سبق

0
0

 

 

نواب دین کسانہ
اودہمپور،جموں وکشمیر
رابطہ نمبر: 9419166320

شیرگڑھ میں پچھلے کئی دنوں سے بجلی ،پانی اور دیگر ضروریات ِ زندگی کاشدیدبُحران تھا۔زمین دھنسنے اور پھسلنے سے علاقہ شیرگڑھ کوآنے والی تمام سڑکیں کئی روزسے بندپڑی تھیں۔ایسے میں غذائی بحران کاخطرہ بھی منہ پھیلائے سامنے کھڑاتھا۔بیماروں کی حالت الگ دِگرگوں تھیں کیونکہ ادویات کی دستیابی کاقحط ساہوگیاتھا۔
ایسے میں شیرگڑھ اورملحقہ علاقہ جات کے لوگوں نے تحصیل انتظامیہ سے مل کر مسئلے کوحل کرناچاہالیکن کئی دِنوں کی دوڑدھوپ کے باوجود کوئی خاطرخواہ نتیجہ برامدنہ ہوا۔رہ راہ کرلوگوں نے ضلع انتظامیہ سے رابطہ کیا لیکن یہ سب بے نتیجہ رہا۔ آخر لوگوں نے ضلع ہیڈکوارٹر دھام پور جاکرحاکمِ ضلع کے سامنے احتجاج کرنے کامتفقہ فیصلہ کردیالیکن سوال تھاکہ اِس احتجاج کی قیادت کون کرے گا۔اس سلسلے میں جامبوخان کانام لیاجاتاتھا ۔جامبوخان اِس علاقہ کے ایک مشہورومعروف فردمرحوم دلیرخان کابیٹاتھا۔ خان صاحب کابیٹاہونے کے علاوہ اِس کی اپنی کوئی خاص صلاحیت نہیں تھی ۔لیکن لوگ مرحوم خان صاحب کابیٹا ہونے کی وجہ سے جامبوخان کوسیاست وقیادت کافطری وارث سمجھتے تھے اوراُنکی نگاہیں اکثراسکی جانب ہی اُٹھتی تھیں۔ برصغیرہندوپاک کے دیگرعلاقوں کی طرح اِس علاقے کے عوام کی بھی ایک مشکل یہ تھی کہ وہ وراثت کوصلاحیت پرترجیح دیتے تھے۔
قیادت کے اہل دوسرے شخص بابانصیرتھے۔یہ پڑھے لکھے باکردار اوربااخلاق انسان تھے۔ان کی دیانتداری اورراست بازی کسی بھی طرح کے شکوک سے مبرّاتھی ۔انتظامیہ میں بھی لوگ ان کی بات غور سے سنتے تھے ۔لیکن مشکل یہ تھی کہ جامبوخان ان سے اندرہی اندرسڑتااورحسدکرتاتھا۔ان کی کسی بھی بات کوسِرے نہ چڑھنے دینااپنی عین کامیابی سمجھتاتھا۔ لیکن اب کی مرتبہ چند لوگ ایسے بھی تھے جوسوچتے تھے کہ اس معاملے میں جامبو خان سے کچھ بننے والانہیں۔اس بات کوجامبوخان بھی سمجھتاتھا ۔لہذا جب احتجاج کی قیادت کرنے کاسوال اجلاس ِ عام میں پیش آیاتو جامبوخان نے بڑھ کرکہا،
’’اِس معاملے میں بابانصیرسے بڑھ کرقیادت کاحق اورکون اداکرسکتاہے۔وہ ہم میں سے سب بڑھ کر پڑھے لکھے اورمعاملہ فہم ہیں ۔جی جامبوخان صاحب نے بجافرمایا۔علاقہ کے مفادمیں بابانصیرصاحب آپکوآگے آناہوگا۔آپ آگے بڑھوہم آپکے ساتھ ہیں‘‘۔
سامنے بیٹھے لوگ جامبوخان کی تائیدکرنے لگے۔
بابانصیرنے سُناتووہ جامبوخان کی ذہنی کایاپلٹ دیکھ کرحیران رہ گیا۔اُسے یقین ہی نہیں ہورہاتھا کہ یہ واقعی جامبوخان کی آوازہے۔وہ کچھ دیریوں ہی تذبذب کی حالت میں رہااور پھرسامنے بیٹھے حاضرین اجلاس سے مخاطب ہوا،
’’بھائیواگریہ آپ سب کافیصلہ ہے تومیں تیارہوں۔علاقے کے مفادمیں میرامفاد ہے۔اگرآپ یہ خدمت مجھے سونپ رہے ہیں تومیں ضرورانجام دونگا۔ لیکن کہیں ایسانہ ہو کہ آپ ڈپٹی کمشنرآفس کے باہر ہتھیاروں اورڈنڈوں سے لیس وردی پوشوں کودیکھتے ہی نودوگیارا نہ ہوجائیں اورڈنڈوں کی برسات جھیلنے کیلئے مجھے تنہاچھوڑدیں‘‘۔
’’نہ نہ بابا یہ کیسے ہوسکتاہے۔آخرآپ اپنے لوگوں کے بارے میں اتناکم ترسوچتے ہی کیوں ہیں۔ہم مرسکتے ہیں مگربھاگ نہیں سکتے ‘‘۔
جامبوخان، شندے مُناّاوردیگرچندحاضرین نے باآوازبلندکہا۔
’’ٹھیک ہے اگرآپ کاعزم اتناہی مضبوط ہے توہم آئندہ دس مارچ کوڈپٹی کمشنرآفس سے نیچے کھیل کے میدان میں ملیں گے۔وہاں اکٹھے ہونے کے بعدہم بصورت قافلہ احتجاج کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرآفس کی جانب بڑھیں گے مگریادرہے میرے ساتھ بیوفائی اوربے اعتنائی یادھوکہ بازی نہ کرنا۔ ایساکروگے توپھرکبھی مجھے اپنے ساتھ نہیں پائو گے۔آخرایک ہی سوراخ سے مومن کوباربارنہیں ڈساجاسکتاہے ‘‘۔
نصیربابانے کہا،
’’نہیں بابا۔یہ بات بارباردُھرا کر ہمیں شرمندہ نہ کریں۔ اگرکوئی سخت فیصلہ لینے کی گھڑی آہی گئی توہم آپ سے دھوکہ دھڑی کے بجائے ہتھکڑی کوترجیح دیں گے‘‘۔
حاضریں ِ اجلاس نے پھراپنی حمایت کی تائید کی۔اجلاس ختم ہوکر لوگ بکھرنے لگے توجامبوخان کے خاص دوست دیدارام نے اس کے کان سے منہ لگاکرپوچھا،
’’یہ آپ نے کیاکیا؟آپکے ہوتے ہوئے یہ پَپل قیادت کاحقدارکیسے ہوسکتاہے ۔آخرآپ مرحوم دلیرخان کے بیٹے ہیں۔اپنی نہ سہی باپ کے نام کی لاج تورکھو‘‘۔
’’دیدارام گبھرائونہیں۔آپ بس دیکھتے جائو ۔ہم کیاکرنے والے ہیں‘‘۔
جامبورام نے دیدارام کودلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
پھرحسب ِ فیصلہ دس مارچ کوشیرگڑھ اورملحقہ علاقہ جات کے لوگوں کاایک جم ِ غفیر ڈپٹی کمشنرآفِس سے آدھاکلومیٹر نیچے کھیل کے میدان میں جمع تھا ۔بابانصیرنے ان لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا،
’’اب ہم یہاں سے پرامن طریقے سے احتجاج کرتے ہوئے حاکم ِضلع کے دفترکی جانب بڑھیں گے مگریادرہے کوئی بھی کسی قسم کی غیرقانونی حرکت یاتوڑپھوڑ کاارتکاب نہیں کرے گا‘‘۔
نصیربابا کے خطاب کے بعدلوگوں کاہجوم ایک سیل رواں کی مانندڈپٹی کمشنر آفس کی جانب بڑھنے لگا۔مظاہرین نعرے لگارہے تھے،
ہماری مانگیں پوری کرو۔ہماری مانگیں پوری کرو‘‘
مظاہرین میں کچھ سِرپھرے یہ نعرے بھی لگارہے تھے ،
’’جوہم سے ٹکرائے گا۔بڑاپچھتائے گا‘‘۔
پھر آدھ گھنٹے کے شورشرابے کے بعد مظاہرین ڈپٹی کمشنرآفس کے قریب تھے۔نصیرباباآگے آگے تھے۔وہ اپنی دھن میں آگے ہی آگے بڑھتے جارہے تھے۔یکایک انہوں نے محسوس کیاکہ پیچھے آنے والے لوگوں کے نعروں کاشور ہوتے ہوتے کم ہوگیاتھا۔ انہوں نے جلدی میں پیچھے مڑکردیکھاتومظاہرین الٹے پائوں واپس لوٹ رہے تھے۔چندایک نے دوسروں کوروکنے کی کوشش کی توجامبو خان کہنے لگا،
’’یہ نصیرباباہم جیسے سیدھے سادھے لوگوں کواپنے کسی خاص مقصدکیلئے استعمال کرنے جارہاہے ۔عوامی کاموں کے پردے میں اپنااُلّوسیدھا کررہاہے۔ چلولوگو واپس چلو۔ آخرہم اس کیلئے بلی کابکرابنیں بھی توکیوں‘‘۔
صغیرچوہدری نے جامبوخان کوٹوکناچاہاتو دیدارام بھڑک اُٹھا ۔کہنے لگا،
’’کیاکبھی مرحوم دلیرخان نے غلط کہا ۔کیاآپ اُس کے بیٹے سے کسی غلط بیانی کی توقع کرسکتے ہیں ۔نہ باباتوبہ توبہ ۔ ایسانہیں ہوسکتا،ایساسوچنابھی پاپ ہے‘‘۔
ابھی دیدارام نے اپنی بات ختم بھی کی نہیں تھی کہ اکثرلوگ جاچکے تھے بس چندگنتی کے لوگ نصیربابا کے آس پاس رہ گئے تھے۔نصیربابانے جب یہ سب دیکھا تووہ سکتے میں آگئے مگرجلدی ہی انہوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔وہ فرمارہے تھے ،
خیر میرے لیے یہ واقعہ کسی بڑھے دُھچکے سے کم نہیں ۔سچ کہوں تومیں یہ گِرگٹی چال دیکھ کرلمحہ بھرکیلئے حواس باختہ ہوگیاتھالیکن خداکاشکرہے کہ جلدی ہی میرے حواس بحال ہوگئے۔جوکچھ ہوا میں اِسے رضائے الٰہی سمجھ کرقبول کرتاہوں۔ایسے واقعات میں اہل ِ فراست کے لئے بڑاسبق ہے۔جوایسے واقعات سے سبق نہیں لیتے وہ عمربھرٹھوکریں کھاتے اورپچھتاتے ہیں‘‘۔
ابھی وہ بمشکل یہی تک کہنے پائے تھے کہ صغیرچوہدری نے بیچ میں ہی پوچھ لیا،
’’بابااس میں سبق کیاہے ؟‘‘
’’سبق یہ ہے کہ منافقوں کی رفاقتوں اوربزدلوں کی عداوتوں سے بچو۔بے حس کی سخاوت اوربے غیرت کے رابطوں سے بچو۔اپنوں کی رقابتوں اورہمسائیوں کی شرارتوں سے بچو۔اگرنہ بچ سکے توایک دن میری طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔
ابھی وہ یہاں تک ہی بول پائے تھے کہ آوازِگلوگیرہوگئی ۔جذبات کے ہیجان سے اُن کاگلہ بھاری ہوگیاتھا۔اب کچھ مزیدبولناممکن نہیں تھااور پھراِس کے ساتھ ہی انکی آنکھوں سے چندآنسوٹپ ٹپ گرکرسامنے پڑی خشک مٹی میں جذب ہوگئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا