پرینکا گاندھی کی نئی سیاست اور یوپی الیکشن

0
0

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
بھارتیہ سماج میں برابری کے تمام دعووں کے باوجود اس کی کڑوی سچائی یہ ہے کہ لڑکیوں کو کچھ بھی حاصل کرنے کے لئے لڑنا پڑتا ہے ۔ کبھی اعلیٰ تعلیم کے لئے، کبھی یکساں اجرت کے لئے، کبھی والدین کی جائیداد میں حصہ کے لئے، کبھی دفاعی خدمات میں آگے بڑھنے کے لئے، کبھی سیاست میں پیر جمانے کے لئے ۔ یہ لڑائی گھر والوں سے بھی ہوتی ہے اور سماج سے بھی ۔ اسی پہلو کو سامنے رکھ کر پرینکا گاندھی نے ‘لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں’ کے جزباتی سلوگن کے ذریعہ اتر پردیش کے انتخابات میں بڑا سیاسی داؤ کھیلا ہے ۔ انہوں نے آدھی آبادی کی محرومی، استحصال اور ظلم و زیادتی کی دلیل دیتے ہوئے اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں 40 فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کا اعلان کیا ۔ جس نے مخالف سیاسی جماعتوں کو چونکا دیا ۔ یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ پریس کانفرنس میں کیا اعلان کرنے والی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس عورت کے لئے لیا گیا ہے جس نے گنگا یاترا کے دوران میری ناؤ کو کنارے لاکر کہا کہ میرے گاؤں میں اسکول نہیں ہے ۔ میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتی ہوں ۔ یہ فیصلہ پریاگ راج کی پارو کے لئے لیا گیا جس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ دیدی میں بڑی ہو کر نیتا بننا چاہتی ہوں ۔ یہ اناؤ کی لڑکی کے لئے لیا گیا جس کو جلایا گیا، مارا گیا ۔ یہ ہاتھرس کی اس ماں کے لئے لیا گیا جس نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ مجھے انصاف چاہئے ۔ یہ فیصلہ ہر اس عورت کے لئے ہے جو سیاست میں بدلاؤ چاہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عورتیں اقتدار میں اپنی حصہ داری درج کرائیں ۔
کانگریس نے عورتوں کو صرف 40 فیصد یعنی 403 سیٹوں والی اسمبلی کے لئے 161 ٹکٹ عورتوں کو دیئے جائیں گے ۔ پرینکا گاندھی نے اس پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ بارہویں اور گریجویشن میں کامیاب طالبات کو بالترتیب اسمارٹ فون اور اسکوٹی دینے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ اس قدم سے کانگریس کو خواتین کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے ۔ اترپردیش میں عورتوں کے 2019 لوک سبھا انتخابات کے مطابق 6.61 کروڑ ووٹ ہیں ۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کو کامیاب بنانے میں خواتین اور مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ شاید اسی کو دیکھتے ہوئے کانگریس نے یہ سیاسی داؤ کھیلا ہے ۔ ممتا بنرجی نے اقتدار میں رہتے ہوئے بنگال میں خواتین کے لئے کام کیا ہے ۔ پرینکا گاندھی اقتدار میں تو نہیں ہیں لیکن عورتوں کے لئے بہت جدوجہد کر رہی ہیں ۔ اس کا احساس عورتوں کو بھی ہو چلا ہے ۔ جہاں جہاں بھی عورتوں پر ظلم، بدکاری یا عصمت دری ہوئی ہے ۔ پرینکا گاندھی نے وہاں سب سے پہلے پہنچ کر مظلوم عورتوں کے آنسو پوچھنے کا کام کیا ہے ۔ کانگریس کے اس فیصلے کے خلاف دوسری پارٹیاں بہت زیادہ نہیں بول سکیں گی کیونکہ معاملہ عورتوں کو بااختیار بنانے کا ہے ۔ جو بولے گا اسے نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ البتہ دباؤ سبھی سیاسی جماعتوں پر آ گیا ہے ۔
مایاوتی کے بیان سے اس دباؤ کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے کانگریس کے فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دس سالہ دور اقتدار میں کانگریس نے عورتوں کے لئے پارلیمنٹ، اسمبلی میں ریزرویشن نہیں کیا ۔ پارلیمنٹ میں 33 فیصد سیٹیں عورتوں کے لئے مخصوص کرنے کا مطالبہ بہت پرانا ہے ۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے پارلیمنٹ میں اس مسئلہ کو بہت زور شور سے اٹھایا تھا ۔ مگر کانگریس کے علاوہ کسی نے بھی اس معاملہ میں پہل نہیں کی ۔ 2008 میں اس نے ترمیم کے ساتھ خواتین ریزرویشن بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا ۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود 2010 میں کانگریس نے اسے راجیہ سبھا میں پاس کر دیا تھا ۔ لیکن لوک سبھا میں وہ اٹک گیا تھا ۔ سونیا گاندھی ہمیشہ اس کی حمایتی رہی ہیں ۔ 33 فیصد ریزرویشن نہ ہو پانے کے لئے بی جے پی سے بھی سوال کیا جانا چاہئے ۔ جو جماعتیں خواتین کے سیاسی ریزرویشن کے حق میں نہیں ہیں ان کی دلیل ہے کہ بھارت کی عورتیں تعلیم یافتہ کم ہیں ۔ غریب اور امیر کے درمیان تعلیم کا معیار یکساں نہیں ہے ۔ اس لئے خواتین ریزرویشن کا فائدہ امیر گھرانوں کو ہی ملے گا ۔ عورتوں کو اترپردیش اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے 40 فیصد ٹکٹ دینے کا نتیجہ کیا ہوگا یہ کہنا ابھی مشکل ہے ۔ لیکن اس فیصلہ سے نہ صرف کانگریس کو عورتوں کے ووٹ مل سکتے ہیں بلکہ بی جے پی خواتین ووٹ پولرائز نہیں کر پائی گی ۔
لکھیم پور کھیری میں کاشت کاروں کو روندے جانے کے سانحہ پر جس طرح آگے آکر بڑھ کر پرینکا گاندھی نے آواز بلند کی، مخالفین کو اس کی توقع نہیں تھی ۔ اتنا بڑا سانحہ ہونے کے باوجود اکھلیش یادو اور مایاوتی غائب رہے ۔ انہوں نے کسانوں اور عام آدمی کے حق میں آواز نہیں اٹھائی ۔ جبکہ پرینکا متاثرین کے خاندانوں تک پہنچنے والی پہلی خاتون ہیں ۔ وہ نہ صرف مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوئیں بلکہ حکومت سے بھی انہوں نے غصے کے ساتھ جواب مانگا ۔ متاثرین سے ملنے اور انہیں انصاف دلانے کے لیے صبح کا انتظار نہیں کیا، بلکہ آدھی رات کو بارش، اندھیرے میں گاڑیاں بدل کر، پیدل وہاں پہنچیں، پولس کی حراست میں رہیں مگر حکومت پر کارروائی کرنے کا دباؤ بنانے سے نہیں ہچکچائیں ۔ انہوں نے بنارس میں کسانوں کو انصاف دلانے کے لئے ریلی کی ۔ جس میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا ۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بہت سے مدے اٹھائے ۔ سون بھدرا اراضی معاملہ، کورونا کے زمانے میں بستر اور آکسیجن کی کمی، ہاتھرس کا واقعہ، بے روزگاری، بڑھتی قیمتوں اور کئی مدوں پر بے باکی سے حکومت کو للکارا ۔ انہوں نے لوگوں کو احساس کرایا کہ حقوق کے لیے، انصاف کے لیے لڑنا پڑتا ہے اور اگر کوئی لڑکی ہے تو یہ لڑائی مزید مشکل ہو جاتی ہے ۔ پرینکا گاندھی کے اس تیور سے اترپردیش میں کانگریس کی شبیہ اچھی بنی ہے ۔
جس کانگریس کو اترپردیش انتخابات میں کمزور مانا جا رہا تھا ۔ ایک سروے کے مطابق 66 فیصد لوگ پرینکا گاندھی کو یوگی کے بالمقابل مان رہے ہیں ۔ 22 فیصد کا کہنا ہے کہ انتخابی مقابلہ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ہی ہوگا ۔ کیوں کہ پنچایت انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے ہی بی جے پی کو شکست دی تھی ۔ اس لئے اسمبلی انتخابات میں یہی دونوں پارٹیاں آمنے سامنے ہوں گی ۔ یہ صحیح ہے کہ اترپردیش میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بکھرا ہوا ہے ۔ شاید اسی لئے پرینکا گاندھی کے لکھنؤ شفٹ ہونے کی خبر آئی ہے ۔ وہ الیکشن تک لکھنؤ میں قیام کریں گی اور روزانہ تین سے چار اضلاع کا دورہ کریں گی ۔ اگر وہ الیکشن تک گرام پنچایت سے لے کر ضلعی سطح تک کانگریس کی تنظیم کو مضبوط کر لیتی ہیں اور کانگریس ان کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنا دیتی ہے تو پھر مخالف جماعتوں کا انہیں نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ اس سے پارٹی کارکنان میں نیا جوش پیدا ہوگا ۔ جو بی جے پی کے رہنماؤں کے پریانکا پر لگائے گئے سیاسی سیاحت کے الزامات کا جواب بھی ہوگا ۔
کانگریس خواتین کو بااختیار بنانے کے علاوہ دلتوں کی اقتدار میں بھاگیداری کے سوال کو بھی آگے لائی ہے ۔ پنجاب میں دلت وزیر اعلیٰ بنانے کا کانگریس کو اترپردیش میں فائدہ مل سکتا ہے ۔ دلت کے بعد عورتوں کی بحث کھڑی کرکے کانگریس نے آنے والے اسمبلی انتخابات کا نریٹیو بدلنے میں ابتدائی کامیابی حاصل کی ہے ۔ یہ دونوں ایسے سوال ہیں جو اترپردیش کی ذات اور مذہب کی سیاست کو ٹکر دے سکتے ہیں ۔ یوپی کی سیاست پر ذات اور مذہب اس قدر حاوی ہے کہ سبھی سیاسی جماعتیں اس کو دھیان میں رکھ کر اپنی حکمت عملی تیار کرتی ہیں ۔ اسے سوشل انجینئرنگ کا نام دیا گیا ہے ۔ پرینکا گاندھی نے ذات اور مذہب کے پہیوں پر چلتی اترپردیش کی سیاست میں خواتین اور دلت حصہ داری کا پہلو جوڑ دیا ہے ۔ اس سے بازی پلٹنے کا امکان ہے، اگر اسی طرح پرینکا گاندھی میدان میں ڈٹی رہیں تو کانگریس کی اتنی سیٹیں ضرور آسکتی ہیں کہ وہ کنگ میکر بن جائے ۔ الیکشن اور کھیل کب کیا رخ اختیار کر لے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن پرینکا کے نئی طرح کی سیاست سے کانگریس کے بہتر کرنے کی امید ضرور بندھی ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا