غلام حسین ملک : لائف ٹائم ایچومنٹ ایوارڈ سے سرفراز انسپائر بھلیسہ نے بھلیس کے آسمان سے ستاروں کو ایک ساتھ زمین پر اتار ا

0
0

ڈاکٹر ذاکر ملک بھلیسی
(9622124432)
12ستمبر 2021کے روز جھکیاس میں انسپائر بھلیسہ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بھلیس کے 20ایسے لوگوں کو اعزاز عطا کیا جو واقع اس کے مستحق تھے۔ جن لوگوں کو اعزازات عطا ہوئے ۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد میر، ماہر ِامراض کوحاجی غنی پوری ایکسلنسی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ ان کے علاوہ دل میر چودھری کو بہترین آفیسر کے ایوارڈ سے نوازہ گیا جبکہ ڈاکٹر فاروق سلیم کو بہترین ڈاکٹر کے خطاب سے نوازہ گیا۔ اس تقریب میں غلام حسین ملک کو لائف ٹائم ایچومنٹ ایوارڈ سے نوازہ گیا۔ ان کے علاوہ جن دیگران کو اعزاز عطا کیا گیا ان میں کنچہ گائوں کے دین محمد، گیولباڑ کے محمد ایوب شیخ، محد اقبال بٹ، شاہ دین میر، ہرنام سنگھ، مجاہد حسین، مولانا بشارت، سرپنچ بلدیو سنگھ، سجاد احمد ملک، صحافی اشتیاق ملک، سنتوشا دیوی، نیازہ بیگم، وسیم اکرم ملک، جان محمد ملک پی ایچ ای ڈیلی ویجر، محمد اسحاق بٹ، ڈرائیور عبد القیوم اور ریاض مصیب خان بہترین شاعر شامل ہیں۔ جبکہ مرحوم رانا پریم سنگھ اور مرحوم عبد المجید بٹ کو بعد از مرگ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
انسپائر بھلیسہ کے چیئرمین ڈاکٹر فرحت ملک کی سربراہی میں منعقدہ اس اعزازی تقریب میں پہلی بار بھلیس کے ستاروں کو ایک ساتھ میں زمین پر اترتے دیکھا گیا جو اس پروگرام کی سب سے بڑی کامیابی مانی گئی۔ بھلیس کے دانشوروں کی موجودگی سے اس پروگرام کی اہمیت و افادیت بڑھ گئی۔ تنظیم کے جنرل سیکریٹری شاہنواز احمد اور ترجمان محمد اسحاق عارف کی انتھک محنت رنگ لائی ۔ سب سے بڑی بات اس پروگرام کی یہی تھی کہ غیر جانبدارای سے کام لیکر ان لوگوں کا انتخاب کیا گیا تھا جنھوں نے واقعی اپنے اپنے شعبوں میں اہم کارنامے انجام دئے۔
ان شخصیات میں ایک شخصیت میرے والد محترم جناب غلام حسین ملک بھی تھے جو اپنا تخلص درد پیامی کرتے ہیں اور یاد ماضی نام سے ان کی ایک کتاب پہلے ہی منظر عام پر آچکی ہے۔ انہیں پہلے ہی فخر ببھلیسہ کا خطاب حاصل ہوا ہے اور حال ہی میں ان کا ایک گانا گلزار ہے بھلیسہ کو کفاعت فہیم نے گا کر دنیا کے سامنے ایک نئے انداز میں پیش کیا جس کی سراہنا کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ نے جناب غلام حسین ملک کو اعزاز بھی عطا کیا۔ حالانکہ جناب غلام حسین ملک علیل ہیں اور وہ چل پھر نہیں سکتے لیکن حاجی غنی پوری کے تئیں ان کی عقیدت نے انہیں اس پروگرام میں شرکت پر مجبور کیا اور وہ خود بھی جھکیاس پہنچ گئے جہاں سے کئی برس پہلے انھوں نے بطور استاد اپنا کیریر شروع کیا تھا۔
جناب غلام حسین ملک کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ 30طلباء کو تعلیم کے نوز سے منور کرچکے ہیں ۔ 18فروری 1942 کے روز وہ محترم المقام محمد مقبول ملک و محترمہ زینب بیگم کے گھر میں پیداہوئے۔ والدین نے نام غلام احسن رکھا لیکن بعد میں ریکارڈ میں غلام حسین کے طور پر درج کرایا گیا۔ ان کے 4بھائی اور2بہنیں ہیں۔ والد ہنر مند مزدور تھے اور انہیں بھلیسہ کا پہلا ٹیکنیکل انجینئر بھی کہا گیا ہے ۔ خود دن بھر مزدوری کرتے لیکن دل میں ایک آرزو تھی کہ بچوں کو تعلیم دلاکر بہتر زندگی کیلئے تیار کیا جاسکے اور اسی غرض سے جناب غلام حسین ملک کو بیسک سکول کلوتران میں داخل کیا گیا ۔ اُس وقت اسکول میں کاہل جوگاسر گائوں کے ٹیچر جناب انیرودھ ، گاٹھا بھدرواہ کے جناب گل شیر خان، بھدرواہ کے ماسٹر جناب گھمبیر چند اور کشتواڑ کے ماسٹر جناب پدم ناتھ تعینات تھے جو بچوں کیساتھ شفقت کیساتھ پیش آتے تھے ۔ ابتدائی دور میں ان کے کلاس فیلو جناب عبد الستار راتھر رہے

سال1954میں بیسک سکول کلوتران کو ترقی دیکر ہائی سکول بنایا گیا تھا اور چھٹی جماعت کے بعد میں نے انھوں نے اسی سکول میں دسویں کا امتحان پاس کیا ۔اپنے آبائی علاقے سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد پورے ضلع میں انٹرمیڈیٹ کالج بھدرواہ میں تھا ۔ بھدرواہ بھلیس علاقہ کا تحصیل صدر مقام بھی تھا ۔ دشوارگزار راستوں سے بھدرواہ پہنچ کر انٹرمیڈیٹ کالج میں داخلہ لیا ۔پہلے سال کالج ہوسٹل میں گذارا لیکن دوسرے سال بھدرواہ کے گاٹھا علاقے میں ایک فرشتہ صفت انسان جناب عبد الحمید ، ریٹائرڈ نائب تحصیلدار نے انہیں اپنے بچوں کی طرح شفقت دی اور اپنے گھر میں جگہ دی۔
بھدرواہ کے کالج میں اس دور میں جناب عبد العزیز بٹ صاحب کالج کے پرنسپل تھے جو بھلیس سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔ بھلیس کے ایک قابل معلم جناب غلام رسول آزاد نے بھی انہیں بی ایڈ میں پڑھایا جو بی ایڈ کالج کے پرنسپل بھی تھے۔ کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مئی 1962میں ان کی شادی سوتی گائوں کے محترم عبد الغفار ملک کی بیٹی محترمہ مرسہ بیگم سے ہوئی ۔
شادی کے 3ماہ بعد جموں کشمیر سرکار نے ان کے نام ستمبر1962میں سائنس ٹیچر کا آرڈر جاری کیا۔ اس دور میں کالگونی ایک سکول میگزین نکلتا تھا اور وہ اس کے ایڈیٹر چنے گئے جس میں بہترین مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس خطے کا یہ پہلا شائع ہونے والا کوئی میگزین تھا جو اردو اور انگریزی میں ہوا کرتا تھا۔ معلمی کے دور میں اس وقت کے مرکزی وزیر جناب غلام نبی آزاد ان کے شاگرد رہے۔ سرکاری ملازمت ملنے کے بعد بھی انھوں نے بی اے کی ڈگری جموں کشمیر یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ بی ایڈ کی ڈگری گورنمنٹ بی ایڈ کالج جموں سے حاصل کی ۔ اور پھر انگریزی مضمون میں ایم اے بھی کرلیا۔
1967میں انہیں ۴ ماہ کیلئے ٹرینگ پر بھیج دیا گیا جس کے بعد انہیں لور ہائی سکول سنو میں تعینات کیا گیا اور ایک سال وہاں ڈیوٹی دینے کے بعد ہائی سکول کلہوتران واپس لایا گیا لیکن 1974میں انہیں سرکار نے ترقی دے کر نیا گریڈ دیا اور ساتھ میں ہائی سکول چھاترومیں تعینات کردیا جہاں انہوں نے صرف ایک ہی دن ڈیوٹی دی۔ دوسرے روز بھلیس سے انہیں واپس لانے کی آواز اٹھائی اور اسی دن سرکار نے ان کی ٹرانسفر ہائی سکول جکیاس میں بطور سائنس ٹیچر کی لیکن اس اسکول میں وہ سائنس کے علاوہ میتھا میٹکس، انگریزی، فارسی اور اردو مضمون بھی میٹرک کلاس کو پڑھانے پڑے ۔ 1978میں انہیں ہیڈماسٹر کے طور پر ترقی دے کر مڈل سکول بھرتی تعینات کیا گیا لیکن اسی سال سرکار نے ترقی دے کر انگریزی کا لیکچرار بنایا اور پہلی بار ہائر سکینڈری سکول بانہال میں تعینات کردیا ۔ فروری 1982 میں ہائر سکینڈری سکول کلہوتران سے مانگ آئی تو سرکار نے انہیں اس ہائر سکینڈری سکول میں تبادلہ کردیا اور1987میں سرکار نے انہیں ترقی دے کر سینئر لیکچرار تعینات کیا۔ 1990میں ان کی ٹرانسفر ہائر سکینڈری سکول بوائز کشتواڑ کردی گئی جہاں سے دوبارہ 1994میں واپس ہائر سکینڈری سکول کلہوتران لایا گیا اور پھر 29 فروری 2000 کو جس سکول سے ملازمت کا آغاز کیا تھا اسی سکول سے سبکدوش ہوگئے۔ اپنی ڈیوٹی کے زیادہ تر اوقات انھوں نے بھلیس میں ہی گذارے اور بھلیس کا شاید وہ کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں جو ان کا شاگرد نہ رہا ہوگا۔ ایک خاندان میں دادا اور پھر اس کے پوتے کو بھی انھوں نے پڑھائے جس کی وجہ سے انہیں استادوں کا استاد بھی کہا گیا۔
میرے والد کے پاس بڑا گھر نہیں ، گاڑی بنگلہ بھی نہیں خرید سکے، زمین بھی نہیں خرید سکے، لیکن بھلیس اور بھلیس سے باہر موجود طلباء کی وہ جائیداد ان کے پاس ہے جو آج بھی ان کا احترام کسی متبرک کتاب سے کم نہیں کرتے۔
اردو کے ساتھ ان کی رغبت نے اردو شاعری کیساتھ ان کی دلچسپی پہلے سے ہی بڑھائی تھی اور کل ملا کر انھوں نے خود50کے قریب غزلیں و نظمیں لکھیں۔ اس وقت ان کا گھر گندو میں ہے جہاں وہ 1992کے آس پاس رہائش پذیر ہوئے ۔
آج انسپائر بھلیسہ نامی تنظیم نے ان کو اعزات عطا کرکے ان کی خدمات کا احترام کیا ہے جس کیلئے انسپائر بھلیسہ مبارکبادی کے مستحق ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا