👍گستاخ رسول پہ جس کا خون نہ کھولے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا !

0
0

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )

ایک بار حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ حضرت جبرئیلؑ علیہ السلام کچھ پریشان ہیں، آپ نے فرمایا: جبرئیلؑ! کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غمزدہ دیکھ رہا ہوں؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے محبوب خدا ! کل میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جہنم کا نظارہ کر کے آیا ہوں، اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرئیل! مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ! حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ: جہنم کے کُل سات درجے ہیں ، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا۔
اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈالیں گے۔
اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے۔
چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے۔
تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے۔
دوسرے درجے میں اللہ تعالی عسائیوں کو ڈالیں گے۔
یہ کہہ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: جبرئیل! آپ خاموش کیوں ہوگئے؟ مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی امت کے گنہگاروں کو ڈالیں گے۔
جب نبی کریم ﷺ نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جائے گا تو آپ بے حد غمگین ہوئے اور آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کی، تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے، نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکہ اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے۔۔۔۔۔ صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم ﷺ پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے؟ مسجد سے حجرے جاتے ہیں۔ گھر بھی تشریف نہیں لے جا رہے ہیں۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آئے۔۔۔۔۔ دستک دی اور سلام کیا؛ لیکن سلام کا جواب نہیں آیا۔۔۔۔ آپ روتے ہوئے سیدنا عمرؓ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا؛
لیکن سلام کا جواب نہ پایا؛
لہذا آپ جائیں! ہوسکتا ہے آپ کو سلام کا جواب مل جائے۔ آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا؛ لیکن جواب نہ آیا حضرت عمرؓ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھیجا؛ لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا۔ انہوں نے سوچا کہ جب اتنی عظیم شخصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نہیں جانا چاہیے۔ بلکہ مجھے ان کی نور نظر بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اندر بھیجنا چاہیے۔ لہذا آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سب احوال بتا دیا آپ حجرے کے دروازے پہ آئیں
” ابا جان! السلام علیکم” کہا
بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائنات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا۔۔۔۔۔
ابا جان! آپ پر کیا کیفیت ہے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہیں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جبرئیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جائے گی۔ فاطمہ بیٹی! مجھے اپنی امت کے گنہگاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ ان کو معاف کر اور جہنم سے بری کر۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا؛ یا اللہ! میری امت، یا اللہ! میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر، ان کو جہنم سے آزاد کر
کہ اتنے میں حکم آگیا: اے میرے محبوب! غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا
لوگوں اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کرے گا اور مجھے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جائے ۔۔۔۔۔۔
ہمارے نبی اتنے شفیق ، امت كے غم خوار ہیں لیکن بدلے میں ہم نے ان کے لئے کیا کیا۔۔۔؟؟
خیر آج اس حدیث مبارکہ کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ حال ہی میں دہلی کے جنتر منتر پہ مسلمانوں کے گلے کاٹنے اور مسلمانوں کا قتل کرنے جیسے نفرت انگیز نعرے لگوانے والا ہندو رکشا دل کا پنکی چودھری جس کے غنڈے دو سال قبل آدھی رات کو ہتھیار سے لیس جامعہ ملیہ میں گھس کر طلبہ کی پٹائی کرکے انہیں لہولہان کردیا تھا، اس کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہندؤوں کو بھڑکانے اکسانے کی کئی ویڈیوز اس کی سامنے آئی ہیں۔۔۔۔۔
باوجود ہم مسلمانوں نے اس کے خلاف ویڈیوز شیئر اور فارورڈ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔۔ بلکہ اس کی ہر گندی حرکت کو نظرانداز کرتے ہوئے خاموش رہے، اس نے ہمارے بچوں کی پٹائی کروائی تب بھی ہم نے چپی نہ توڑی ، خون کے گھونٹ پی گئے ۔۔۔۔ ہمیں کاٹنے قتل کرنے کی بات کی تب بھی ہم نے صبر اور برداشت کرلیا؛ لیکن اب نہیں ہرگز بھی نہیں۔۔۔۔۔ اب اگر مسلمان خاموش رہا تو وہ اس دور کا سب سے بڑا منافق کہلائے گا کیونکہ اب اس ملعون خبیث کے بچے نے تمام حدیں پار کردی ہیں اس نے جو حماقت کی ہے وہ قطعی معافی کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ آج اس نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے, آور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ پھر بھی وہ صحیح سلامت کھلے عام سانڈ کی طرح گھوم رہا ہے۔۔۔۔۔ ایسے میں مسلمانوں کی غیرت کہاں مرگئی ہے؟؟ وہ جوش ولولہ محبت کا جذبہ کہاں دفن ہوگیا ؟؟؟
ایک وقت تھا جب یوروپ ، فرانس دنیا کے کسی بھی کونے میں گستاخی کی جاتی تو ہندوستان کا مسلمان تڑپ اٹھتا تھا۔
کچھ سال قبل ایک پرنٹنگ پریس میں پرنٹنگ کے دوران محض ایک نقطہ کی غلطی ہوگئی تھی رحمت العالمین ٹائپ کرتے ہوئے رحمت کے جگہ زحمت لکھ دیا گیا یعنی ر کے اوپر غلطی سے نقطہ لگ گیا جو مسلمان برداشت نہیں کرپائے پھر جو ہوا وہ ساری دنیا دیکھتی رہ گئی،،،، دشمنان اسلام میں ایسا خوف طاری ہوگیا کہ ایک مدت تک کسی انگلی کسی زبان مین اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ حرکت کرے ۔۔۔۔۔۔
لیکن آج حکمت کے نام پہ ہماری خاموشی اور بزدلی نے ایک سڑک چھاپ کو بھی بولنے کا موقعہ دے دیا ہے۔۔۔۔۔۔
اور اب تو یہ اتنا عام ہوچکا ہے کہ پولس اور قانون کی نظر میں بھی یہ معمولی سی بات بن چکی ہے جس کا ذمہ دار خود مسلمان ہے اُس کی بزدلی ہے ۔۔۔
جبکہ سوشل میڈیا پہ دو کوڑی کے امت شاہ کو کوئی کچھ کہہ دے تو اُس پہ مان ہانی دفعات لگاکر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
اترپردیش میں بیٹھے اُس یوگی کے خلاف کوئی صحافی لکھ بول دے تو اُس کا قتل ہوجاتا ہے یا اُسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
یہاں قاتلوں, لٹیروں, بدمعاشوں آور بلتکاریوں کے لئے قانون ہے؛
لیکن جو پوری کائنات کے لئے رحمت العلمین بن کے آئے آج اُس شہنشاہ ، محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم پہ گندی نالیوں میں پلنے والے پالتو جانور بھی بھونکنے لگے ہیں، ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کررہے ہیں
اور ہم اُمتی کہلانے والے ، اسٹیج اور ممبروں پہ بیٹھ کر عشق رسول کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے ، اُن کے نام مبارک پہ مگرمچھ کے آنسو بہانے والے بےحس، بےغیرت ہوچکے ہیں ۔۔۔۔۔
کہنے کو تو ہم مسلمانوں نے ہزاروں لاکھوں جماعتیں تنظیمیں بنائی ہیں؛ لیکن قسم ہے ان میں کسی ایک کی بھی اتنی اوقات اتنی جرات نہیں کہ وہ ان ملعون خبیثوں کے خلاف سڑکوں پہ اتر آئیں ۔۔۔۔۔
اپنے اپنے علاقوں میں ان رزیلوں کے نام پہ ایف آئی آر کرواتے ہوئے پولس اور قانون پہ دباؤ ڈالیں کے ان گستاخوں کو سرعام سولی پہ چڑھائے …….
جبکہ عشق رسول کے دعوے تو سبھی کرتے ہیں؛ لیکن جہاں عملا ثابت کرنے کی بات آئے تو حکمت اور صبر کی چادر اوڑھ کر اپنا اپنا پلہ جھاڑ لیا جاتا ہے …….
وہیں بھول کر بھی ایک مسلم بھائی نے کسی فرقہ مسلک سے جُڑے پیر یا مولانا کے خلاف کچھ کہہ دیا تو وبال مچ جاتا ہے , سوشل میڈیا سے لے کر زمینی سطح پہ اندھے مریدوں کی جانب سے معرکہ چھیڑ دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ ایک دوسرے پہ حملہ کرنے ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔۔۔۔ اتنا ہی نہیں کسی سیاسی جماعت کے ایک ادنی سے مسلم غیرمسلم لیڈر کے بارے میں بھی کچھ کہہ دو تو تانڈو مچا دیا جاتا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کی جارہی گستاخی دیکھ سن کر بھی مسلمان کا خون نہین کھولتا، آخر اُس کے اندر کی وہ ایمانی حرارت کہا چلی گئی ؟ کیا آج مسلمان کا خون پانی ہوچکا ہوتا ہے ؟
لعنت ہے ایسی مریدی، ایسی چمچاگری پہ، لعنت ہے ایسی بےحس، بےغیرت مردانگی پہ ۔۔۔۔۔۔۔
کیا مسلمانوں کے نزدیک عشق رسول صرف بارہویں کے جلسہ جلوس, بیانات تقاریر, تحریر اور گیارہویں کے دسترخوانوں تک محدود ہے ؟؟
آخر کہاں ہے وہ بھیڑ جو بارہ ربیع الاول کے جلوس میں عشق رسول کے نام پہ ڈسکو کی دُھن پہ ناگن ناگن کی طرح لہراتی ہے ؟
آخر کہاں ہیں وہ رہبر قوم جو عمامہ باندھے گلے میں پھولوں کے ہار پہن کر جلوس کی پہلی صفوں میں نظر آتے ہیں ،؟
آخر کہاں ہیں وہ عشق کے دعوے کرنے والے عاشقان رسول ؟
آج کیوں انہیں کچھ سنائی دکھائی نہیں دے رہا ؟
کیا آج وہ زبانین کٹ گئی ہیں؟ یا ہاتھ پیر مفلوج ہوچکے ہیں؟
یا عشق کا معیار بس اتنا ہی ہے
کہ ایک احتجاج، میمورنڈم دینے کے لئے بھی نکلیں تو اپنی اپنی تنظیم جماعت کے بینر کے نام پہ لڑ جھگڑنے لگ جائیں؟
جیسے کہ یہ کوئی بینر نہ ہو کے کفن ہو جس کو پہن کر قبر میں جانا ہو ؟؟؟
شرم آنی چاہیے ہمیں کہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاطر آپسی اختلافات کو نظرانداز کر دشمن کے آگے متحد تک نہیں ہوسکتے۔۔۔۔۔۔
جس امت کے غم میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے راتیں جاگ کر سجدوں میں گزاردیں ، بھوکے پیاسے اپنے اوپر پتھر کھائے، کتنی اذیتین برداشت کیں ، زندگی کے آخری لمحوں مین بھی امتی امتی کہتے رہے لیکن اس امت نے اپنے نبی کو اُن کی محبت اور اُن کی قربانیوں کو بھلادیا ہے، ۔۔۔۔۔
ورنہ خبیث کے بچوں کی اتنی اوقات نہیں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ انگلی تک اٹھاسکے بلکہ یہ ہماری ہی بزدلی ، دنیا پرستی ہے کہ آج یہ کمینے اپنی اوقات بھول چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور افسوس ایک جسم کہلانے والی میرے نبی کی امت اپنے پیارے نبی کے خاطر بھی متحد نہیں ہوپاتی ۔۔۔۔۔۔
شاعر نے بالکل سچ کہا ہے کہ
آج سو خداؤں کو ماننے والے ایک جگہ کھڑے ہیں
اور ایک خدا کو ماننے والے بکھرے پڑے ہیں ۔۔۔۔۔
اگر آپ میں تھوڑی بھی غیرت باقی ہے تو خدارا لب کھولیں، اپنے اپنے علاقوں میں ان خبیثوں کے خلاف ایف آئی آر کروائیں، انہیں گرفتار کرکے سخت سزا دینے کے لئے سرکار پہ دباؤ ڈالیں۔۔۔۔۔
ورنہ ایسا نہ ہو کہ این آر سی کے وقت اپنی نسلوں کی بقا کے خاطر لڑنے والی شاہین باغ کی خواتین ایک بار پھر اپنے آقا کی حرمت پہ مرمٹنے کے خاطر سڑکوں پہ اتر آئیں گی اور آپ حکمت کے نام پر اپنی غیرت کا جنازہ خود اٹھوائیں گے ۔۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا