اس میں قوم پرستی کہاں سے آگئی؟

0
0

ملازمین تنخواہ لیتے ہیں یوم جمہوریہ کی تقریبات میں حصہ لینا ان کا فرض : گورنر ستیہ پال ملک
’’یہ جماعتیں چونکہ بے کار ہوگئی ہیں اور اپنی بنیادیں کھو رہی ہیں، اس لئے چیزوں کو ایک الگ عینک سے دیکھ رہی ہیں، ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے‘‘

یواین آئی

جموں؍؍جموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ سرکیولرس کی اجرائی جن میں یوم جمہوریہ کی تقریبات میں ملازمین کی شرکت کو لازمی قرار دیا گیا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے سرکیولرس گزشتہ کئی برسوں سے ایک معمول رہا ہے۔ بقول ان کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں حصہ لینا ملازمین کا فرض ہے۔اس دوران نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایسے سرکیولرس جاری ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم مفتی محمد سعید ایسی تقریبات میں اپنے حامیوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے سرکاری ٹرانسپورٹ اور پولیس کی گاڑیوں کا استعمال کرتے تھے۔گورنر ستیہ پال ملک کا معاملے پر کہنا ہے ‘حکم نامے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ یہ حکم نامہ کوئی نیا فرمان نہیں ہے۔ یہ حکم نامہ ہر سال جاری ہوتا ہے۔ کئی برسوں کے حکم نامے تو میرے سامنے پڑے ہیں۔ ان سب کا متن ایک جیسا ہے، کوئی نئی بات شامل نہیں ہے’۔تاہم گورنر موصوف کہتے ہیں ‘یوم جمہوریہ کی تقریبات میں حاضر رہنا سرکاری ملازمین کی ڈیوٹی ہے۔ اس میں قوم پرستی تھوپنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ سرکاری دفتر سے تنخواہ حاصل کرتے ہیں تو ڈیوٹی دینا آپ کا کام ہے۔ اس میں قوم پرستی کہاں سے آگئی’۔ستیہ پال ملک کے مطابق ایسی سیاسی جماعتیں اس کو ایشو بنارہی ہیں جن کی جڑیں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کسی بھی جماعت کا نام لئے بغیر کہا ‘یہ جماعتیں چونکہ بے کار ہوگئی ہیں اور اپنی بنیادیں کھو رہی ہیں، اس لئے چیزوں کو ایک الگ عینک سے دیکھ رہی ہیں۔ ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ یہ جماعتیں سماج کو تقسیم کرکے اپنا ووٹ بینک بنانا چاہتی ہیں۔ ایسی ہی سیاست نے کشمیر کو تباہ کیا ہے’۔دریں اثنا عمر عبداللہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایسے سرکیولرس پہلے بھی جاری ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا ‘یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایسے سرکیولرس جاری ہوئے ہیں۔ ان تقریبات میں حاضری پہلے بھی لازمی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مرحوم مفتی صاحب کشمیر کی صورتحال کو بہتر دکھانے کے لئے ریاستی ٹرانسپورٹ اور پولیس کی گاڑیوں کا استعمال کرتے تھے اور اپنے حامیوں کو ان تقاریب میں شرکت کے لئے لاتے تھے’۔ اگرچہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے عمر عبداللہ کے اس ٹویٹ پر ناراضگی ظاہر کی، تاہم عمر کا کہنا ہے کہ وہ بخشی اسٹیڈیم میں اس کے چشم دید گواہ رہ چکے ہیں۔واضح رہے کہ ریاستی حکومت نے اپنی پرانی روش برقرار رکھتے ہوئے یوم جمہوریہ کی سرکاری تقریبات میں اپنے ملازمین کی شرکت کو ایک بار پھر لازمی قرار دیا ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے جاری کردہ سرکیولرس میں خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے سرکاری ملازمین کو تادیبی کاروائی کا انتباہ کیا ہے۔ یہ سرکیولرس جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ، ڈویڑنل کمشنر کشمیر اور ضلع مجسٹریٹوںکی طرف سے جاری کئے گئے ہیں اور یہ ملازمین کی یوم جمہوریہ تقریبات میں شرکت کو یقینی بنانے کے لئے جاری کئے گئے ہیں۔اس سلسلے میں مرکزی سرکیولر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سکریٹری چندر پرکاش کی طرف سے جاری ہوا ہے۔ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ جس کا کام کاج خود ریاستی گورنر ستیہ پال ملک دیکھ رہے ہیں، نے سرکیولر نمبر 04 جی اے ڈی آف2019 مورخہ 15 جنوری 2019 میں تمام سرکاری عہدیداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ 26 جنوری کی تقریبات میں سرکاری ملازمین کی شرکت کو یقینی بنائیں۔سرکیولر میں کہا گیا ہے ‘یوم جمہوریہ ایک اہم قومی تقریب ہے جو ہر سال 26 جنوری کو منائی جاتی ہے۔ ہر سرکاری ملازم پر فرض بنتا ہے کہ وہ اس تقریب میں شرکت کریں’۔ سرکیولر میں کہا گیا ہے کہ جموں اور سری نگر میں موجود سرکاری افسران یا اہلکاروں کا یونیورسٹی آف جموں اور شیر کشمیر اسٹیڈیم سری نگر میں منعقد ہونے والی تقاریب میں حصہ لینا ضروری ہے۔ سرکیولر میں تمام محکموں کے سربراہوں اور عوامی سیکٹر کے اداروں کے چیف ایگزیکٹوز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے ماتحت ملازمین کی شرکت کو یقینی بنائیں۔سرکیولر میں مزید کہا گیا ہے ‘تقریب میں غیر حاضری کو ڈیوٹی میں کوتاہی اور حکومتی ہدایت کی نافرمانی تصور کیا جائے گا’۔جموں وکشمیر کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شمولیت کو اس لئے لازمی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ریاست بالخصوص وادی کشمیر میں عام شہری ایسی تقریبات کا کلی طور پر بائیکاٹ کرتے ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا