قوموں کی موت ہے مرکز سے جدائی۔۔۔

0
0

 

 

 

فیاض قریشی،بنگلور
9448785860
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مؤرخہ 10؍اگست 2021کے روزنامہ سالار کا اداریہ بعنوان ’’مسلمانوں کی اجتماعی قیادت‘‘ بہت خوب رہا۔ اس فکرانگیز اداریہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے پیشتر کہناچاہوںگا کہ کسی زمانے میں مشہور فلم پرڈیوسر، ڈائریکٹر، ایکٹر سہراب مودی کی فلم کا ایک ڈائیلاگ۔ ’’خوش قسمتی سے تمہیں اگر شیش محل بھی مل گیا تو کیا ہوا س میں رہنے کا سلیقہ تمہیں آناچاہئے۔‘‘ بہت مشہور ہواتھا۔ اس ڈائیلاگ کو ذراسی ترمیم کے ساتھ مسلمانوں کے لئے یوں کہاجاسکتا ہے۔’’خوش قسمتی سے تمہیں اگر اسلام مل بھی گیا تو کیا ہوا۔ اس پر چلنے کا سلیقہ تمہیں آناچاہئے۔‘‘
جہاں تک مسلمانوں کا اسلام پرچلنے کا سوال ہے کہاجاسکتا ہے کہ کیا عوام، کیا خواص، کیاقائدین، کیا واعظین ہر کسی کو اس بات کا اعتراف ہے کہ مسلمان اسلام پر اس سلیقے سے چل نہیں پارہے ہیں جس سلیقے سے چلنے کے لئے اسلام ان سے تقاضہ کرتا ہے۔ مسلمانوں کا اسلام پر سلیقے سے نہ چلنے کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر شعبۂ حیات میں چاہے وہ مذہبی ہو کہ سیاسی، تعلیمی ہو کہ معاشی یا پھر دیگر شعبہ جات ہر کہیں ناکام و نامراد ہوکر اس طرح بکھر گئے ہیں جس طرح پت جھڑ کے موسم میں ہوا کے دوش پر درخت کے پتّے شاخوں سے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ اس بکھرائو کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم قرآنی احکامات اور سیرت نبویؐ کے پیغام کو پس پشت ڈال دیا اور گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ نزولِ وحی سے متعلق تحقیق (Research) کم اور بزرگانِ دین کے اعمال اور اقوال پر جوکہ ان کے اپنے زمانے کے حالات، واقعات، ماحول اور تقاضوں کے پیش نظر ہواکرتے تھے اس پر زیادہ ہوئی اور ہورہی ہے، جبکہ بزرگانِ دین کا برملاکہنا ہے کہ ’’اگر ہمارے اعمال اور اقوال اسلام سے متعلق قرآن حکیم اور احادیث بنویؐ سے ٹکراتے ہوں تو بے شک ہمارے اعمال اور اقوال کو دیوار پر ماردیا جائے۔‘‘ مگر ہوا یہ کہ بزرگانِ دین کے معتقدین نے بجائے ان کے اعمال اور اقوال کو جو کہ قرآنی احکامات اور احادیث بنویؐ کے پیش نظر مسلمانوں کے درمیان نظریاتی ٹکرائو کا باعث بنے ہوئے تھے ان اقوال اور اعمال کو بجائے دیوار پر مارنے کے آپس میں ایک دوسرے پر مارنے لگے ایک دوسرے کو جہنمی کہنے لگے اور اپنے اپنے موقف میں اس قدر اٹل اور سخت گیرہوگئے کہ جس کی وجہ سے ہماری مسجد یں الگ، ہمارے مسلک الگ، ہمارے عقیدے الگ، ہمارے مکتب الگ، ہماری جماعتیں الگ، ہمارے آستانے الگ، ہماری خانقاہیں الگ، ہمارے فرقے الگ یہاں تک کہ ہمارے قبرستان تک الگ ہوگئے، اور سیاسی اعتبار سے ہماری پارٹیاں الگ، ہماری سوچ الگ، ہمارے نظریات الگ ہوگئے۔
ظاہر ہے کہ آپ اسلام کے تئیں کتنے ہی مخلص، کتنے ہی نیک نیت ہوکر اسلام پر جانثاری کا جذبہ رکھتے ہوں مگر اس کی پیروی اور سربراہی سے متعلق غلط اقدامات کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ کیوں نہ کئے گئے ہوں غلط نتائج ہی کی طرف لے جاتے ہیں، غلط اور پرپیچ حالات ہی پیداکرتے ہیں اور آج ملک میں مسلمان کس قدر غلط، پرپیچ اور خطرناک حالات کا شکار ہوچکے ہیں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس ضمن میں آپ کا اداریہ ’’مسلمانوں کی اجتماعی قیادت‘‘ امت مسلمہ اور خصوصاً قائدینِ امّت مسلمہ کی آنکھ کھولنے کے لئے بہت کارگر ہے۔
