اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی ان کی ادبی و ثقافتی اہمیت مسلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اردو کونسل قدیم داستانوں کی ازسر نو اشاعت کے منصوبے پر کام کررہی ہے اور جلد ہی الف لیلہ و لیلہ کا نیا کمپوز ایڈیشن کونسل کے زیر اہتمام شائع ہونے والا ہے۔ انھوں نے موجودہ عہد میں داستان گوئی کے فن کو درپیش چیلنجز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کا یہ مذاکرہ اسی لیے منعقد کیا گیا ہے کہ ان چیلنجز پر گفتگو کی جائے۔فن داستان گوئی سے طویل وابستگی رکھنے والے نواب جعفر میر عبداللہ نے اس مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ داستان گوئی ایک دلچسپ موضوع ہے،جس میں ضروری ہے کہ داستان گو کی زبان و بیان سامعین کے لیے دلچسپ ہو۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بچپن میں داستان گو اور قصہ گو حضرات کو دیکھا اور سنا ہے، ہمارے بزرگوں میں اس کی پختہ روایت تھی۔ انھوں نے کہا کہ لکھنؤ میں آج بھی داستان گوئی ہوتی ہے،البتہ ماضی میں داستان گوئی کا مقصد صرف قصہ گوئی اور لطف اندوزی ہوتا تھا،جبکہ اب داستان گو زمانے اور حالات کے مطابق سامعین کو خاص پیغام بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔پروفیسر قمر جہاں نے کہا کہ داستان ہماری اہم ادبی وراثت ہے۔اس میں معیاری زبان کا استعمال بنیادی شرط ہے،مگر نئے زمانے میں ملی جلی تہذیب اور زبانوں کی وجہ سے ہماری زبان پر جو منفی اثر پڑا ہے اس کا اثر داستان گوئی پر بھی پڑا ہے۔ داستانوں کے درس و تدریس کے تعلق سے انھوں نے کہا کہ داستان محض ایک تدریسی سبجیکٹ نہیں ہے،اس میں ایک پوری قوم کی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے جس کو محسوس کرنا اور کماحقہ بیان کرنا چاہیے۔معروف داستان گو دانش حسین نے کہا کہ نئے زمانے کی داستان گوئی پرانے زمانے سے بہت مختلف ہے،اس میں فی البدیہہ والا پہلو پانچ فیصد ہوتا ہے،زیادہ تر حصہ داستان کی کتابوں سے یاد کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ علی گڑھ شعبہء اردو، مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر قمرالہدی فریدی نے داستان کے فنی پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ داستان کا ایک تو تعلق قصہ کہانی سے ہے،دوسرے ہماری جذباتی، سماجی و ادبی ضرورت سے بھی ہے۔دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ابن کنول نے اس پروگرام کی نظامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیے۔ انھوں نے داستان کی تاریخ،اس کی خصوصیات اور امتیازات پر گفتگو بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ داستان گوئی کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے اور دنیا کے ہر ملک میں داستان سننے سنانے کی روایت رہی ہے، داستان وہی شخص بیان کرسکتا ہے جس کی قوت متخیلہ مضبوط ہو،اس کی بنیاد زبان دانی اور طول بیانی پر ہے۔ شیخ عقیل احمد کے اظہارِ تشکر کے ساتھ مذاکرے کا اختتام ہوا۔ اس موقعے پر کونسل سے ڈاکٹر کلیم اللہ (ریسرچ آفیسر) اور محمد انصر وغیرہ شریک رہے۔ افضل حسین خان (ریسرچ اسسٹنٹ) اور نوشاد منظر نے تکنیکی تعاون فراہم کیا۔ کونسل کے فیس بک پیج پر اس پروگرام کو لائیو نشر کیا گیا۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا