طالبان کی حکومت تسلیم کرنے سے امریکہ کا انکار سب نمائندگی کے بعد تسلیم کریں گے: روس
یواین آئی
کابل/واشنگٹن/روس؍؍حکومت سازی کے سلسلے میں تمام قیاس آرائیوں اور انتظام کے لمحے کو ختم کرتے ہوئے افغان طالبان نے اپنی نئی عبوری حکومت کااعلان کردیا ہے جس میں محمد حسن اخوندحکومت کے سربراہ ہوں گے جب کہ ملا عبدالغنی برادر ریاست کے معاون سرپرست ہوں گے۔یہ اطلاع طالبان نے آج ایک پریس کانفرنس میں دی ہے۔کابل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نئی حکومت کی تشکیل اور وزرا کے ناموں کا اعلان کیا۔انہوں نے بتایا کہ نئی حکومت کے سربراہ محمد احسن اخوند ہوں گے جبکہ ملاعبد الغنی برادر کو معاون سرپرست ریاست اور وزرا کا عہدہ دیا گیا ہے، اسی طرح مولوی محمد یعقوب مجاہد وزیردفاع، سراج حقانی کو وزیرداخلہ مقرر کیا گیا ہے۔ا نہوں نے بتایا کہ مولوی ملاہدایت اللہ وزیرماحولیات،ملاخیراللہ وزیراطلاعات ہوں گے، ملا امیرخان متقی وزیرخارجہ، شیخ نور اللہ منیر سرپرست وزارت معارف، قاری دین محمد وزیر اقتصادی امور ہوں گے۔افغان طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ نور محمد ثاقب وزارت حج و اوقاف، عبدالحکیم شرعی وزیر قانون، نوراللہ نوری وزیر سرحدی امور و قبائل، یونس اخونزادہ انٹیلی جنس چیف، شیخ محمد خالد کو دعوت و ارشاد کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔اسی طرح ملاعبد المنان فوائد و اعمال، حاجی ملا محمد عیسیٰ معدنیات وپٹرولیم کے وزیر ہوں گے۔انہوں نے بتایا کہ ملا برادر غنی اور مولانا عبدالسلام دونوں مولانا محمد حسن کے معاون ہوں گے جبکہ ملا عمر کے صاحبزادے محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ سراج الدین حقانی عبوری وزیر داخلہ، ملا امیر خان متقی وزیر خارجہ اور شیر محمد عباس استنکزئی نائب وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ملا خیراللہ خیرخوا وزیر اطلاعات ہوں گے اور قاری دین محمد حنیف وزیر اقتصادیات ہوں گے۔انہوں نے بتایا کہ فصیح الدین بدخشانی افغانستان آرمی کے چیف مقرر کردیے گیے جبکہ مولوی محمد عبدالحکیم شرعی افغان عدلیہ کے وزیر ہوں گے اور ہدایت اللہ بدری کو وزیر خزانہ کی ذمے داریاں نبھائیں گے۔اے آر آئی نیوز کے مطابق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہاکہ ’ہم نے مکمل کوشش اور مشاورت کے بعد سیاسی کابینہ تشکیل دی، ہماری پہلی ترجیح ملک میں قیام امن ہے، جس کیلئے مختلف اقدامات کیے ہیں، موجودہ کابینہ نگراں ہے اور عارضی طور پر اپنی خدمات انجام دیگی‘۔انہوں نے کہا کہ ’موجودہ کابینہ میں وقت کے ساتھ سا تھ اصلاحات لاتے رہیں گے، ذمہ داریاں وقتی طور پر دی جارہی ہیں، وزار اور کابینہ اراکین میں ردوبدل ہوسکتا ہے، نگراں کابینہ کا اعلان ملک میں فوری نئی حکومت کی تشکیل کے لیے کیا ہے، مستقل حکومت کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائیگی‘۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’آزادی سے متعلق ہونے والا کابل کا حالیہ مظاہرہ قانونی نہیں، اگر ایسے مظاہرے ہونے لگے تو ملک میں قیامِ امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کو مظاہرے کنٹرول کرنے کا تجربہ نہیں، ہماری اولین کوشش ہے کہ مظاہروں کے دوران شہر میں کسی بھی قسم کی بدنظمی نہ ہو‘۔انہوں نے کہا کہ ’اب جومظاہرے کیے جارہے ہیں وہ غیرقانونی ہیں، جب تک مظاہروں سے متعلق قانون نہیں بن جاتا عوام ان سے گریز کرے کیونکہ ایسے مظاہروں سے بیرونی ایجنڈے کا تاثر ملتا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی مداخلت سے متعلق پروپیگنڈا 20سال سے جاری ہے، ہمارے معاملات میں پاکستان سمیت کسی ملک کی مداخلت نہیں ہے، ہم نے اپنی آزادی کے لیے تقریباً پوری دنیاسے جنگ لڑی، کوئی ثابت نہیں کرسکتاکہ ہمارے اقدامات سے پاکستان کوفائدہ ہوا کیونکہ ہم نے طویل جنگ لڑی جس کے حالات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں‘۔مسٹر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’پنج شیرکامکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے، ہم کسی ایک قوم کی نمائندگی نہیں کرتے، ہمارے ساتھ تمام قومیت کے لوگ شامل ہیں، نگراں کابینہ کی تشکیل میں بھی تمام اقوام کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جس سے قومیت کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل کا تاثر غلط ثابت ہوگا‘۔انہوں نے کہا کہ ’پنج شیرمیں کچھ لوگوں کی جائیدادیں تھیں اور کچھ غربا تھے، لوگوں نے قوم کے نام پرجائیدادیں بنائیں تھیں، جس کی وجہ سے دیگر اقوام کے لوگ محرومیوں کا شکار تھے، آج ہونے والے مظاہرے میں پنج شیر کی جنگ روکنے کا مطالبہ کیا گیا، جب ہم جنگ جیت چکے ہیں تو پھر روکنے کا مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے‘۔وہیںافغانستان میں نئی عبوری حکومت کے قیام کے اعلان کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے فوری طورپرطالبان کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔اپنے بیان میں جو بائیڈن نے طالبان کی حکومت تسلیم کرنے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ کہا یہ بہت آگے کی بات ہے۔دوسری جانب روس نے کہا کہ افغانستان کی نئی حکومت میں سب کی نمائندگی ہو گی تو تسلیم کریں گے۔روسی وزیرخارجہ سرگئی لارووف نے کہا ہے کہ افغان طالبان جامع حکومت بنائیں، تمام اقلیتی گروہوں کو شامل کریں۔روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر طالبان نے ایسا کیا تو روس حکومت کو تسلیم کرنے اور یہاں تک کہ حلف برداری میں شرکت کے لیے بھی تیار ہے۔لارووف نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انھیں طالبان نے نئی حکومت کے اعلان کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔طالبان عہدیدار کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے اعلان کی تقریب میں روس کے علاوہ پاکستان، چین، ترکی اور قطر کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