آپ کے اداریہ کے مطابق ملک میں مسلمانوں کے حالات کے پیش نظر دہلی میں مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ العلماء ہند، جماعت اسلامی ہند، سمیت مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور تنظیموں پر مشتمل امت مسلمہ کی اجتماعی قیادت سے متعلق غور وخوض ہوا اور کچھ پروگرامس طے ہوئے۔ مزید مسلکی اختلافات کے ساتھ تمام مسالک کو لے کر اجتماعی اتحاد پر بھی غور وخوض ہوا۔ مزیدلکھا ہے کہ قرآن حکیم کی سورۂ آل عمران میں ارشاد خداوندی ہے کہ ’’تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور تفرقوں میں نہ پڑو۔‘‘
اب سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ تفرقوں میں پڑے ہوئے مسلمان جب تک کہ تفرقوں سے توبہ نہیں کرتے اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تو کیوںکر تھام سکتے ہیں؟ جبکہ ان کا اپنا مسلک ان کے اپنے ایمان پر حاوی ہے، اب تو صورت حال یہ ہے کہ ایمان ہاتھ سے نکل جائے مسلمان کو اس کی پروا نہیں مگر مسلک ہاتھ سے نکل نہ پائے اس کے لئے ہر ہمیشہ خون خرابے کے لئے تیار رہتے ہیں بلکہ بسااوقات مسجدوں کو تک مسمار کردیتے ہیں۔ قبروں سے میتوں کو تک نکال پھنکتے ہیں۔ مسلمانوں میں پائے جانے والے ایسے عجیب کٹرپن حالات میں کیااجتماعی قیادت پنپ پائے گی۔ کیا مسلمان قرآنی احکامات اور احادیثِ نبویؐ کے پیش نظر اپنے اپنے ایجاد کردہ اور اختیار کردہ مسلکوں کو قربان کردیںگے اور قرآنی احکامات کے ساتھ سیرتی ہدایات پرچل پڑیںگے جوکہ اجتماعی قیادت کی کامیابی کے لئے اولین شرط ہے۔
ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ سن 1967میں جب ملک میں مسلمانوں کے حالات دگرگوں ہوگئے تھے حالات پرقابوپانے کے لئے ملک گیر سطح پر اجتماعی قیادت کے پیش نظر مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیاتھا جو کہ مسلم مسائل کے حل اور ملک میں مسلمانوں کے سیاسی استحکام کے لئے ایک زبردست تحریک تھی جسے ملک کے مسلم عوام کے علاوہ سیکولرذہن عوام کی بھرپور تائید اور حمایت ملی تھی اور امیدجاگ اٹھی تھی کہ ملک میں مسلمان اس اتحاد کے پیش نظر اپنے مسائل حل کریںلیںگے اور سیاسی اعتبار سے ملک میں اپنا لوہامنوالیںگے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ غیروں نے نہیں بلکہ تفرقوں میں پڑے ہوئے، کیا مذہبی اور کیا سیاسی قائدین سب نے اپنی اپنی اناپرستی اور خود غرضیوں کی خاطر اس زبردست تحریک کو پنپنے نہیں دیا بلکہ اسے روندڈالا۔ ورنہ اگر یہ تحریک قائدین کے ہاتھوںخلوص اور نیک نیتی کے ساتھ پروان چڑھی ہوتی تو یقینا ملک میں آج مسلمان اس دردناک عذاب سے نہ گزررہے ہوتے، جیسا کہ اب گزر رہے ہیں اور نہ ہی ان کی ایسی درگت بنی ہوئی ہوتی جیسی کہ اب بن چکی ہے۔
یقینا مایوسی کفر ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ مسلم قائدین کے درمیان حالات سے ڈرکر ہی سہی اجتماعی طور پر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی بات ہورہی ہے، یہ بات میرے خیال میں ملک میں مسلمانوں کے لئے ایک نئی صبح کے آغاز کی سی ہوسکتی ہے۔ خدا کرے کہ ایسا ہوجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علمائے کرام انبیاء کے وارث ہونے کے ناطے انبیائی حق اداکرتے ہوئے انہیں موجودہ حالات میں ملک کی امت مسلمہ کو متحد رکھنے کے لئے بہت بڑا، بہت اہم اور بہت ہی مثبت رول اداکرنا ہوگا، اور یہ رول ہمارے علماء حضرات اسی وقت ادا کرسکتے ہیں جبکہ وہ خود قرآنی احکامات و ہدایات اور سیرتِ رسولؐ کے پیش نظر مسلکوں کے جھنجھٹ بلکہ مسلکوں کے دلدل سے باہر نکلتے ہوئے ہاتھ سے ہاتھ نہیں بلکہ دل سے دل ملاکر ملک کے مسلمانوں کی قیادت اور رہنمائی کے لئے کمربستہ ہوجاتے ہیں۔
رہی بات ملک میں مسلمانوں کے لئے ایک قائد اور ایک جماعت کی تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ملک میں ایک جماعت اس وقت ایسی ہے جسے ملک کے تمام جماعتوں، مکتبوں، تنظیموں، اداروں دارالعلوموں کے علاوہ سیاسی اعتبار سے مسلم سیاست دانوں، وکلاء کے علاوہ مسلم دانشوروں کی زبردست تائید اور حمایت ہی نہیں بلکہ رہنمائی حاصل ہے، جسے ہم آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے جانتے ہیں اور بورڈ متحرک بھی ہے۔ جب اس بورڈ کو اجتماعی قیادت حاصل ہے تو پھر ملک میں مسلمانوں کی اجتماعی قیادت کی خاطر ایک اور ادارہ، یا جماعت، یا کونسل یا ایک اور بورڈ کی کیا ضرورت ہے؟ اگرمسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے اغراض و مقاصد میں تھوڑی سی ترمیم کر لے یا پھر تھوڑا سا اضافہ کرلے اور ملک کی ہر ریاست، ہرشہر، ہراضلاع بلکہ ہر علاقہ میں وہاں کے نیک مخلص اور درد مندحضرات پر مشتمل اپنی ایک شاخ قائم کرلے اور مسائل کے حل کے علاوہ ان کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کے اندرسیاسی شعور پیداکرنے میں جٹ جائے تو امت مسلمہ کے حق میں اس سے بہتر اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ اور اپنے پیغام کو پھیلانے کے لئے مساجد اور جمعہ کے خطبات بہترین ذریعہ ہوسکتے ہیں۔
اب بات رہی ملک میں امت مسلمہ کے لئے ایک قائد کی جس کا ذکر اکثرہوتاآرہا ہے ، اس سلسلہ میں عرض ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے اراکین میں سے ایک پرکشش، پراعتماد اور ہردلعزیز رکن کو بطور قائد چن لے جو کہ نہ صرف ملک میں مسلمانوں کے حالات پرگہری اور دردمند نظر رکھتا ہو بلکہ ملک کے حالات اور تقاضوں کے علاوہ ملک کے سیاسی حالات سے بھی اچھی طرح واقف ہو اور ایسا رکن جو وقت آنے پر ملّت پر قربان ہوسکتا ہو اور ملت اس پر قربان ہوسکتی ہو۔
ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ قوموں کی قیادت کے لئے قائدین آسمان سے نہیں ٹپکتے، قومیں قائد پیداکرتی ہیں۔ وقت آواز دے رہاہے کہ ملک میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے ، باعزت اور پروقار زندگی گزارنے کے لئے ساری ملّت ایک مرکز پر آجائے اور اپنے اندر ایک ایسا قائد پیداکرلے جو وقت آنے پر ملّت کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے آمادہ رہے اور اسی طرح ساری ملّت اس پر قربان ہونے کے لئے۔
کیا خوب کہا ہے علامہ اقبالؒ نے:
قوموں کی موت ہے مرکز سے جدائی
ہو جو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے خدائی
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا