میت کو زبردستی دفن کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں: آئی جی پی کشمیر
یواین آئی
سرینگر؍؍حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی کو جمعرات کی علی الصبح حیدرپورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ کے نزدیک واقع قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔92 سالہ بزرگ رہنما کے خاندان کا الزام ہے کہ پولیس نے مرحوم کی میت اپنی تحویل میں لے کر انہیں ان کی وصیت کے برخلاف سری نگر کے تاریخی مزار شہدا کی بجائے حیدرپورہ کی جامع مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا۔کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی کی میت کو زبردستی دفن کرنے کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ سید علی گیلانی بدھ کی رات اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے۔ وہ طویل عرصے سے علیل اور زائد از ایک دہائی سے اپنی رہائش گاہ پر نظربند تھے۔گیلانی، جو قلب اور گردوں سمیت کئی عارضوں میں مبتلا تھے، کے خاندانی ذرائع نے بتایا: ‘گیلانی صاحب نے بدھ کی شام سینے میں شدید درد کی شکایت کی تھی جس کے بعد وہ رات کے قریب دس بجے انتقال کر گئے’۔جموں و کشمیر انتظامیہ نے گیلانی کے انتقال کے پیش نظر وادی بھر میں پابندیاں نافذ کر دی ہیں نیز تمام طرح کی انٹرنیٹ و فون خدمات منقطع کی گئی ہیں۔تاہم سرکاری مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) کی موبائل فون اور براڈ بینڈ خدمات کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔وادی کشمیر میں بارہمولہ سے صوبہ جموں کے بانہال تک چلنے والی ریل خدمات کو معطل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سری نگر – جموں قومی شاہراہ پر بھی گاڑیوں کی آمد و رفت معطل کی گئی ہے۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ احتیاط کے طور پر قومی شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد و رفت جمعرات کو روک دی گئی اور جمعہ کو بھی یہ شاہراہ بند رکھی جائے گی۔یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار، جس نے سری نگر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا ہے، نے بتایا کہ شہر کے تقریباً تمام علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے اور کئی سڑکوں کو خاردار بچھا کر بند کیا گیا ہے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے اضلاع بالخصوص شمالی کشمیر، جو گیلانی کا آبائی علاقہ ہے، کو سری نگر سے جوڑنے والی سڑکوں کو بھی جزوی طور پر بند کیا گیا ہے۔بعض علاقوں میں لوگ رات کے وقت مساجد میں جمع ہوئے اور نعرے بازی کی۔اطلاعات کے مطابق سخت سکیورٹی پابندیوں کے بیچ سری نگر سمیت وادی کے تمام اضلاع کے ضلعی و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں جمعرات کو ہڑتال کی گئی جس کے دوران دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آوا جاہی کلی طور پر بند رہی۔سید علی گیلانی کے فرزند ڈاکٹر نسیم گیلانی نے بتایا کہ ‘انتظامیہ نے گیلانی صاحب کی میت اپنی تحویل میں لے کر انہیں جمعرات کی علی الصبح حیدرپورہ کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا’۔انہوں نے کہا: ‘گیلانی صاحب نے وصیت کی تھی کہ انہیں مزار شہدا سری نگر میں دفن کیا جائے لیکن انہوں نے ہم سے میت چھین کر انہیں زبردستی نزدیکی قبرستان میں دفن کیا ہے’۔نسیم گیلانی نے کہا کہ ہم نے انتظامیہ کے اہلکاروں سے کہا تھا کہ ہمارے رشتہ داروں کو دور دراز علاقوں سے آنا ہے لہٰذا ہمیں گیلانی صاحب کی تدفین صبح دس بجے عمل میں لانے کی اجازت دی جائے۔انہوں نے کہا: ‘لیکن انتظامیہ نے رات کے تین بجے میت کو زبردستی اپنی تحویل میں لے کر ہم میں سے کسی کو بھی جنازہ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے خواتین کی فریادیں بھی نہیں سنیں اور میت کو لے کر چلے گئے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہمیں آج صبح دس بجے گیلانی صاحب کی قبر پر جانے کی اجازت دی گئی جہاں ہم نے فاتحہ پڑھی’۔ایک صحافی نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ کسی بھی صحافی کو گیلانی کی قبر کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔انہوں نے بتایا: ‘اگرچہ ہمیں ایئرپورٹ روڑ پر چلنے کی اجازت دی گئی لیکن حیدرپورہ مسجد کے احاطے میں داخل ہونے نہیں دیا گیا جہاں گیلانی کو دفن کیا گیا ہے’۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ کورونا وائرس کے پیش نظر گیلانی کے جنازے میں محدود تعداد میں ہی لوگوں کو شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔انہوں نے بتایا: ‘شرکا میں گیلانی کے بعض رشتہ دار اور پڑوسی شامل تھے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘پورے کشمیر میں حالات نارمل ہیں۔ کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔ سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد فون اور انٹرنیٹ خدمات کو بحال کر دیا جائے گا’۔کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے گزشتہ رات دیر گئے سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا تھا: ‘ہم لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یہاں آنے کی کوشش نہ کریں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘ان کے رشتہ داروں اور آس پاس کے لوگوں کو ہم جنازہ میں شرکت کی اجازت دیں گے’۔ایک رپورٹ کے مطابق گیلانی کے بھتیجے عبدالرشید شاہ اور ان کے بیٹے نے جنازے میں شرکت کی۔دریں اثنا کشمیر میں مین اسٹریم سیاست سے وابستہ کئی لیڈران بالخصوص محبوبہ مفتی اور سجاد غنی لون نے سید علی گیلانی کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی کی میت کو زبردستی دفن کرنے کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ درحقیقت پولیس نے میت کو گھر سے قبرستان تک لے جانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے کیوں کہ شرپسندوں کی جانب سے صورتحال کا غلط فائدہ اٹھانے کا خدشہ تھا۔پولیس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے وجے کمار کے حوالے سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے: ‘پولیس پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں’۔اس میں مزید کہا گیا ہے: ‘درحقیقت پولیس نے میت کو گھر سے قبرستان تک لے جانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ شرپسندوں کی جانب سے صورتحال کا غلط فائدہ اٹھانے کا خدشہ تھا۔ رشتہ داروں نے آخری رسومات میں شرکت کی ہے’۔قبل ازیں وجے کمار نے گزشتہ رات دیر گئے سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا تھا: ‘ہم لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یہاں آنے کی کوشش نہ کریں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘ان کے رشتہ داروں اور آس پاس کے لوگوں کو ہم جنازہ میں شرکت کی اجازت دیں گے’۔92 سالہ بزرگ رہنما کے خاندان کا الزام ہے کہ پولیس نے مرحوم کی میت اپنی تحویل میں لے کر انہیں ان کی وصیت کے برخلاف سری نگر کے تاریخی مزار شہدا کی بجائے حیدرپورہ کی جامع مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا اور تدفین کے عمل میں افراد خانہ کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔واضح رہے کہ سید علی گیلانی بدھ کی رات اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے۔ وہ طویل عرصے سے علیل اور زائد از ایک دہائی سے اپنی رہائش گاہ پر نظربند تھے۔گیلانی، جو قلب اور گردوں سمیت کئی عارضوں میں مبتلا تھے، کے خاندانی ذرائع نے بتایا: ‘گیلانی صاحب نے بدھ کی شام سینے میں شدید درد کی شکایت کی تھی جس کے بعد وہ رات کے قریب دس بجے انتقال کر گئے’۔