عالمی وبائی مرض کرونا وائرس کی تیسری لہر پھوٹ پڑنے کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ تیسری لہر آئے گی یا نہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وبائی مرض کو شکست دینے میں سب سے اہم احتیاطی تدابیر ہیں جن کے اپنانے سے اس وائرس کو شکست دی جا سکتی ۔حالانکہ وطن عزیزمیں دنیا کی ایک بڑی ویکسینیشن مہم بھی زوروں پر ہے جہاں عوام کو کرونا مخالف ٹیکہ کاری کی جا رہی ہے۔ مارچ ۰۲۰۲ئ میں سب سے پہلے کرونا وائرس کی کاطر لاک ڈائون لگایا گیا جہاں ملک کو پانچ مراحل میں لاک ڈائون سے گزرنا پڑا ،پھر کچھ عرصے کیلئے نرمیوں کا سلسلہ شروع ہو ا لیکن ایک وقت ایسا آیا جہا ں ملک میں چار لاکھ سے زائد مثبت معاملات یومیہ آنے لگے اور ہزاروں میں اموات ہونے لگی۔جموں وکشمیر میں دسویں اور بارھویں جماعت کے طلباء کی تعلیم کا مد نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ کی جانب سے ایس او پیز ،ویکیسن اور ٹیسٹ جیسے معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کا سلسلہ بحال کرنے کی بات کی گئی ۔اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ سلسلہ کتنا کامیاب ہوتا ہے یا پھر کیسوں میں اضافہ ہو گا ۔اگر کرونا وائرس کا شکت دینے ہے تو اس میں سب سے اہم احتیاطی تدابیر اور ویکسین ہیں جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں۔انتظامہ کو چاہئے کہ طلباء کی تعلیم کے ہو رہے نقصان کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی خاص اور موثر قدم اٹھائے تاکہ کرونا وائرس کے مثبت معاملات میں اضافہ بھی نہ ہو اور طلباء کی تعلیم کا سلسلہ بھی رواں ہو سکے۔عدالتیں کھل چکیں،کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں ،بازاروں میں بھیڑ نظر آرہی ہے یعنی زندگی کی رفتار پٹری پر لوٹ رہی ہے اور اس دوران بھی تعلیمی ادارے متاثر ہیں جس کی جانب فوری توجہ دینے کی از حد ضرورت ہے کیونکہ طلباء کی بنیاد چھوٹی کلاسوں پر دار و مدار رکھتی ہے اور اگر انہی کلاسوں میں پرموٹ کا سلسلہ چلتا رہا تو مستقبل میں طلباء کو تعلیمی میدان میں کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس کے معاملے میں لاپرواہی کی کوئی گنجائش نہیں لیکن سب معاملات میں احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے تعلیم کی ریل کو بھی پٹری پر لانے کی ضرورت ہے ۔انتظامیہ کو چاہئے کہ طلباء کے ہورہے تعلیمی نقصا ن کے پیش نظر موثر اور بروقت اقدمات کئے جائیں تاکہ مستقبل تاریک کے بجائے روشن اور سنہرہ ہو۔