یہاں آنے والے لوگوں کی سڑک پر سونے سے اْتر جاتی ہے خال، ارباب اقتدار پر اْٹھ رہے ہیں کئی سوال
چودھری بشیر اْنجم
رام بن؍؍مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر پر مرکزی سرکار کی جانب سے ترقی کے کئے جارہے جھوٹے دعوئوں کی پول کھول رہا یہاں کا نظام گواہی دیتا ہے کہ یہاں کس قدر ترقی ہو رہی ہے یہاں کا نظام کس قدر بدل رہا ہے، لوگوں کی مشکلات کو کس طرح سے دور کیا جا رہا ہے، روزگار کے مواقع کس طرح سے فراہم کئے جا رہے ہیں، جموں و کشمیر کے سیاحتی مقامات پر نظر دوڑائی جائے تو سرکاری دعوے کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔ ضلع رام بن کے سب ڈویژن گول میں پنچائت داڑم بی کا تتا پانی چشمہ جو قدرتی شِفاء سے مالامال ہے جموں و کشمیر کے علاوہ بیروں ریاسوں سے لوگ قدرت شِفاء سے مستفید ہونے کی غرض سے یہاں آتے ہیں لیکن اس تتا پانی کے مقام پر بنیادی ڈھانچے کا حال بے حال ہے نہ تو یہاں رات کو ٹھہرنے کی جگہ، نہ پینے کا صاف پانی، نہ صاف صفائی کا خیال اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو تتا پانی سے موٹاپا اور جوڑوں کا درد دور ہو جاتا ہے۔ کرگل کی وادی ارئیان سے آئے ہوئے ایک شخص ریگزن گرمیتھ کے مطابق تتا پانی کی پانی سے مسلسل تین سے چار دِن نہانے سے فائدہ ملتا ہے لیکن یہاں رْکنے کیلئے سرکار کی جانب سے کوئی بھی انتظام نہیں ہے، یہاں آنے والے لوگوں کو کھلے آسمان تلے رات بسر کرنی پڑتی ہے۔ اگرچہ مقامی لوگوں نے مقامی سطح پر یہاں مسافروں کیلئے رات گزارنے کے انتظامات کئے تھے لیکن حْکام نے اسے سرکاری زمیں پر غیرقانوں قبضہ کے تحت منہدم کر دیا اور وقت کے آفیسروں نے یہ بتایا کہ جلد یہاں سرکاری طور انتظامات کئی جائینگے ۔اگرچہ مقامی لوگوں نے حْکام کے اس قدم کی سراہنا کی لیکن ابھی تک سرکار کی جانب سے کسی قسم کے انتظامات نہیں کئے گئے جبکہ سینکڑوں لوگوں کا روزگار اس تتا پانی سے جْڑا ہوا ہے لیکن سرکار کا سوچھ بھارت بھی تتا پانی کے ارد گرد صاف صفائی میں مددگار ثابت نہ سکا نہ پینے کا صاف پانی نا ہی بیت الخلا ۔مجموعی طورپر تتا پانی کا حال بے حال ہے لوگ ہیں آتے تو ہیں لیکن یہاں بہتر سہولیات نہیں مل رہی جس وجہ سے لوگوں کا یہاں آنا روزبروز کم ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں کا یہاں آنے میں کمی ہونا مطلب تتا پانی کے مقام پر بے روزگاری بڑھنے کو دعوت دینے کے موافق ہے جس کی ذمہ داری وقت کے آفیسران و سرکار پر عائد ہوتی ہے کہ وہ یہاں بہتر انتظامات کرے تاکہ لوگوں کا یہاں آنے کا سلسلہ بڑھتا جائے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوتے جائے۔