تحریر منظور الحق منظور کلائیوی
فون نمبر 9419421962.*
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سماجی اور معاشی زندگی کو متوازن رکھنے کے لئے تمام آسمانی ادیان میں قرض حسنہ کو بہترین اجر و ثواب کا موجب قرار دیا تا کہ غریب امیر سے اس کی ضرورت سے زائد مال میں سے کچھ لے کر اپنا کاروبار چلائے یا پھر اپنی ضروریات کو پورا کرے اور محنت مشقت کر کے اصل رقم لٹا دے ، اور تا کہ امیر کو بھی اپنی اصل رقم ضایع ھونے کا ڈر نہ ھو ۔ایسی رقم یا مال غریب کی دنیوی غرض اور امیر کی اخروی ضروریات پورا کرتا رھے. اس حوالے سے بنی اسرائیل کے لئے جو احکامات دئے گئے ان کا تذکرہ قرآن پاک میں یوں ھوتا ھے ترجمہ:-"اور اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نےمقرر فرمائے اور اللہ تعالٰی نے فرما دیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالٰی کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں ، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی جو تم میں سے انکاری ھو جائے تو یقیناً وہ راہ راست سے بھٹک گیا”( سورہ المائدہ آیت نمبر 12) لیکن بنی اسرائیل نے بجائے قرض حسنہ کے نظام کو عام کرنے کے بنکنگ کا نظام متعارف کروا کر دینا بھر سے قیمتی معدنیات کا زخیرہ تو اپنے پاس جمع کر لیا لیکن سکون قلب، عزت و تکریم سے ہنوز دور سے زیادہ دور تر ھوتے چلے جا رھے ہیں۔ یہ ان کے لئے دنیا میں اللہ کا عذاب ھے اور آخرت کا عذاب تو اس سے کئی زیادہ ھے
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو بھی قرض حسنہ دینے کی ترغیب دلائی ھے اور غریب کو دئے جانے والے قرض کو اپنے لئے قرض کے طور پر بیان فرمایا ھے۔ چنانچہ فرمان الٰہی ھے ترجمہ:-” ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالٰی کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالٰی اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے ، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔(سورہ البقرہ آیت نمبر 245) اس آیت میں قرض حسنہ کے فوائد کا تذکرے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھائی گئی ھے کہ یہ امیری غریبی تمہاری اپنی نہیں بلکہ یہ اللہ ہی ھے جو کشادگی اور تنگی دونوں سے تمہیں آزماتا ھے*
*یہ سب باتیں سمجھانے کے بعد اب سوال پوچھا جا رہا ھے کہ ترجمہ:- "کون ہے جو اللہ تعالٰی کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالٰی اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لئے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے” (سورہ الحدید آیت نمبر 11) اس سوال کا جواب ہمیں خود اپنے اندر تلاش کرنا ھو گا کہ ھم اس کسوٹی پر کتنا کھرا اتر رھے ہیں۔ یہ بات بھی صحیح ھے کہ بنک سے اتنی آسانی سے سودی رقم مل جاتی ھو تو کوئی قرض حسنہ کا متلاشی کیوں ھو گا لیکن ھمیں یاد رکھنا ھو گا کہ قرآن و حدیث میں سودی کاروبار کے حوالے سے کتنی سخت باتیں وارد ھوئی ہیں( جنھیں میں مضمون میں طوالت کی وجہ سے بیان نہیں کر رہا ھوں ) یہ بات بھی ھے کہ سود پر رقم لینے کے عادی بن چکے لوگ قرض حسنہ کو کبھی بر وقت لٹانے کی کوشش نہیں کرتے جو رقم دینے والے کے لئے باعث تشویش عمل ھے۔ اس کے لئے بھی قرآن پاک ھماری رہنمائی یوں کرتا ھے:-
ترجمہ:-"اے ایمان والو !جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقررہ پر قرض کا معاملہ کرو ۔ تو اسے لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہئیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے ، کاتب کو چاہیئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالٰی نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہیے اور جس کے ذمّہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالٰی سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوادے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو ۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے اور گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو ، اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہے شک وشبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو اور ( یاد رکھو کہ ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے ، اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے”( سورہ البقرہ آیت نمبر 282) ھم سود پر بنک سے رقم حاصل کرنے کے لئے لمبی لمبی دستاویزات بنوانے کو تو غلط نہیں سمجھتے بلکہ ان دستاویزات کی تیاری کے لئے اپنی جیب سے زر کثیر خرچ کرنے یا رشوت تک دینے کے لئے تیار بیٹھے رہتے ہیں لیکن جب بھی کوئی قرض لینے کے عوض تحریر لکھ دینے کی بات کہہ دے تو ناراضگی مول لینے بات لگتی ھے۔
مندرجہ بالا نقاط کے پیش نظر ھمارے معاشرے میں قرض حسنہ لینے دینے کا رواج ختم ھو گیا ھے اور مجھے ڈر ھے کہ اللہ تعالیٰ ھمارے ساتھ بھی بنی اسرائیل جیسا سلوک نہ کرے۔ مجھے امید ھے کہ ھم میں سے ہر فرد اپنی ذمےداری کو نبہانا اپنے اوپر فرض سمجھے گا تا کے معاشرے میں قرض حسنہ کے لین دین کو عام کیا جا کر معاشی عدم استحکام کو قدغن لگائی جا سکے اور صہیونی اقتصادی نظام کے متبادل اللہ رب عزت کے نظام کو قائم کیا جا سکے۔ مجھے معلوم ھے کہ ھمارے معاشرے میں کچھ متوول لوگوں کے پاس کچھ وقت تک کے لئے کچھ رقم زائد از ضرورت پڑی رہتی ھے اور وہ ایسی رقم کو بنک میں سود خوری کے لئے نہیں بلکہ حفاظت کے لئے رکھتا ھے اور اگر اس کو بوقت ضرورت اپنی رقم واپس مل جانے کا یقین ھو جائے تو یقیناً وہ ان منافع بخش سودے کو ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ اس لئے وقت کی اھم ضرورت ھے ھم سودی نظام کے بدلے اپنے معاشرے میں قرض حسنہ کا رواج عام کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین حنیف پر چلنا ھم سب کے لئے آسان فرمائے آمین یا رب العالمین