متعصب میڈیا کے خلاف جمعیۃعلماء ہند کی اہم پٹیشن پر چیف جسٹس حتمی بحث سننے کے لیئے تیار
لازوال ڈیسک
نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے ریگولیٹری میکانزم کے فقدان میں ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے ’فیک نیوز‘ کی اشاعت اور نشر یات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعرات کو مانا کہ تبلیغی جماعت معاملے میں میڈیا کے ایک طبقے نے خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دیاتھا ، جس سے ملک کی شبیہ خراب ہوتی ہے ۔چیف جسٹس این وی رمن کی سربراہی میں ایک ڈویژن بینچ نے کہا کہ بغیر کسی جوابدہی کے ویب پورٹل پر مواد پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نشر کر رہے ہیں۔ اس ملک میں ہر چیز کو فرقہ وارانہ زاویے سے دکھایا جاتاہے۔بنچ نظام الدین مرکز کے تبلیغی جماعت واقعہ کے دوران فرضی اور اور بدنیتی پر مبنی خبروں کے خلاف علماء ہند اور پیس پارٹی کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔بنچ نے کہا کہ یہ ویب پورٹل اداروں کے خلاف بہت برا لکھتے ہیں۔ عام آدمی کی بات تو چھوڑ دی جائے، ججوں کو بھی یہ نہیں بخشتے۔جسٹس رمن نے کہا کہ ایسے نام نہاد میڈیا ادارے وی آئی پیز کی آواز سنتے ہیں۔عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا اس سے نمٹنے کا کوئی طریقہ کار ہے؟ ۔چیف جسٹس نے کہا کہ مرکزی حکومت کے پاس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایک ریگولیٹر ہے ، لیکن ویب پورٹل کے لیے کچھ نہیں ہے اور حکومت کو اس کا حل تلاش کرنا ہو گا۔حکومت کی جانب سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے ، جنہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس میڈیا کے تقریباً حصوں پر پابندی لگانے کے لئے قانون موجود ہے۔گزشتہ سماعت کے دوران ، عدالت نے اشتعال انگیز ٹی وی پروگراموں پر روک نہ لگانے کے تعلق سے مرکز کی جم کر سرزنش کی تھی۔تفصیلات کے مطابق کروناوائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن جس میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی بنے ہیں پرآج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا نے حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنر ل آف انڈیا ایڈوکیٹ تشار مہتہ کی جانب سے دو ہفتوں کاوقت طلب کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ناراضگی ظاہر کی اور انہیں بتایا کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق آپ پہلے ہی چار مرتبہ وقت طلب کرچکے ہیں جس پر سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے کہا کہ انہیں مزید دستاویزات داخل کرنے ہیں جس کے لئے وقت درکار ہے۔چیف جسٹس آف انڈیا وی رمنا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ جس میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اے ایس بوپنا شامل ہیں کوسالسٹرجنرل تشارمہتہ نے مطلع کیاکہ حکومت نے اس ضمن میں کچھ پیش رفت کی ہے اور قوانین مرتب کیئے ہیں جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ اگر آپ یو ٹیوب چینل دیکھو گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ایک منٹ میں کیا کیا دکھایا جاتا ہے ، خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دینا چاہئے، اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔چیف جسٹس آف انڈ یا نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ایسا کوئی لائحہ عمل ہے جو اس پر روک لگا سکے یا اس کی فوری جانچ کرسکے؟ چیف جسٹس کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر ایڈوکیٹ تشار مہتہ نے کہا کہ حکومت نے میکانزم بنایا ہے اور قوانین میں ترمیم بھی کی ہے جس پر جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنایا گیا میکانزم کتنا کارگر ثابت ہوگا اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہوگا کیونکہ آج بھی نفرت پر مبنی رپورٹنگ بند نہیں ہوئی ہے ۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیئے کچھ مخصوص چینلوں نے محاذ کھول رکھا ہے جن پر قدغن لگانا ضروری ہے اور کرونا کے شروعاتی دنوں میں مرکز تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والے چینلوں پر کارروائی کرنا ہوگی تاکہ وہ مستقبل میں پھر ایسی حرکت نہ کریں۔ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے عدالت سے مزیدکہا کہ حکومت کی جانب سے کیبل ٹیلی ویژن نیٹورک قانون میں ترمیم کی گئی ہے لہذا انہیں اجازت دی جائے کہ وہ اس ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کرسکیں، ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے کی درخواست کو چیف جسٹس آف انڈیا نے منظور کرلیا اور چار ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ عمل میں آئی سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ محمد طاہرحکیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ عیسیٰ حکیم و دیگر وکلاء موجود تھے۔واضح رہے کہ گذشتہ سماعت پر عدالت نے مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کیا تھاجس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ لائیو ٹی وی شو کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے نیز کوئی بھی پروگرام نشر ہونے سے قبل روکا نہیں جاسکتاالبتہ پروگرام نشر ہونے کے بعد اگر شکایت درج کی جاتی ہے تواس کے خلاف کیبل ٹی وی نیٹ ورک قوانین کے تحت کارروائی کی جاتی ہے ۔مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے اس سے قبل سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا تھا کہ لائیو ٹی وی شو اور ٹی وی پر بولنے سے کسی کو روکنے کا مرکزی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ مرکزی حکومت نے چند ٹی وی چینلوں پر ایک ہفتہ تک خبریں اور پروگرام نشر کرنے کی پابندی لگائی تھی ۔ واضح ہوکہ جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے داخل پٹیشن پر ابتک متعدد سماعتیں ہوچکی ہیں لیکن گذشتہ چند ماہ سے کرونا کی وجہ سے سماعت نہیں ہوسکی تھی اور اسی درمیان سابق چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے سبکدوش ہوگئے تھے ۔ اب جبکہ حالات میں سدھار ہورہا ہے اور چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے اپنا چارج لے لیا ہے عدالت سے پٹیشن پر حتمی بحث کرنے کی گذارش کی گئی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی لیکن حسب سابق حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت سے وقت طلب کیا۔تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کوبد نام کرنے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن داخل کرنے کے بعد اور صارفین کی شکایت پر نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھاریٹی (NBSA) نے تین چینلوں ٹائمس نائو، ٹی وی 18اورسوارنا نیوز چینل پر ایک لاکھ کا جرمانہ عائد کیا تھاجبکہ زی نیوز ، آج تک اور دیگر چینلوں نے معافی مانگ لی تھی۔آج کی عدالتی کارروائی پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا چینلوں میں نفرت پر مبنی رپورٹنگ کرنے پر پابندی لگانے اور جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں بچاہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کئی معاملوں میں عدالتوں کے ذریعہ سرزنش کے بعد بھی میڈیا نے اپنا رویہ نہیں بدلاہے بلکہ پچھلے کچھ عرصہ سے ان کی اشتعال انگیز رپورٹنگ میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوچکاہے اس سلسلہ میں ہم باربار حکومت سے اپیل کرچکے ہیں کہ وہ ان بے لگام اور سرکش ٹی وی چینلوں پر لگام کسے مگر اب تک کچھ نہیں ہوا اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں اپنا حتمی فیصلہ صادرکرے ۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا کے آج کے تبصرے سے جس میں انہوںنے کہا کہ خبروں کو فرقہ وارنہ رنگ دینے کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے ہمیں توقع ہے کہ ہماری کوشش رائیگاں نہیں جائیگی اور ضرور انصاف ملے گا۔