رضیہ حیدر خان
دہلی انڈیا
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’پریشان ہو‘‘
’’کیا نہیں ہونا چاہئے؟‘‘
’’ہاں پریشانی کی بات تو ہے، لیکن تمہارے پریشان ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ اس کا حل تلاش کرو نا۔‘‘
’’وہی تو سوچ رہی ہوں کہ میں ایسا کیا کروں کہ یہ تمام پریشانیاں ختم ہو جائیں۔ دن ہفتے مہینے گزرتے جا رہے ہیں لیکن پریشانیاں اور مشکلات ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتیں۔ ایک ختم نہیں ہوتی دوسری آ جاتی ہے۔‘‘
’’ڈرتی ہو مشکلوں اور پریشانیوں سے.؟‘‘
’’ڈر تو لگتا ہے۔‘‘
’’تمہیں.؟‘‘
’’ہاں مجھے، کیوں میں انسان نہیں ہوں؟ مجھے ڈر کیوں نہیں لگ سکتا.؟؟”
’’تم تو ڈرنے والی نہیں تھیں۔ تیز لہروں کے ساتھ سمندر میں غوطہ لگا کر مشکلوں کا حل تلاش کر لے آتی تھیں۔ پھر آج کیا ہوا، کیوں خوف زدہ ہو جاتی ہو.؟‘‘
’’پتہ نہیں، شاید گردشِ وقت نے مجھے ایسا بنا دیا ہے۔‘‘
’’تمہارے چہرے پر ایک خوف سا طاری رہتا ہے ہمیشہ ہر وقت تمہارے چہرے پر بے سکونی اور پریشانی نظر آتی ہے، کیا تمہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ تمہیں کُھل کر ہنسے ہوئے اور کچھ دیر کے لئے مسکرائے ہوئے کتنا عرصہ ہو چکا ہے؟ذرا یاد کرنا کہ تم آخری بار سب کے ساتھ بیٹھ کر کب ہنسی تھیں؟‘‘
’’ہاں کل بچوں نے بھی احساس دلایا اس بات کا۔ مجھے شرمندگی ہوئی، لیکن میں کیا کروں؟ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ مسکراؤں، خوش رہوں، ایک مدت سے خوش رہنے اور ہنسنے کا ڈرامہ کرتی آ رہی ہوں۔بہت تھک گئی ہوں، اب تو خود سے بھی اکتانے لگی ہوں، بیزار ہو گئی ہوں۔‘‘
کیا تمہارے پریشان رہنے سے خوف ناک چہرہ بنائے رکھنے سے یہ سب ٹھیک ہو جائے گا؟‘‘
”پتہ نہیں،لیکن ایسے ماحول میں مجھ سے نہیں رہا جاتا۔‘‘
’’تم نے اتنی تکالیف جھیلی ہیں۔پھر آج ایسا کیا ہو گیا کہ اس ماحول میں نہیں رہا جاتا.؟‘‘
’’فرق ہے نا تب اور اب کے ماحول میں، اُس وقت اپنی پریشانیاں دوسروں کو سنا کر، ساتھ بیٹھ کر رو کر بانٹ لیا کرتی تھی، لیکن آج تو کوئی ایسا اللہ کا بندہ نظر ہی نہیں آتا کہ جو سکون سے ہو اور اس کے ساتھ اپنے دکھڑے بانٹ سکوں۔ جسے دیکھو پریشان ہے، کسی کو بیماری کا ڈر ہے، کسی کو روزگار کی پریشانی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ انسان کو سب سے زیادہ وحشت انسان سے ہے۔ کیا پتہ کون ہم سے کس لئے مل رہا ہے؟ اگر ایسا کیا تو کوئی ٹوک دے گا۔ کہیں قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہو جائے گی؟ جانے کیا کیا۔ ایسے میں کوئی کرے تو کیا کرے۔بتاؤ؟‘‘
’’اور تمہارے حساب سے تم اس طرح رہ کر یہ سب ٹھیک کر لوگی؟‘‘
’’نہیں لیکن کسی سے کہہ بھی تو نہیں سکتی۔‘‘
’’کیا ضرورت ہے کسی کو کچھ بتانے کی؟کیوں تمہارا جی چاہتا ہے کہ کوئی تمہاری روداد سنے بیٹھ کر؟‘‘
’’تو کیا میں دوسروں کی خوشیاں اور مسکراہٹ چھین کر لاؤں؟ تا کہ میں خوش رہ سکوں،؟ ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا جیسا تم کر رہی ہو۔‘‘
’’کیا کر رہی ہوں میں؟ کیا کرتی ہوں میں؟ بتاؤ….بولو.؟‘‘
’’یو دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر زور زور سے چیخنے سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
’’تو کیسے ہوگا.؟ ہاں کیسے ہوگا؟ تم بتاؤ۔۔۔بتاؤ۔۔۔نا….کہہ دینا آسان ہوتا ہے۔ زبان ہی تو چلانی ہے۔ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ زندگی اللہ تعالی کی عنایت کی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے۔جان ہے تو جہان ہے، زندگی ہی محفوظ نہیں ہے، کہیں آتے جاتے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔ وبا کا جتنا ڈر ہے اس سے کہیں زیادہ انسانوں کا ڈر ہے۔ اپنے گھروں میں بھی ایک عجیب سی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ اپنا گھر اپنا محلہ، اپنا شہر،اور اپنا وطن سب غیر لگنے لگتے ہیں اب تو یہ وبا ہے کرونا، جس کا ہر انسان کو خوف ہے لیکن اس سے پہلے بھی تو خوف تھا، جانے کب کہاں کیا ہو جائے۔‘‘
’’بھاگنا چاہتی ہو یہاں سے؟ ان سب پریشانیوں سے؟‘‘
’’نہیں، لیکن اس طرح ان سب باتوں کا، ان پریشانیوں کا ہر وقت مقابلہ بھی تو نہیں ہوتا۔‘‘
’’کیوں.؟‘‘
’’کیونکہ میں اپنوں کو پریشان نہیں دیکھ سکتی، فکرمند رہتی ہوں، ان کے لیے۔ کیونکہ مجھے سب بہت پیارے ہیں۔”
’’خدا پر بھروسہ نہیں ہے.؟‘‘
’’بہت بھروسہ ہے ساری امیدیں اسی پاک پرور دگار سے وابسطہ ہیں، لیکن برداشت اور حوصلہ بازار میں نہیں بکتے کہ خرید کر لے آئے اور خرچ کر لیا۔ حوصلہ ٹوٹ بھی جاتا ہے، برداشت ختم بھی ہو جاتی ہے اور پھر…..‘‘
’’اور پھر کیا…؟‘‘
اور پھر ایسے میں لاک ڈاؤن اور بے روزگاری بھی ہو تو ایسے حالات میں کیا کریں۔ جدھر دیکھو کوئی بیمار ہے، کوئی بے روزگار ہے، ہر طرف سے اموات کی ہی خبریں موصول ہو رہی ہیں، عجیب دہشت کا ماحول ہے۔ کہیں آنا جانا تو بند ہے ہی اوپر سے ہزار طرح کے خوف اور خدشات، دل دہلا دینے والی خبریں۔‘‘
’’یہ تو سب کے ساتھ ہے۔ تم وہ بات کہو جو تم سے وابستہ ہے، جس کے لئے تم نے اپنا یہ حال بنا رکھا ہے۔‘‘
”بیماری سے ایک بار مفر ہے لیکن بے روز گاری کا کیا کروں؟ اوپر سے طرح طرح کی نصیحت اور وہ بھی تلخ لہجے میں، کوئی بھی کبھی بھی کچھ بھی کہہ دے یہ سوچے بغیر کہ حالات ایک جیسے نہیں ہوتے ہمیشہ، کبھی اچھے اور کبھی بُرے بھی ہوتے ہیں”
’’شاید یہ مسئلہ بھی تمہارے جیسے کئی لوگوں کا ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم یہ سب کیوں سننے بیٹھ جاتی ہو.؟ کوئی بھی تمہارے سر پر ہھتوڑے کی طرح باتوں کا وار کرے تو تم خاموش کیوں رہتی ہو؟‘‘
’’تمہارے پاس ہر بات کا جواب ہوتا ہے، تو جواب دیا کرو، کوئی زور سے بولتا ہے تو تم اس سے زور سے بول کر اس کی آواز کو بند کیوں نہیں کرتیں؟ لیکن تم تو بات کرنے سے پہلے ہی رونے لگتی ہو، تم کیا جواب دو گی۔ اور کون سنے گا تمہاری باتیں.؟‘‘
’’میرا سر پھٹنے لگتا ہے۔ اتنی مشکل زندگی گزارنے کے بعد میرے اندر اب تاب باقی نہیں رہی اور ویسے بھی مجھے کسی کو سنانے کا شوق بھی نہیں ہے۔‘‘
’’میں کہنے میں نہیں کرنے میں یقین رکھتی ہوں۔‘‘
’’اچھا تو پھر کیوں روتی ہو؟ کیوں اپنی بات پر ڈٹی نہیں رہتیں؟کیوں نہیں کہتیں کچھ؟‘‘
’’احساس ہوتا ہے کہ کوئی ایک بار میری جگہ آ کر کیوں نہیں سوچتا اور اگر میں صحیح ہوتی ہوں تو پھر….‘‘
’’یہ فضول کی باتیں ہیں، کوئی کسی کی جگہ رہ کر نہیں سوچ سکتا اور نا ہی وہ سب محسوس کر سکتا ہے جو تم کرتی ہو۔‘‘
’’چُپ ہو جاؤ خدا کے لئے۔میرا دماغ خراب مت کرو۔‘‘
’’ہا ہا ہا….بزدل ہو تم۔ ڈرپوک ہو، تم زمانے سے کیا خود سے بھی ڈرتی ہو۔‘‘
’’ہاں، ہوں میں ڈرپوک اور بزدل بھی۔‘‘
’’تو ڈرو اور کرتی رہو اپنی بزدلی کا مظاہرہ۔‘‘
اپنے لئے نہیں ڈرتی اور نہ اپنے لئے بزدل ہوں، میں اپنوں کے لئے ڈرتی ہوں، کسی کو ناراض کرنا نہیں چاہتی، رشتے توڑنا نہیں چاہتی۔‘‘
’’جھوٹ بالکل جھوٹ، اپنے لیے بزدل ہو اور ڈرتی بھی ہو ہمیشہ سے، کیا تم نے کبھی کسی سے کُھل کر بتایا کہ تم کیا چاہتی ہو.؟ چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لیکر بڑی خواہش تک کبھی اظہار کیا کہ تمہیں کیسے جینا اچھا لگتا ہے؟تم کیا چاہتی ہو.؟‘‘
’’نہیں بتایا اور نہ ہی بتاؤں گی۔ اب اس عمر میں زندگی کے آخری مراحل سے گزرتے ہوئے اپنا ہی بھرم کیا توڑنا…‘‘
تو مان لو کہ تم بزدل ہو، ڈرتی ہو، پھر بہادری کا تمغہ لینے کی خواہش کیوں ہے؟‘‘
’’بالکل نہیں، مجھے کوئی تمغہ نہیں چاہیئے۔ بس زندگی کی تلخیاں مجھے ڈراتی ہیں، خوفزدہ کرتی ہیں۔ میں اپنے لئے جب کبھی نہیں جی تو اب کیوں جدو جہد کروں؟ بس اپنوں کے لیے زندگی کو زندگی کی طرح جینا چاہتی ہوں۔‘‘
’’بکواس باتیں ہیں، یہ صفائی مت دو، ایک زندگی گزار دی تم نے اپنی خواہشوں کواپنی حسرتوں کو کچلتے ہوئے، اور اب بھی وہیں ہو اسی مقام پر جہاں تمہیں تمہاری جدو جہد سے دوسروں کو بہت کچھ ملا، لیکن تمہیں کیا ملا.؟ بولو اپنی زندگی میں تمہارا کیا مقام ہے؟ کیا زندگی دوبارہ ملے گی تمہیں جینے کے لئے؟تم اپنے آپ کو آج بھی دوسروں کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔ اور تم..؟‘‘
’’دوسرے نہیں ہیں وہ۔ میرے اپنے ہیں۔‘‘
’’ہا ہا ہا…‘‘
’’خدا کے لیے خاموش ہو جاؤ، مجھے پریشان مت کرو…..‘‘
’’ابھی بھی وقت ہے تم وہ سب کچھ حاصل کر سکتی ہو جو تم نے زمانے کے خوف سے چھوڑ دیا۔ اپنے لیے وہ ساری خوشیاں…..وہ سارے خواب جو ادھورے ہیں بلکہ دیکھے ہی نہیں۔ دیکھے بھی تو کسی سے اظہار نہیں کیا۔ کیا تم انسان نہیں ہو..؟ کیا تمہیں اپنے لیئے جینے کا حق نہیں….ساری عمر تو کاٹ ہی دی تم نے روتے بلکتے ہوئے، اب چار دن اپنے لیے
بھی جی کر دیکھو۔ نکال دو زمانے کا ڈر اور اپنوں کا خٰوف، جی لو تم بھی….چھین لو اپنی خوشیاں واپس جو تم نے دوسروں کو دی ہیں….سوچ کیا رہی ہو.؟‘‘
’’خدا کے لیے خاموش ہو جاؤ….جاؤ یہاں سے۔ مت میری زندگی کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کرو….جاؤ یہاں سے….تم ہو کون؟ کیوں اس طرح بار بار مجھ پر ہنستی ہو..؟ کیوں مجھے اکساتی ہو۔ وہ سب کرنے کے لیے جو میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیوں گی۔ ناکہ تمہارے ان شیطانی مشوروں پر چل کر۔ تم ہوتی کون ہو، کیوں مجھ سے سوال کرتی رہتی ہو ہر وقت؟ کیا چاہتی ہو تم.؟ سامنے کیوں نہیں آتیں یہ نقاب اتارو….تمہاری آوازیں میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہیں۔‘‘
’’میں کہیں بھی چلی جاؤں تمہارا سوالیہ نشان میرے ساتھ رہتا ہے۔ کبھی بازار میں، کہیں بھیڑ میں تمہاری آنکھیں میرے تعاقب میں رہتی ہیں۔ زندگی بھر تم نے مجھے ہر لمحے ستایا ہے، اکسایا ہے۔ تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ بات کہ میں نہیں بدلونگی۔میں جیسی تھی ویسی ہی رہونگی۔لیکن آج میں تمہیں بے نقاب ضرور کرونگی…تم نے جہنم بنا دیا میری زندگی کو….کوفت ہوتی ہے مجھے تمہارے سوالوں سے….آج میں تمہارا یہ چہرہ ضرور دیکھوں گی….نوچ لوں گی تمہارا یہ نقاب…..لو یہ نوچ لیا۔ تمہارا نقاب۔‘‘
’’اففف….میرے اللہ یہ میں ہوں….؟‘‘
٭٭٭