کلکتہ میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کا عظیم الشان مظاہرہ

0
0

کیامودی حکومت کیلئے ’ایکسپائری ڈیٹ‘ ثابت ہوگا ؟

عبدالعزیز

19 جنوری کو کلکتہ کے بریگیڈ پریڈ گراؤنڈمیں ممتا بنرجی کی دعوت پر اپوزیشن کی 20 پارٹیوں کا اجتماع منعقد ہوا جس میں عوام کا سیلاب امنڈ پڑا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں بھاجپا یا نریندر مودی کے خلاف مغربی بنگال میں غم اورغصے کی زبردست لہرہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں اور نمائندوں کے اجتماع سے نریندر مودی میں بوکھلاہٹ اور لڑکھڑاہٹ بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اجتماع ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ نریندر مودی کا رد عمل ٹی وی چینلوں پر آنے لگا اور وہی رد عمل آنے لگا جس کو بار بار موصوف اپنی زبان سے دہراتے ہیں۔ مسٹر یشونت سنہا سابق مرکزی وزیر خزانہ اور بی جے پی سابق لیڈر نے اجتماع میں کہا تھا کہ’’ نریندر مودی کا نام اجتماع میں یا بیانات میں لینا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے نریندر مودی اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھنے لگتے ہیں اور ان کا جو رد عمل تھوڑی دیر بعد آئے گا وہ یہ آئے سارے بھرسٹاچاری (بدعنوان) لیڈر ان کو ہٹانے کیلئے ایک ساتھ ہوگئے ہیں، کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ ان کی چوری اور بدعنوانی پکڑی جائے گی‘‘۔ یشونت سنہا نے سہ پہر کو یہ بات بریگیڈ ریلی میں کہی تھی ۔ اوبرائے گرانڈ ہوٹل کے ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے اسی روز 8بجے رات کو کہاکہ ’’جو میں نے کہا تھا بالکل وہی رد عمل نریندر مودی نے ظاہر کیا۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ مودی کو مدعا نہیں بنانا چاہئے بلکہ مدعے کو مدعا بنانا چاہئے، کیونکہ اس سے مودی کی تشہیر ہوتی ہے اور مودی کا نفس کا موٹا ہوتا ہے‘‘۔19 جنوری کو کلکتہ کے بریگیڈ پریڈ گراؤنڈمیں ممتا بنرجی کی دعوت پر اپوزیشن کی 20 پارٹیوں کا اجتماع منعقد ہوا جس میں عوام کا سیلاب امنڈ پڑا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں بھاجپا یا نریندر مودی کے خلاف مغربی بنگال میں غم اورغصے کی زبردست لہرہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں اور نمائندوں کے اجتماع سے نریندر مودی میں بوکھلاہٹ اور لڑکھڑاہٹ بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اجتماع ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ نریندر مودی کا رد عمل ٹی وی چینلوں پر آنے لگا اور وہی رد عمل آنے لگا جس کو بار بار موصوف اپنی زبان سے دہراتے ہیں۔ مسٹر یشونت سنہا سابق مرکزی وزیر خزانہ اور بی جے پی سابق لیڈر نے اجتماع میں کہا تھا کہ’’ نریندر مودی کا نام اجتماع میں یا بیانات میں لینا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے نریندر مودی اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھنے لگتے ہیں اور ان کا جو رد عمل تھوڑی دیر بعد آئے گا وہ یہ آئے سارے بھرسٹاچاری (بدعنوان) لیڈر ان کو ہٹانے کیلئے ایک ساتھ ہوگئے ہیں، کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ ان کی چوری اور بدعنوانی پکڑی جائے گی‘‘۔ یشونت سنہا نے سہ پہر کو یہ بات بریگیڈ ریلی میں کہی تھی ۔ اوبرائے گرانڈ ہوٹل کے ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے اسی روز 8بجے رات کو کہاکہ ’’جو میں نے کہا تھا بالکل وہی رد عمل نریندر مودی نے ظاہر کیا۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ مودی کو مدعا نہیں بنانا چاہئے بلکہ مدعے کو مدعا بنانا چاہئے، کیونکہ اس سے مودی کی تشہیر ہوتی ہے اور مودی کا نفس کا موٹا ہوتا ہے‘‘۔ خاکسار نے بھی اپنی تقریر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، یشونت سنہا اور شتروگھن سنہا کی موجودگی میں سابق وزیر خزانہ کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ ان کی اس بات کو اپوزیشن کے لیڈروں کو حرز جاں کرلیناچاہئے کیونکہ میڈیا کا وہ حصہ جو مودی بھکت ہوگیا ہے وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ مودی کا نام اپوزیشن لیڈروں کی زبان پر بار بار آئے تاکہ وہ بھی یہی موضوع بحث بنائیں کہ تمام پارٹیوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے ’مودی ہٹاؤ اور ملک بچاؤ‘۔ اس سے گودی میڈیا کو اور نریندر مودی کو بھی تقویت ملتی ہے۔ حالانکہ بریگیڈ گراؤنڈ کے اجتماعِ عام میں بہت سے لیڈروں نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ مودی کے ہٹانے سے ہی کام نہیں چلے گا بلکہ یہ ایک سوچ ہے، ایک نظریہ ہے جس سے ملک میں نفرت پھیل رہی اور لوگوں کو ٹکڑوں میں بانٹا جارہا ہے۔ صحیح معنوں میں اس سوچ اور اس نظریہ کو ختم کرنا ہے۔ اگر یہ سوچ اور نظریہ ختم نہیں ہوتا تو مودی جیسے لوگ آتے رہیں گے اور ملک بار بار خلفشار و انتشار سے دوچار ہوتا رہے گا۔ میرے خیال سے مودی کو ہٹانا تو ضروری ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ جس سوچ اور جس نظریے کی علمبردار جماعت میں مودی جیسے لوگوں کی پرورش و پرداخت ہورہی ہے اس سوچ اور نظریے کا بھی خاتمہ ضروری ہے۔ یہ سوچ اور نظریہ کیسے ختم ہو اس پر بھی غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ آثار و قرائن سے تو یہ بات بالکل عیاں ہورہی ہے کہ مودی کے اور ان کی حکومت کے دن گنے چنے رہ گئے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس کے ذریعے جو نفرت اور انسانی دشمنی کا نظریہ پنپ رہا ہے اس کا جلد خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا۔  ملک کی آزادی کے ساڑھے پانچ مہینے کے بعد (31جنوری 1948ء) ہی آر ایس ایس کنبہ کے ایک فرد نے مہاتما گاندھی کا قتل اس لئے کیا کہ وہ ملک میں اتحادِ انسانیت کے حامی تھے اور اس کیلئے وہ جدوجہد کر رہے تھے۔ حکومت کی جانب سے آر ایس ایس پر پابندی بھی عائد کردی گئی اور اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس سے پابندی اس معاہدے پر ختم کیا کہ جس میں آر ایس ایس کی طرف سے اس کے سربراہ نے تحریری طور پر وعدہ کیا کہ آر ایس ایس سیاست میں حصہ نہیں لے گا، لیکن آر ایس ایس کا نظریہ پنپتا رہا اور جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہیں۔ چند سال پہلے آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی مگر وہ مخلوط حکومت تھی جس کی وجہ سے سنگھ پریوار کو اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کا بھرپور موقع نہیں ملا لیکن 2014ء کے لوک سبھا الیکشن میں بھاری اکثریت سے بی جے پی کی کامیابی بھی ہوئی اورنریندر مودی جو ان کی پارٹی میں فرقہ پرستی اور فسطائیت کا سب سے بڑا چہرہ تھا اسے وزیر اعظم کی گدی پر بیٹھنے کا موقع مل گیا۔ 2014ء سے لے کر آج تک یعنی ساڑھے چار سال تک ہندستان ہر طرح کی انارکی، ہنگامہ اور فساد سے گزرتا رہا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کانگریس کی لمبی حکومت اور دیگر پارٹیوں کی ملی جلی سرکار نے سنگھ پریوار کے نظریے کو ضرب لگانے سے قاصر رہی۔ اگر سنگھ پریوار کے نظریے کو کمزور یا ختم کیا جاسکتا ہے تو یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے ذریعے یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کی کاٹ کیلئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی تنظیم ہو جو نفرت اور کدورت، بھید بھاؤ کے خاتمے کیلئے مثبت اور منظم انداز سے کام کرے ۔ مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی جماعتیں سرکار میں تھیں اس وقت تک بنگال میں بی جے پی یا آر ایس ایس کا عروج نہیں ہوا لیکن ترنمول کانگریس کے زمانے میں اس کا عروج دن دونی رات چوگنی ہوتا گیا۔ اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کے نظریے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن وہ فرقہ پرستی کے سخت مخالف ہیں اس سے اختلاف ممکن نہیں ہے۔ کمیونسٹ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ فرقہ پرستی پر کیسے روک لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت کیرالہ میں مارکسی پارٹی کی حکومت ہے۔ وہاں آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کے درپے ہے، لیکن حکومت نہایت چابکدستی اور مضبوطی کے ساتھ فرقہ پرستی کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اس وقت وہاں ایک مندر سبری مالا میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود عورتوں کے داخلے کے خلاف سنگھ پریوار کی طرف سے زبردست مزاحمت درپیش ہے اور فرقہ پرستوں کی مرکزی حکومت بھی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ کمیونسٹ فرقہ پرستوں سے طاقت آزمائی سیاسی میدان میں بھی اور سیاست سے باہر بھی کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں ایک تنظیم ہے جس کا نام ’جماعت اسلامی ہند‘ ہے وہ ایک منظم اور مضبوط جماعت ہے۔ آر ایس ایس کے نظریے کی کاٹ مثبت انداز سے کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ابھی وہ جماعت نہ مسلمانوںمیں مقبول عام ہے اور نہ غیر مسلموںمیں اورنہ ہی اس کی کوئی سیاسی جماعت مضبوط ہے۔ مسلمانوں کی کوئی دیگر جماعت نہ منظم ہے اور نہ کیڈر بیس ہے اور نہ ہی اسلامی نظریے سے لیس ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی دیگر جماعتیں اس کی کاٹ نہیں کرسکتیں۔ سیاسی میدان میں مسلمانوں کی ایک جماعت مجلس اتحاد المسلمین ہے لیکن اس کا انداز مسلم لیگ کی طرح ہے اور وہ قوم پرستانہ نظریے کو فروغ دیتی ہے جس کی وجہ سے ہندو فرقہ پرستوں کو فرقہ پرستی بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ اتحاد اور یکجہتی کی بات، سمپوزیم اور سیمینار اور جلسے میں تو سبھی لوگ کرتے ہیں لیکن صرف باتوں سے فرقہ پرستی اور فسطائیت کو مٹانے کا کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ مختصراً یہ ہے کہ مضبوطی کے ساتھ منظم انداز سے سیاسی اور غیر سیاسی دونوںمیدانوں میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے مقابلے کی ضرورت ہے۔ آئندہ دو ڈھائی مہینے میں لوک سبھا کا الیکشن ہوسکتا ہے اور یہ الیکشن ملک و قوم کیلئے بہت اہم ہے۔  گزشتہ روز اجتماع کلکتہ میں اروند کجریوال نے نہایت واضح انداز سے یہ بتایا کہ اگر 2019ء میں مودی اور امیت شاہ کی جوڑی رہ گئی تو ملک کا دستور بدل دیا جائے گا اور الیکشن پر بھی روک لگا دی جائے گی۔ اور جس طرح ہٹلر جرمنی میں چانسلر بنا اور چانسلر بننے کے بعد وہاں کے دستور کو بدل دیا اور الیکشن کا خاتمہ کردیا اسی طرح یہ جوڑی ہندستان میں کرنا چاہتی ہے۔ کجریوال کی بات بالکل صحیح ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا ہے کہ ان کے پیچھے جو طاقت ہے وہ آر ایس ایس کی طاقت ہے۔ اگر یہ جوڑی ختم بھی ہوجاتی ہے تو مودی اور شاہ جیسی جوڑی دوسری پیدا ہوسکتی ہے۔ لہٰذا محض جوڑی پر ہی توجہ دینے سے ہی کام نہیں چلے گا بلکہ ان کے پیچھے جو طاقت ہے جو ان کو اکساتی اور ہمت و حوصلہ دیتی ہے اور ان کا دست و بازو ہے اس کو ختم کئے بغیر ملک میں سلامتی، امن و امان، بھائی چارہ، محبت و اخوت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اس وقت جو سیاسی لڑائی ہے اسی پر فی الفور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر جماعت، ہر کنبہ اور ہر فرد اگر آنے والے جنرل الیکشن کیلئے کام کرے اور مستعدی سے کام کرے تو نریندر مودی اور ان کی جماعت میں جو بوکھلاہٹ پیدا ہوگئی ہے وہ بوکھلاہٹ بڑھ سکتی ہے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے تین بڑی ریاستوںمیں بی جے پی کی ہار سے سنگھ پریوار کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ اتر پردیش میں ایس پی اور بی ایس پی کے اتحاد سے ان کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ امید ہے کلکتہ میں جو اپوزیشن پارٹیوں کا عدیم المثال اتحاد کا مظاہرہ ہوا ہے اس سے ان کے کان کھڑے ہوگئے ہوں گے اور ان کے خیمے میں یقینا کھلبلی مچ گئی ہوگی۔ کانگریس کے لیڈر اور اپوزیشن لیڈر ملکا ارجن کھرگے نے کلکتہ میں جو یہ کہا ہے کہ ’’دل ملے نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے‘‘ یہ کافی نہیں ہے۔ شاید اس مصرعہ کا انھوں نے مطلب نہیں سمجھا یا اگر سمجھ کر انھوں نے ایسا کہا ہے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ دل ملنا تو بہت بڑی بات ہوتی ہے ۔ اسی لئے جگر مراد آبادی نے کہا ہے  ؎  ’’آدمی آدمی سے ملتا ہے… دل مگر کم کسی سے ملتا ہے‘‘۔ لیکن آج سیاسی میدان میں مقابلے کیلئے دل ملے یا نہ ملے دماغ ملنا بیحد ضروری ہے کیونکہ اگر دانشمندانہ اور حکیمانہ انداز سے کام نہیں کیا گیا تو اپوزیشن کی پارٹیاں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ ارون شوری اور یشونت سنہا نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ بی جے پی امیدوار کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے ایک امیدوار ہونا چاہئے، جب ہی اپوزیشن کا ووٹ تقسیم ہونے سے بچے گا اور بی جے پی کو ہرانے میں آسانی ہوگی۔ میرے خیال سے ان دو لیڈروں کی بات کو اپوزیشن پارٹیوں کو اپنا حرز جاں بنالینا چاہئے ، اس سے اپوزیشن پارٹیوں کی نیّا پار ہوگی اور سنگھ پریوار کی نیّا ڈوبے گی۔۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا