عُبید اَحمد آخون ساکنہ پاندریٹھن سرینگر حال اومپورہ ہاؤسنگ کالونی, کالم نویس Dd Target PMT Parraypora میں Edp Head اور Councilor ہیں.
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
ہم استاد کسے کہیں ہماری نظر میں استاد کون ہے اورکیا استاد ہم ہر ایک کو کہہ سکتے ہے، استاد پر کون کون سی زمہ داریاں عائد ہوتی ہے یہ کچھ ایسے سوالات ہے جن کی طرف ہماری توجہ آم طور پر یومِ اُستاد منانے کے دن ہی زیادہ گردش کرتی ہے.
اُستاد ہی بس ایک ایسا پیشہ ہے جس کی وجہ سے اور بہت سارے پیشے وجود میں آتے ہیں
دنیاں میں جتنے بھی رشتے ہے ان سب میں سے مقدس رشتہ استاد اور شاگرد کا مانا جاتا ہے دونوں رشتے اُس وقت تک ترقی نہیں کرتے جب تک دونوں طرف سے ادب اور احترام نہ ہو
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
دنیاں میں بہت سارے انسانی رشتے ہوتے ہے جن میں کچھ رشتے خون کے ہوتے ہیں اور کچھ روحانی رشتے ہوتے ہیں، ان ہی رشتوں میں سے ایک اُستاد کا رشتہ ہے، اسلام میں استاد کا رشتہ ماں باپ کے برابر ہے کیو نکہ یہ استاد ہی ہے جو والدین کے بعد اصل زندگی کے معنی سکھاتے ہے، ہمیں زندگی جینا سکھاتے ہیں حق اور ناحق میں فرق کرنا سکھاتے ہیں. . اُستاد کی اہمیت میں پیارے نبی نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بیجھا گیا تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے استاد کا مرتبہ کتنا بلند ہیں کہ نبی کریم اپنی تعریف خود کو مُعلم بتا کر کر رہے ہیں نبی کریم ہم سب کو علم سکھانے کے لئے اس دنیا میں آئے لہزا وہ ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور استاد کے نظریہ سے ان کی شان و عزت اور بھی بڈھ جاتی ہے ایسا رتبہ ایسا مقام ہے استاد کا.
والدین بھی بچے کے استاد ہی ہوتے ہے بچہ بلوغت کی عمر تک اپنے والدین سے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ان کے کردار میں بھی خاصا نمایا نظر آتا ہے.
اُستاد اور دور ِ جدید
تدریسی پیشہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے مسلسل محنت ، upto date knowledge ، لگن ، جذبہ ، اخلاقیات ، انسانیت ، شعور ، روحانیت ، اور پرسکون انسانی رویے کی ضرورت ہے، اُستاد دوسروں کو وہی علم وہی آگاہی فراہم کرسکتا ہے جس پر اُسے خود دسترس حاصل ہو.
دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم کا بھی موجودہ دور میں خاصا خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ علم بغیر اخلاقی تعلیم شجر بے ثمر کی طرح ہے۔ وہ سعی لاحاصل کی طرح ہے۔ وہ کاوش بے نتیجہ کی طرح ہے۔ صرف حرف شناسی، کردار سازی نہیں۔ علم کا خُمار سر پر رکھ کر بھی انسان بدتمیز زمانہ ہی رہتا ہے۔ کتابوں کو دیمک کی طرح چاٹ کے بھی بدخلقِ دھر ہی رہتا ہے۔ جو علم، تغیر اخلاق و تطہیر کردار کا باعث نہیں وہ ذہنی عیاشی تو ضرور ہے لیکن نتیجہ خیزی نہیں۔ قرآنی موضوعات میں مرکزی موضوع تعلیم الاخلاق ہے۔ کثیر آیات مقدسہ کا موضوع تشکیل کردار اور تجسیم اخلاق ہے۔
یوں تو اُم الکتاب میں 6236 آیات مقدسہ ایجابی اقدار (Positive values) یا منفی اقدار (Negative Values) کے متعلق ہیں۔ مگر ہر دو صورتوں میں حاصلِ تعلیم اخلاق ہے۔ ’’اخلاق الانبیاء والصالحین‘‘ موضوعات قرآنیہ میں اہم ترین موضوع ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہے
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے دو کف جو!!!
تصور علم، تصور اخلاق کے ساتھ مربوط ہے۔ وہ علم جو صرف شکم پری کے لئے ہو بلند معیار زندگی کے لئے نہ ہو یعنی علم برائے معاش ہو وہ زہر ھلاہل ہے، وہ سم قاتل ہے۔ آپ جس علم کے داعی ہیں وہ انسان ساز، اخلاق ساز، کردار ساز ہونا چاہیے ۔
دورِ حاضر
دورِ حاضر میں ہم نے ایسے سرکاری اساتذہ کے بارے میں بھی بہت پڈھا اور سُنا جنہیں معمولی درخواست تک لکھنا نہیں آتا، پر اس کے باوجود بھی وہ موٹی موٹی تنخواہ لے کر اس عظیم پیشہ کے ساتھ وعدہ وفا نہیں کر رہے ہیں . ہم نے اس وباہی بیماری میں ایسے بھی اساتذہ دیکھے جو کم و بیش پچھلے تین سالوں سے گھر پر آرام سے بیٹھ کر مفت کی تنخواہ لے رہیں ہے،اور آج وہ بھی فخر سے ٹیچرس ڈے منا رہے ہیں اور ہم نے ایسے بھی اساتذہ دیکھے جو Covid-19 میں ڈاکٹروں کے شانہ بہ شانہ کام کر کے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے اور اپنی تنخواہ کا حق بھی ادا کر رہے تھے اور ہم نے ایسے اساتذہ بھی دیکھے جو گھر گھر جا کر بچوں کو تعلیم مُہیا کرا رہے تھے ایسے اُستاد قابلِ تحسین، قابلِ احترام اور قابلِ زکر ہے جنہوں نے سرکاری اسکول کا تعلیمی معیار اونچائی کی منزلیں عبور کرنے میں اپنا کلیدی رول ادا کیا ہو، ورنہ بیشتر یہی دیکھا گیا ے کہ سرکاری اساتذہ کے اپنے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیحات دیتے ہے اور آم طور پر سرکاری اسکولوں کا امتحانی نتائج بھی کابل فخر نہیں ہوتا جس کے پیچھے بہت سارے وجوہات کار فرما ہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری اساتذہ اپنا بیشتر وقت اور صلاحیت پرائیویٹ کوچنگ انسٹیٹیوٹس میں دیتے ہے اور وہی جزبہ پھر سرکاری اسکولوں تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتا ہے..
اساتذہ کو جدید تعلیم کے ساتھ آراستہ کرانے کے لئے اِن سروس ٹریننگ کورسز کو متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اساتذہ بچوں کو جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے روشناس کرا سکے. اور حکومت کو چاہیے کہ اساتذہ کی زہانت کو پرکھنے کے لئے ہر سال بچوں کی طرح اساتذہ صاحِبان کا بھی امتحان کرایا جائے تاکہ تعلیم کا معیار سرکاری اسکولوں میں بھی بلند رہیں اور والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے کی طرف اپنی توجہ مبزول کرا سکے
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر مَلکوتی
خاکی ہُوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند