مکیش اداکار بننا چاہتے تھے

0
0

(27اگست برسی کے موقع پر)
ممبئی، 26 اگست (یو این آئی) پلے بیک گلوکاری سے تقریباً 3 دہائیوں تک سامعین کو اپنا دیوانہ بنانے والے مکیش دراصل ہندی فلموں میں ایک اداکار کے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔
مکیش چند ماتھر کی پیدائش 22 جولائی 1923 کو دہلی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد لالہ زورآور چند ماتھر ایک انجینئر تھے اور وہ چاہتے کہ مکیش ان کے نقش قدم پر چلیں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ اس زمانے کے مشہور گلوکار و ادکار کندن لال سہگل کےبڑے پرستار تھے اور انہیں کی طرح گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔
مکیش نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول کو خیرباد کہہ دیا تھا اور دہلی پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ سرویئر کی نوکری کرلی تھی جہاں انہوں نے سات مہینوں تک کام کیا۔ اسی دوران اپنی بہن کی شادی میں گیت گاتے وقت ان کے دور کے رشتے دار اور مشہور اداکار موتی لال نے ان کی آواز سنی اوروہ ان سے کافی متاثر ہوئے۔ موتی لال 1940 میں مکیش کو بمبئی لے آئے اور اپنے ساتھ رکھ کر پنڈت جگن ناتھ پرساد سے انہیں گلوکاری کی تعلیم دلانے کا انتظام کیا۔
اسی دوران 1940 میں خوبرو مکیش کو ایک ہندی فلم ’نردوش‘ میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم میں انہیں موسیقار اشوک گھوش کے ہدایت کاری میں اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے ’دل ہی بجھا ہوا ہو تو‘ اپنا پہلا گیت گایا۔ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے بعد مکیش نے ’دکھ سکھ‘ اور ’آداب عرض ‘ جیسی دیگر فلموں میں بھی کام کیا لیکن وہ کوئی شناخت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔سال 1975 میں آئی چپکے چپکے رشی کیش کے کیریئر کی اہم فلم ثابت ہوئی۔ اس دور میں ایکشن سے بھرپور فلمیں بنائی جاتی تھیں لیکن رشی کیش نے اس روش سے ہٹ کرایک مزاحیہ فلم بناکر سب کو حیران کردیا۔ سال 1979 میں ان کی ایک اور مزاحیہ فلم ’گول مال‘ ریلیز ہوئی یہ فلم بھی سپرہٹ رہی۔
سال 1988 میں ریلیز فلم ’ناممکن‘ کے ناکام ہونے کے بعد رشی کیش مکھرجی کو محسوس ہوا ہے فلمی دنیا میں پیشہ ورانہ طرز کچھ زیادہ ہی حاوی ہوگیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے تقریباً 10 برس تک فلموں سے دوری اختیار کرلی۔
سال 1998 میں انہوں نے انل کپور کو لیکر ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘ بنائی۔ بدقسمتی سے یہ فلم بھی باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔
رشی کیش مکھرجی کو اپنے فلمی سفر میں سات بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1960 میں ریلیز ہوئی فلم ’انورادھا‘ کے لئے انہیں بہترین فلمساز کے نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلموں میں نمایاں تعاون کے پیش نظر انہیں فلمی صنعت کے سب سے بڑے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور پدم ویبھوشن سے بھی سرفراز کیا گیا۔
رشی کیش مکھرجی شمار بالی وڈ کے ان چند فلمسازوں میں ہوتا ہے جو زیادہ فلموں بنانے کے بجائےکم اوربہترین فلمیں بنانے میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے تین دہائیوں پر مشتمل اپنے فلمی سفر میں فلمسازی، ہدایت کاری کے علاوہ ایڈیٹنگ، کہانی اور اسکرین پلے جیسے شعبوں میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
تین دہائیوں تک اپنی فلموں سے ناظرین کو محظوظ کرنے والے عظیم فلمساز و ہدایت کار رشی کیش مکھرجی نے 27 اگست 2006 کو اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا