ڈاکٹرعرفان پاشا
اسسٹنٹ پروفیسر اردو،فیصل آباد کیمپس۔
گلوبلایزیشن یاعالم گیریت بنیادی طور پر معاشیات کی اصطلاح ہے۔اس کا مقصد آزاد منڈیوں کے نظام کے ذریعے بین الاقوامی کمپنیوں کی عالمی تجارت پراجارہ داری قائم کرنا تھا۔ اس نظام کے ماتحت دنیا بھر میں صارف معاشرے کا وجود عمل میں آیا ہے۔جس کے نتیجے میںملٹی نیشنل کمپنیوں کی فرنچائز کا عالم گیر نیٹ ورک وجود میں آیا۔اس سے دنیا بھر کا سرمایہ اکٹھا ہو کر ترقی یافتہ ممالک میں جمع ہوگیا اور بین الاقوامی تجارت پر ان کی گرفت اور اجارہ داری مسلم ہوگئی ۔’’ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بارے میں جتنے بھی دعوے کیے جائیں ،جتنی بھی تاویلیں دی جائیں،ایک بات واضح ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بننے کے پس پشت اجارہ داری کا عمل کارفرما ہے۔‘‘۱یہ عمل انسانی معاشرے کی ابتدا ہی سے جاری ہے اور دوسرے علاقوں اور انسانوں کا اثرونفوذ ہمیشہ سے انسان کے ساتھ ساتھ چلا آرہا ہے۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق:
’’اجتماعی زندگی نے عوامی اداروں کو جنم دیا۔ان میں مشترکہ اور اجتماعی نظریات اور مسائل کو پیش کیا جاتا اور ان پر غور کیا جاتا ہے۔ادبی جلسے ،کنونشن،کانفرنسیں یاتہذیبی اور کلچرل پروگرام اور شواس اجتماعی نظریے کی دین ہیں‘‘۲
ہندوستان میںانگریزی راج کے دوران ہی مغربی معاشرت کا نفوذ مقامی معاشرت میں ہونے لگا تھا۔لوگ انگریزوں کی خوش نودی کی خاطر ان کی تہذیب واطوار کو بخوشی قبول کر رہے تھے اور یہاں ایک نیا طبقہ جنم لے رہا تھا جسے اینگلوانڈین قرار دیا گیا تھا۔دوعالمی جنگوں نے مغرب کو اس بات کا سبق دیا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں اس کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار کرنا ہوگا.لہٰذاانہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت تیزی سے ترقی کی اور باقی ماندہ دنیا کو اپنا دست نگر بنانے کے لیے ایک نیا انتظام کر لیا مگربرصغیر میںسیاسی ابتری اورقتل وغارت گری کے باعث نفرت میں اضافہ ہواجس کی وجہ سے یہاںامریکہ اور یورپ جیساصنعتی انقلاب رونما نہ ہو سکا جس کی وجہ سے یہ مغرب کا محتاج ہو گیا۔ اس صورت حال کو ڈاکٹر عبادت بریلوی نے یوں واضح کیا ہے:
’’ہندوستان پر بھی اس( پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی بیداری کی لہر)کے اثرات پڑے لیکن ان کی رفتار بہت مدھم تھی کیونکہ ہندوستان کی زندگی پر ابھی تک ایسے خول چڑھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے اس کی نشوونما گھٹ کر رہ گئی تھی۔وہ پھیلنا اور بڑھنا چاہتی تھی، نئی راہوں پر گامزن ہونا بھی اس کے پیش نظر تھا لیکن پیچیدہ سیاسی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے… اس کے علاوہ جویہاں کے مختلف طبقوں میں نفسا نفسی کا عالم تھا ان میں سے ہر ایک کے پیش نظر اپنے اپنے ذاتی مفاد تھے‘‘۳
تقسیم ہندوستان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم خود سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جاتے اور انگریزی باقیات کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیتے لیکن ہم ایسا نہ کر سکے اور مغرب کی سائنسی بالا دستی کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گئے جس کی وجہ سے ہمیں ان کی تقلید پر مجبور ہونا پڑا ور ہم نے ہر شعبہ زندگی میں ان کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ڈاکٹر جمیل جالبی اس ضمن میں رقم طراز ہیں کہ:
’’زندہ قومیں حالات اور زمانے کے مطابق اپنے نظام خیال پر نظر ثانی کرکے رفتہ رفتہ بدلتی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ عمل یوں ہورہا ہے کہ ہم صرف و محض آنکھیں بند کئے مغربی نظام خیال کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مغرب تین سوسال کی مسافت طے کرکے جہاں پہنچا ہے وہاں وہ خود ایسے تھکا دینے والے مسائل میں گھر گیا ہے جن سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس کی روح بے چین ہے۔‘‘۴
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری انفعالیت کی وجہ سے ہم اپنے حکم رانوں کے دست نگر ہوگئے اور وہ عالمی سرمایہ داروں کی کٹھ پتلیاں بن گئے۔آج عالمی سرمایہ دار اس قدر طاقت ور ہوگئے ہیں کہ وہ حکومتیں بنانے اور گرانے کے اہل ہیں۔وہ جنگیں کروانے اور رکوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔عوامی سطح پر اس وجہ سے مایوسی پیدا ہوجاتی ہے اورجب یکسانیت کے نام پر سب کو ایک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مقامی ثقاتوں ،مذاہب ،عقائد وغیرہ آڑے آنے لگتے ہیں۔اس کی وجہ سے تہذیبوں، معاشرتوں، عقائد،ثقافتوں،مذاہب کاتصادم شروع ہوجاتاہے۔ڈاکٹرمحمد حسن کے بقول:’’ترقی کی ناہمواری اور محرومی کا ارتکاز جو سب سے نمایاں ہوتا ہے۔صنعتی ترقی کے لازم سرمایہ دارانہ مرکزیت اور ناگزیر وحدت یاsteamrollingکی صورت میں جب بھی پورے ملک کو ایک منڈی ،ایک اجارہ ،ایک تہذیبی منطقہ،ایک لسانی اکائی اور ایک تجارتی اجارہ بنانے کی کوشش قومی یک جہتی کے مقدس نام پر کی جاتی ہے۔مذہبی اقلیتوں اور علاقائی منطقوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے اور رد عمل ہر طرح کی احیا پرستی اور فرقہ واریت یا علاقہ پرستی کی شکل میںلسانی مناقشوں کی شکل میں ظاہر ہونے لگتا ہے‘‘۵
ان تمام عوامل کاجائزہ لینے کے بعدگلوبلایزیشن کی جو صورت نکلتی ہے اس کے مطابق یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے بالادست یورپی اوربالخصوص امریکی نظام حیات کودنیا پر مسلط کرنا ہے۔گلوبلایزیشن کا مطلب یہ نہیں کہ سرحدیں ختم ہوگئیں ملک یکجا ہوگئے اور مختلف انسانی گروہ عالمی برادری میں تبدیل ہوکرصحیح معنوںمیںاولادآدم بن گئے۔اقتصادی اورسیاسی مفہوم کے تناظر میںگلوبلایزیشن دوسروں کی تنقید،کلچرز،تخلیقات وتصورات کی آزاد حیثیت کوتسلیم کرتے ہوئے ان سے اخذ واستفادہ ہے۔۶ گلوبلایزیشن نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔تبدیلی کی لہر سے کوئی ملک کوئی خطہ اور زندگی کا کوئی شعبہ پہلو تہی نہیں کر سکتا۔دور جدید میںجب ایک جگہ پر تبدیلی آتی ہے تو اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی اور اس کے اثرات ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول:
’’ہندوستان میں انگریزی کے پھیلنے کی رفتار سے براہ راست انگریزی ادب و نقد کے مطالعے کے ساتھ ساتھ تراجم کے ذریعہ سے فرانسیسی،روسی،جرمنی جیسی زبانوں کی تخلیقات،فلسفہ اور تنقیدی نظریات سے استفادے کا رجحان قوی سے قوی تر ہوتا گیا حتیٰ کہ عبدالرحمن بجنوری کی ’’محاسن کلام غالب‘‘(1921ئ)تک آتے آتے یہ حال ہوگیاکہ اگر بجنوری کی تحریر سے مغربی اہل قلم کے اسماخارج کردیں تو باقی کچھ نہیں بچتا‘‘۷
یونی ورلڈ یا یکساں کلچر کے نظام نے زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کی دور حاضر میں ہماری زندگی گلوبلایزیشن کے پھیلاؤ کی وجہ سے یکسر منقلب ہو گئی ہے۔گلوبلایزیشن کا اثر کسی معاشرے پر تین اطراف سے ہوتا ہے جن میںمعیشت،سیاست اور کلچرشامل ہیں۔
"Material exchanges localize, political exchanges internationalize and symbolic exchanges globalize.”۸
گلوبلایزیشن نے زندگی کے ہر شعبے کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ اس کی کایاکلپ کر دی ہے جس کی وجہ سے ہم آج اسی خطے میں سوسال قبل رہنے والوں سے بالکل مختلف زندگی گزار رہے ہیں۔اس انقلاب سے ہماری زندگی کا نظام ہی نہیں بدلا بلکہ ہماری سوچ اور فکر میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے چاہے کوئی اسے تسلیم کرے یا اس سے آنکھیں پھیر لے۔گلوبلایزیشن کے بارے میں لوگ تین خانوں میں بٹے ہوئے ہیں؛ایک وہ طبقہ ہے جو گلوبلایزیشن کا پرزور حامی ہے اور اسے جدید دور میں دنیا کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتا ہے جن میں لازمی طور پر یورپی اور امریکی افراد کی اکثریت شامل ہے جو اس کے سب سے بڑے مبلغ اور داعی ہیں کیوںکہ وہی اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔دوسرے نمبر پروہ لوگ ہیں جو گلوبلایزیشن کی ضرورت اور اہمیت اور اس کے پھیلاؤ کو تسلیم کرتے ہیںلیکن اس کو کچھ سوالیہ نشانوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور اس میں تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔اس گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور گلوبلایزیشن سے جزوی طورپرفیضان حاصل کر رہے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اس عمل میں ان کے عقائد نظریات اور طرز حیات کو یکسر نظرانداز نہ کیا جائے۔تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو بالکل گلوبلایزیشن کو تسلیم نہیں کرتے اور بیک جنبش قلم رد کردیتے ہیں۔ان میں روایت پسند اور قبائل کے افراد شامل ہیں جو اپنا نظام حیات بدلنے کے حق میں نہیں ہیں۔جیسا کہ Guillermo de la Dehesaکے خیال میں:
"Today, in a simplistic way there are three basic opinions on globalization: the straightforward pro-globalization one, the pro-globalization but with some question marks, and the straight anti-globalization one.” ۹
دنیا بھر میں ویسے توگلوبلایزیشن نے زندگی کے تمام شعبوں پر اپنا اثر ڈالا ہے لیکن جن شعبوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میںخوراک،لباس،تہذیب،طرز رہائش،تفریح کے ذرائع(موسیقی،فلم،اینی میشن وغیرہ)،سیاسی نظام،مذہب، ذرائع نقل وحمل او رمیڈیا،ٹیکنالوجی اور بالخصوص معیشت کے شعبے خاص طور پر قابل ذکرہیں۔ذیل میں ان شعبوں پر گلوبلایزیشن کے اثرات کا فرداًفرداً جائزہ لیا گیا ہے۔
خوراک:۔
گلوبلایزیشن کے زیر اثر دنیا بھرکی کھانے پینے کی عادات بھی بدل گئی ہیں اور دنیا بھر میں فاسٹ فوڈ کا رجحان تیزی سے مقبول ہوا ہے۔دنیا بھر میں نوجوانوں کی مرغوب ترین غذا برگر کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ جرمنی کی مقامی خوراک ہے۔ اسی طرح پیزا،سپیگیٹیز،میکرونی اور پاستا کاتعلق اٹلی سے ہے، شاشلک،منچورین اور سوپ کا تعلق چین سے ہے۔بیوریج اور کولڈ ڈرنک کوکا کولا اور پیپسی کی صورت میں امریکی پیداوار ہیں۔ لیکن یہ تمام اشیائے خورونوش اب پوری دنیا میںیکساں طورپر استعمال کی جاتی ہیں۔اسی طرح میکڈونلڈ،کے ایف سی،سب وے اور چائنیز،اطالوی، میکسیکن ریستورانوں کی شاخیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔رشین سلادبھی دنیا بھر میں سبھی لوگ شوق سے کھاتے ہیں۔اب تو پاکستان اور بھارت کے مقامی اور روایتی کھانے بھی امریکہ ،کینیڈا،برطانیہ اور بہت سے یورپی اور وسطی ایشیائی ملکوں میں مل جاتے ہیں۔
عالم گیر کھپت کو مدنظررکھتے ہوئے بین الاقوامی کمپنیوں نے پسماندہ ممالک کے کاشت کاروں کو نئی فصلیں کاشت کرنے کی بھی ترغیب دی ہے جوپہلے ان ممالک میں کاشت نہیں کی جاتی تھیں۔اس سے ان ملکوں میں زرعی نظام بھی تبدیل ہوا ہے۔مثال کے طور پراب وسطی افریقہ کے ملک برکینا فاسو میںمٹرکی کاشت شروع کی گئی ہے تاکہ پیرس کے ریستورانوں میںمٹر کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لئے برازیل اور فلوریڈا پر انحصار کم سے کم کیا جا سکے۔یہ برکینا فاسو کے لئے ایک غیر روایتی فصل ہے جو گلوبلایزیشن کے زیر اثر وہاں رواج پاگئی ہے۔غیر روایتی فصلوں کے ورود سے روایتی فصلوں کی کاشت متاثر ہوئی ہے اور روایتی نظام زراعت بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ افریقی کیلا،چلی کا انگور اور کیلی فورنیا کے سنگترے اب دنیا بھر میں کہیں بھی دستیاب ہوجاتے ہیں۔۱۰یہی حال مراکش کے ٹماٹر کا ہے جسےWTOکے قوانین کے تحت یورپ کی منڈیوں تک آزادانہ رسائی حاصل ہے لیکن کئی ایک پابندیوں کی وجہ سے وہ اپنی پیداوار صرف چھ ماہ تک ہی پہنچا سکتے ہیں۔باقی دنوں میں ان کے پاس نہ تو اپنی پیداوار کولڈ سٹوریج میں محفوظ رکھنے کا انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس پیداوار کو محفوظ رکھنے والے کیمیکلز ہیں۔اس طرح وہ آزادانہ شراکت رکھتے ہوئے بھی مجبور محض اور تجارتی اداروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔۱۱
اسی طرح دیگرممالک میںپائے جانے والے پھل مثلاًجاپانی پھل(کی)،سٹرابیری ، چیری ، پائین ایپل وغیرہ اب ہمارے روز مرہ کا حصہ ہیں حالاں کہ ہمارے بزرگوں نے شائد ان کا نام بھی نہ سنا ہوگا۔ مشینی کاشت کا نظام بھی اب دنیا بھر میں رائج ہورہا ہے اور اس سے مقامی روائتی کاشت اور اس کے تمام لوازم کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔پیکٹوں میں بند خوراک کا رواج فروغ پکڑ رہا ہے اور اس عمل کو ہمارے شاعروں نے بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔جیسے منصور آفاق کے لفظوں میں:
؎
فش اینڈ چپس سے اکتا گیا ہوں اب منصورؔ
بس ایک ذائقے کا وصل چھوڑنا ہے مجھے
۱۲
اس طرح گلوبلایزیشن نے دنیا بھر کے نظام خوراک یافوڈ کلچر کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور یہ فوڈ کلچر ساری دنیا میں یکسانیت کے ساتھ فروغ پارہاہے۔
لباس:۔
دنیا بھر کے مختلف معاشروں میںبشمول ہمارے معاشرے کے گلوبلایزیشن کی لہر کے نتیجے میں لباس کے ضمن میں بنیادی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔برطانوی سامراجیت یاکلونیل ازم کے زیر سایہ ہمارے معاشرے میں پہلے پہل کوٹ پتلون کا چلن ہوا۔شروع شروع میںیہ لباس صرف انگریز وں کے حامی اور مراعات یافتہ طبقے نے اپنایااور عمومی طور پر اس کو بہت براسمجھا گیا۔لیکن آہستہ آہستہ یہ لباس ہمارے عوام میں بھی مقبول ہونا شروع ہوگیا ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اس کو مکمل طور پر اپنا چکی ہے اور وہ اپنا مقامی لباس پہننا گوارا نہیں کرتے بلکہ اس کو رجعت پسندی کی دلیل گردانتے ہیں۔
اس کے بعد امریکہ کے اثرات بڑھنے پر ہمارے ہاں casualملبوسات یعنی جینز،ٹراؤزر اورٹی شرٹ اوراس کے بعد برمودا شارٹس کا رواج ہوگیا ہے۔اس سلسلے میں بین الاقوامی برانڈزمثلاً مارکس اینڈ سپنسر(MARKS & SPENSOR)ایڈیڈاس(ADDIDAS)نائیک(NIKE) لیوائیس (LEVIS)ارمانی(ARMANI)رالف لارین(RAULF LAURAIN) آکسفورڈ (OXFORD) بونینزا(BONANZA) اور رے بین(RAY BAN) وغیرہ کے کپڑے ،جوتے ، عینکیں،پرس،ہینڈبیگ اور دیگر ملبوسات نے بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔ہمارے ہاں ایسا کیوں ہوااس کاکھوج ڈاکٹر جمیل جالبی نے یوں لگا یا ہے:
’’ہمارے پاس خیال کا کوئی زندہ نظام باقی نہیں رہا ہے ا ور اب ہم صرف ’’مغربی‘‘بن جانے کی خواہش کے سہارے آنکھیں میچے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔اس دوڑ میں نہ منزل کا تعین اور نہ کسی سمت کا‘۱۳
آج دنیا بھر میں ایگزیکٹوز کا ڈریس کوڈ بھی یکساں ہے ۔پینٹ کوٹ اور رنگین ٹائی اس کی عالم گیر علامت سمجھی جاتی ہے۔دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والی ایگزیکٹو میٹنگ کو دیکھ کر ان کے لباس سے اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا تعلق کس ملک یا معاشرے سے ہو گا۔صرف ایران کے لوگ کالر کے بغیر شرٹ اور ٹائی سے بے نیاز ہونے کی وجہ سے اور وسطی ایشیا کے عرب ممالک کے لوگ اپنے بدوی لباس کی وجہ سے پہچانے جا سکتے ہیں۔ورنہ باقی سب لوگ دنیا بھر میں امریکن جینزکوہی اپنا پہناوا بنائے ہوئے ہیں۔منصور آفاق اس کی یوں تصویر کشی کرتے ہیں:
؎
فلم چلتی ہے مسلسل وہی اک سین پہن کر
کون عریاں ہے نگاہوں میں سیہ جین پہن کر
۱۴
تہذیب وثقافت:۔
گلوبلایزیشن کاسب سے زیادہ اور سریع اثرثقافتی سطح پر ہواہے۔عالمی سطح پربالادست طبقات کے ثقافتی مظاہر مقامی ثقافتی مظاہرکی جگہ لیتے جا رہے ہیں۔جدید الیکٹرانک میڈیا نے اس عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔ گلوبلایزیشن کے عمل میں سب سے عام ثقافتی پھیلاؤ ہے جو معاشی اور سیاسی پشت پناہی پر کیا جاتا ہے۔مزید برآں مختلف ممالک کے لوگ معلومات ،اقدار اورفنکارانہ اظہار کا تبادلہ کرتے ہیں بطور خاص جب یہ میڈیا کے ذریعے وقوع پذیر ہورہا ہوتا ہے تو یہ باور کر لیا جاتا ہے کہ یہ تبادلہ دور دراز کے علاقوں تک ہونا ممکن ہوگا۔گلوبلایزیشن کے حامی سب سے زیادہ زورمعروضیت اور ثقافت پر ہی دیتے ہیں۔میلکم واٹرز اس بارے میں رقم طراز ہیںکہ:
"They emphasise subjectivity and culture as central factors in the current acceleration of globalization processes.”۱۵
گلوبلایزیشن کے مخالفین جس پہلوپرسب سے زیادہ جزبز ہوتے ہیںوہ مقامی ثقافتوں کا انہدام ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ گلوبلایزیشن کی لہر کے نتیجے میں دنیا بھر میں ایک یکساںثقافت یا یونی کلچر کی بنیاد رکھی جارہی ہے اور اس سے دنیا بھر کے لوگوں کا طرز زندگی ایک جیسا کرنا مقصود ہے۔حالاںکہ ساری دنیا میںمکمل طور پر ایک ثقافت پیدا کرنا ممکن نہیں کیونکہ ہر علاقے کے جغرافیائی ،موسم،تہذیبی حالات اور اذہان مختلف ہوتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ یہ نظریہ ایک مثالی صورت حال کا ہے جس کامکمل طور پر حقیقی ظہورممکن نہیں۔اس کا مطلب ہے کہ عالم گیر دنیا میںپورے کرہ ارض پر ایک ہی ثقافت اور ایک ہی معاشرہ تشکیل پا جائے گا۔یہ معاشرہ اور ثقافت سب ملکوں اورلوگوں کی مشاورت اور ہم آہنگی سے تشکیل نہیں پائے گا ،جیسا کہ اسے پانا چاہیے،بلکہ اس کا رجحان واضح طور پراونچے طبقوں کی طرف رہے گاجس سے کثیر مرکزی اور ابتری پیدا ہو گی کیونکہ نہ تو ساری دنیا کے لیے ایک مرکزی حکومت بن سکے گی اور نہ ہی کوئی خاص وظائف ثقافت روبہ عمل ہوپائیں گے۔
اس حقیقت کے باوجود گلوبلایزیشن کایہ عمل بہت تیزی سے جاری ہے اور مقامی تہذیبوں کو کھائے چلا جا رہا ہے۔ہم یورپ کے طرز زندگی کی نقالی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی تہذیب بھی ہمارے ساتھ پوری طرح جڑی ہوئی ہے۔ اس طرح ہم اپنے گھروں کے دو خانے بناتے ہیں جن میں سے ایک یعنی ڈزنی لینڈ کی طرح جدیدمظاہر سے مزین اور باہر کے لوگوں کو دکھانے کے لیے ہوتا ہے جو سجا سجایا،صوفوں ،پردوں،قالینوں،فانوسوں،فواروں اور کھانے کی میزوں پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا ہنٹر لینڈکی مانندمقامی اشیا سے بھراہو ااور باہر کے لوگوں سے چھپایا جانے والا حصہ ہے جس میں فرشی دسترخوان،ٹوٹی ہوئی کرسیاں ،بان کی چارپائیاں اور اسی قبیل کی دیگر اشیا رکھی جاتی ہیں۔ہمارے گھر دو تہذیبوں کی آویزش کو بہت خوش اسلوبی سے پیش کرتے ہیں۔’’اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی،میڈیا وار،روزبروز تجارتی قدروں کی بڑھتی ہوئی سماجی حیثیت اور گلوبلایزیشن ایسے مسائل ہیںجن سے دوچار ہوکرانسان،تہذیب وثقافت اور ادب کے بارے میں بعض سوالات اٹھا رہاہے اور فکروتدبر کی یہ لہر ماضی کی نسبت بہت شدید بھی ہے‘‘۱۶ثفاقت پر گلوبلایزیشن کے اثرات کے حوالے سے سرمد صہبائی کا کہنا ہے:
’’گلوبلائزیشن کے اس معاشی انقلاب نے تین کلچر پیدا کیے ہیں:کارپریٹ کلچر، Communication CultureاورMass Culture۔کارپریٹ کلچر کے پیر وہ ملٹی نیشنل ہیں جوPopular کلچر کو رد کرتے ہوئے ایک مصنوعی Mass Culture پیدا کرتے ہیں۔جیسے پاکستانی تھیٹرمیں ہالی وڈ کے ساؤنڈ ٹریکس پر کھیلے جانے والے ڈرامے،جیسے پاپ میوزک جن کی پاکستان میںکوئی Roots نہیں لیکن جنہیں ملٹی نیشنل کمپنیاں نہائت فراخدلی سے sponsorکرتی ہیں‘‘۱۷
اس یکساں لباس کے کلچرکی ابتدا ڈیووس سے ہوئی جہاںعالمی اداروں کے ایگزیکٹوز نے ایک مشترکہ کلچر کوفروغ دیا۔ اس کے بعددوسرے نمبرپر وہ دانش ور اس نظام کو پھیلانے کا باعث بنے ہیں جو مختلف علاقوں سے آکر دنیا کے کسی ایک خطے میں جمع ہوے اور انہوں نے یکساں نظام حیات اپنایا۔تیسرے نمبر پرغیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو مختلف ملکوں میںایک ہی طرح کام کرتی ہیں اورچوتھے نمبر پر غیر ملکی تارکین وطن ہیں جو بہتر روزگار کے لیے دوسرے ملکوں میں بس گئے ہیںاور انہوں نے میزبان ملکوں کاہی کلچر اپنا لیا ہے۔مہاجرت بھی گلوبلایزیشن کا ایک بہت اہم حصہ اور مظہر ہے۔گلوبلایزیشن کی وجہ سے دوسرے نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف نقل مکانی کا رجحان بڑھا ہے اور دوسری طرف اس نقل مکانی کی وجہ سے عالم گیریت کے عمل کو مہمیز ہوئی ہے۔اس طرح یہ عمل دوطرفہ ہے۔نقل مکانی یا مہاجرت نے انسانی معاشروں کو قریب لانے اور گلوبلایزیشن کے عمل کو تیز تر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جیسا کہ Guillermo de la Dehesaکے بقول:
"Migration is an essential part of globalization
and that it has historically resulted in the fastest and most direct way to reduce inequalities between countries.”۱۸
ترک وطن یا مہاجرت کاا یک پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ مہاجرین یا تارکین وطن اپنے میزبان ملکوں کا نیا کلچر اپنانے کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنی جڑوں سے بھی وابستہ رہنا چاہتے ہیں اور اپنی نئی شناخت کے باوجود اپنے اصلی ثقافت کو مکمل طور پر بھول نہیں پاتے۔اس طرح وہ میزبان ملک میں رہتے ہوئے اپنی علاقائی تہذیب کے نمائندے بھی بن جاتے ہیں اور دوسری طرف یہی تارکین وطن جب اپنے آبائی ممالک میں واپس جاتے ہیں تو میزبان ملک کی بہت سی روایات اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔’’تلخ حقیقت تویہ ہے کہ اس وقت دنیابھر میں انتہا پسندی(کسی بھی نوعیت کی)پیدا کردہ جتنے تعصبات اوران کے نتیجہ میں جنم لینے واالی نفرت اور اس کے تلخ ثمرات جیسے تخریب کاری دہشت گردی اور تشدد ماضی کے مقابلہ میں آج کہیں زیادہ ہے۔9/11کے بعد جس تیزی سے عالمی منظر نامہ تبدیل ہوا اس کے نتیجہ میں تو اب گلوبلایزیشن کی اصطلاح بھی بے وزن نظر آتی ہے‘‘۱۹ثقافتی اتصال کی اس لہر کے نتیجے میںدنیا بھر کی تہذیبیں ایک دوسری کے قریب آ رہی ہیں بلکہ ایک دوسری میں مدغم ہورہی ہیں جس کی وجہ سے عالمی ثقافت کا ظہور ہوا ہے جس میں لباس ،خوراک زبان،رہن سہن فنون لطیفہ اور ثقافت کے دیگر مظاہر اتنے گھل مل گئے ہیں کہ کہ یوں لگتا ہے جیسے ایک ہی ثقافت دنیا بھر میں رواں دواں ہے۔میلکم واٹرزکے بقول:
"The incorporation of the entire globe within the capitalist world-system does give rise to some commonality of culture.”۲۰
اس عالمی ثقافت میں معتد بہ حصہ ان ممالک اور اقوام کا ہے جن کو عصر حاضر میں سیاسی اور سائنسی برتری حاصل ہے اور جن کا مقصد اپنی ثقافت کو تھوپ کر اپنی چیزوں کو بیچنے کے لیے منڈیوں کی تشکیل کرنا ہے۔بقول منیر نیازی:
؎
ایک ہی رخ کی اسیری خواب ہے شہروں کا اب
ان کے ماتم ایک سے ان کی براتیں ایک سی
۲۱
اس طرح یہ عمل انفرادی ثقافت،ملکی ثقافت،اور بین الاقوامی ثقافت سے ہوتا ہوا بحیثیت مجموعی انسانی ثقافت تک پہنچتا ہے جس کا منتہائے مقصودتمام انسانیت کے لیے ایک ثقافتی مرکزفراہم کرنا ہے۔واٹرز نے اس کی تشریح یوں کی ہے:
"It therefore involves the establishment of cultural, social and phenomenological linkages between four elements: the individual self, the national society, the international system of societies, and humanity in general.”۲۲
تفریح کے ذرائع(موسیقی،فلم،اینی میشن وغیرہ):۔
دنیا بھرمیں نظریات ،فیشن،سٹائل اورٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کا ایک بڑاشعبہ تفریح کے ذرائع یا انٹرٹینمنٹ بھی ہے۔ہالی وُڈ کی فلمیں دنیا بھر میںدیکھی اور چربہ کی جاتی ہیں۔ان فلموں میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے حال اور مستقبل کے حقیقی اور ماورائی مسائل اور ان کے حل کے لیے کی جانے والی مساعی کو دکھایا جاتا ہے۔سائنس اور سپیس فکشن کے ذریعے ایسے سائنسی اور خلائی خطرات اور ان سے نمٹنے کے خیالی طریقے کو دکھایا جاتا ہے۔یہ فلمیں دنیا بھر کے سینماؤں میں نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ان کے موضوعات،عکاسی کی تکنیک اور انداز کی نقل دنیا بھر میں کی جاتی ہے۔ فیچر فلموں کے بعد ہالی وڈ نے ایک نیا رخ اختیار کرتے ہوئے اینی میٹڈ یا کارٹون فلموں کا آغاز کیا جنہوں نے عوام اور خاص طور پر بچوں میں بے حد مقبولیت حاصل کی اور اب تھری ڈی فلمیں اس سے بھی ایک منزل آگے کی بات بن گئی ہے۔ آج فیچر فلموں سے زیادہ اینی میٹڈ فلمیں بزنس کر رہی ہیں۔دنیا بھر میں تفریح کے اوقات کا سب سے بڑا مصرف ٹیلی ویژن سکرین پر نظریں جمائے رکھنا ہے۔واٹرز کے بقول:
"A world so globalized…. where leisure and thrills are accessed through a video screen.”۲۳
ہالی وڈ کی دیکھا دیکھی ہندوستان نے بھی فلم کے شعبے میں بے پناہ ترقی کی ہے اوردنیا میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے والے ملک کا اعزاز حاصل کیا ہے جو سال بھر میں ایک ہزار سے زائد فلمیں مختلف زبانوں میں بناتا ہے۔ہندوستان کے فلمی شہر بمبئی کو ہالی وڈ کی مناسبت سے ’’بالی وڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح چھوٹے ملکوں کی فلم انڈسٹری پر بھی ہالی وڈ کی چھاپ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔لاہور میں پنپنے والی ہماری فلمی صنعت اسی اصول پر’’ لالی وڈ‘‘ اور ڈھاکہ میں فلم انڈسٹری ’’ڈھالی وڈ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ان ممالک نے صرف نام ہی ہالی وڈ سے مستعار نہیں لیا بلکہ فلم کی کہانیوں،سیٹ ڈیزین،میک اپ،لڑائی یا ایکشن اور عکاسی کے حوالے سے بھی ہر طرح کی ہالی وڈ تکنیک کو براہ راست چربہ کیا ہے یااس کے قدموں کے نشانوں کو اپنا رہنما تسلیم کیا ہے۔اسی طرح باقی ممالک میں بھی ہالی وڈ کی پیروی کی جاتی ہے۔اب تو ان فلموں کی عکاسی ،ساؤنڈ ریکارڈنگ،کمپیوٹرائزیشن اور دیگر فنی معاملات اور پروسیسنگ بھی دیگر ممالک میں کی جاتی ہے جس سے ایک فلم کے بنانے میں کئی ملکوں کا حصہ شامل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح موسیقی کے شعبے میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی ہے۔پاپولر یاپاپ میوزک(Pop Music) نے دنیا بھر میںمقبولیت حاصل کی ہے اور ہمارے معاشروں میں بھی ،جہاں کلاسیکی موسیقی کی گائیکی اور پسندیدگی کی طویل روایت موجود تھی،پاپ میوزک پھیل گیا ہے اور ہمارے مقامی پاپ سنگر بھی سامنے آچکے ہیں۔ اورہماری موسیقی کو بین الاقوامی موسیقی کے ساتھ کھڑا کیا ہے۔اس کے علاوہ افریقہ سے امریکہ میں پہنچنے والے جاز(Jazz) اور ریپ (Rap)نے بھی خاصی مقبولیت حاصل کی ہے ۔آج ہمارے ملک میں ریکارڈ ہونے والے بیشتر نئے گانوں میں ریپ موسیقی کو شامل کیا جاتا ہے اس کے علاوہ پرانے گانوں کو نئے آرکسٹرا کے ساتھ ری مکس کرنے اور ان میں ریپ کوشامل کرنے کا رجحان بھی تیزی سے پھیل گیاہے۔پرانے کلاسیکی گانوں کو بھی نئی موسیقی اور ریپ کے ساتھ مکس کرکے نئی شکل دی جارہی ہے۔حتیٰ کہ ہمارے کلاسیکل گلوکار جو الاپ کرتے ہیں ان کو بھی مغرب والے ریپ سمجھ کر جھومتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے گلوکار بھی دنیا بھر میں سنے اور پسند کیے جاتے ہیں۔ ممتاز گلوکار نصرت فتح علی خان اس کی سب سے اہم مثال ہیں۔ ان کے گیتوں اور قوالیوں کی زبان بے شک اہل یورپ کی سمجھ میں نہ آتی ہومگر وہ ان کے الاپ پر سر دھنتے نظر آتے ہیں۔منیر نیازی کے بقول:
؎
سارے منظر ایک جیسے ، ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سی
۲۴
سیاسی نظام:۔
بالا دست عالمی طبقے ،جس میں خاص طور پر یورپ اور امریکہ شامل ہیں،نے دنیابھرمیں جمہوریت کوپھیلانے کا عزم کر رکھا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ بین الاقوامی اداروں مثلاً اقوام متحدہ ،نیٹو اور یورپی یونین وغیرہ کو اپنے آلہ کار کو طور پر استعمال کر رہا ہے۔جمہوریت ضروری نہیں کہ ہر ملک اور خطے کے لیے یکساں مفید ہو۔دنیا کے بیشتر علاقوں میں قبائلی نظام ہزار ہا سال سے اپنی کم و بیش اصلی حالت میں جاری وساری ہے ان لوگوں پر جمہوریت مسلط کرنا شائد زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا۔اس کی مثال افغانستان،عراق،لیبیا ،مصراور شام وغیرہ ہیں جہاں امریکہ اوراتحادی ممالک نے نام نہاد جمہوریت تھوپنے کی کوشش کی ہے لیکن وہاں کے بیشتر لوگ اپنی روایات کی پاس داری کو اولیت دیتے ہیں۔اسی لیے میکلم واٹرز کہتے ہیں:
"An inter-nationalized economy is systemic to the extent that it is dominated by a political-economic hegemon.۲۵
دنیا کے طاقت ور ملک ،جوسائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت میں بھی مضبوط ہیں، کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کو قرضے دے کر اور ان کی مختلف معاملات میں مالی مدد کرکے ان کی سیاست میں دخیل ہوجاتے ہیں اور ان ملکوں میں اپنی مرضی کا نظام لانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس وجہ سے نہ صرف ان ممالک کے باشندوں کاہر طرح استحصال کیا جاتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں مسلح مزاحمت کے نتیجے میںکشت وخون کا بازار بھی گرم ہوجاتا ہے جس سے قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔اس کی تصویر نیر اقبال علوی نے اپنے افسانے ’’منزل ‘‘میں یوں دکھائی ہے:
’’دوعالمگیر جنگوں کی بربادیوں اور ہولناک تباہ کاریوںسے سبق سیکھ کر یورپی منڈی کے قیام،نیٹوکا دفاعی معاہدہ،شینگل معاہدے کے تحت ممبر ممالک میں آنے جانے کے لیے ویزوں کا خاتمہ،اپنے اپنے ملک کی سرحدوں سے کسٹم اور امیگریشن کی چیک پوسٹوں سے مسافروں کی نجات اور حال ہی میں یورپ کے سولہ ملکوں کی مشترکہ کرنسی’’یورو‘‘نے پورے براعظم یورپ کو ایک وسیع وعریض ملک کا درجہ عطا کیا ہے…انسان انسانوں کے مزید نزدیک ہوئے آپس میں اشتراک باہمی اور اعتمادو اتحاد کی فضا بحال ہوئی…اس کے برعکس ایشیاکی بدقسمتی کہ وہاں دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بجائے نفرتوں اور دشمنیوں کی دیواریں ابھی تک روز بہ روز اونچی کی جارہی ہیں‘‘۲۶
مذہب:۔
ذرائع نقل وحمل کی دستیابی کی وجہ سے لوگوں کو آسانی سے اور جلدی سے دوسروں کے قریب آنے کا موقع ملا ہے جس کی وجہ سے عالم گیراقداروانداز اور تہذیبی آویزش کا سلسلہ شروع ہو ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اطلاق مذہب پر کیا جا سکتاہے کیونکہ تہذیبیں عمومی طور پر مذاہب کا ہی سپر سٹرکچر ہوتی ہیں۔
"Religious ideas must now be understood and often reinforced by fundamentalism in relation to the religions and the secularisms of all others. The commodification and marketing of religious ideas as a set of lifestyle choices is highly advanced and thus highly de-territorialized. Ethnicities are similarly relativized, dispersed and differentiated so that the modernist link between nation, state and territory appears permanently to have been disrupted.”۲۷
عالم گیریت کا مذاہب پر بھی بہت گہر ااثر پڑا ہے اور آج دنیا کو درپیش سب سے بڑے مسئلے یعنی ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے پیچھے بھی بنیادی محرک مذہب ہی ہے۔انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق امریکہ فرانس اور جرمنی میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ یورپ اور امریکہ میں حلال اشیا کی فراہمی کا مسئلہ وہاں کی سیاست میں بھی اٹھایا گیا ہے۔ترک مسلمانوں کی بڑی تعداد برلن میں جب کہ پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد انگلستان کے صنعتی شہروں مثلاًمانچسٹر،بریڈفورڈ اور نیوکاسل وغیرہ میں آباد ہے جو ۵۰ء اور ۶۰ء کی دہائی میں ترک وطن کر کے یہاں آباد ہوگئے تھے اور اب ان کے بچے یہاں کے مستقل شہری ہیں اور ان کی پارلیمان میں بھی نمائندگی ہے۔
"Rather, under Islam for example, culture (understood as political and social values and material tastes) is enclosed by and is subordinate to religion. To the extent, then, that religion determines the moral-cultural sphere and to the extent that religions offer differential moral codes we can identify separated civilizational structures that constrain individual action.”۲۸
رومن کیتھولک چرچ دنیا بھر میں عیسائیت کی تبلیغ کا پہلا بین الاقوامی ادارہ تھا لیکن اب ایونجلی کل عیسائیت تیزی سے پھیل رہی ہے،جو خدا کے بارے میں فرد کے ذاتی تجربے کو فوقیت دیتا ہے۔یہ خاص طور پرلاطینی امریکہ اور افریقہ میں مقبول ہے۔روس امریکہ سرد جنگ کے نتیجے میں عیسائیت بھی تقسیم ہوگئی اور اس طرح اس کی دو بڑی شاخیں بن گئیں جن میں سے ایک مغربی عیسائیت جس میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ شامل تھے اور دوسری آرتھوڈوکس یا روایتی عیسائیت تھی جس کے مؤیدروسی اوریونانی مسیحی افراد ہیں۔اس کے علاوہ سکھ مذہب بھی ہندوستان سے نکل کر ساری دنیا اور بالخصوص مغربی دنیا برطانیہ ،امریکہ ،کینیڈا اور افریقی ممالک میں پھیل گیا ہے۔اسی طرح ہندو مت بھی اب صرف ہندوستان کا مذہب نہیں رہا اور مقامی سطح پر پرورش پانے والے مذاہب مثلاً جاپان کا شِنتومت اور چین کا کنفیوشس مت بھی اب مقامی نہیں رہے۔یہ عجیب بات ہے کہ ان مذاہب کے پھیلائو کے باعث دنیا کئی منطقوں میں بٹ گئی ہے اورتمام مذاہب کی جداگانہ حیثیت کے پیش نظر گلوبلایزیشن کامقصد، یعنی دنیا کو کسی ایک نقطے پر مرتکز کرنا،پورا نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی امکان نظر آتاہے۔کیوںکہ ٹونی شیراتو اور جین ویب کے بقول دنیا کو کسی نہ کسی طرح دو قطبی بنا کرآویزش میں مبتلا رکھا جاتا ہے:
"It would only have polarized the international community by setting Christianity against Islam, the north against the South, the West against the rest, and so on.”۲۹
ذرائع نقل وحمل اور میڈیا:۔
عالم گیریت کا سب سے بڑا مظہر اور اس کی سب سے بڑی وجہ تیز رفتار ذرائع نقل و حمل ہیں جن کی وجہ سے آج دنیا بھر میں کوئی دور دراز کاکونا بھی ایسا نہیں جہاں تک رسائی ممکن نہ ہو۔ان ذرائع میں ریڈیو ،ٹیلی ویژن،ٹیلی پرنٹر،فیکس،ڈش انٹینا،کیبل نیٹ ورک،کمپیوٹر ،انٹرنیٹ اور موبائل فون سب سے اہم ہیں۔میلکم واٹرزانٹر نیٹ کے بارے میںکہتے ہیں:
"The Internet provides an obvious site for exchanges of commitments and information, but the fact that the mass media can nearly instantaneously transmit images of political action across the planet enhances the impact that any political event can make.”
دنیا بھر میں سینکڑوں ہوائی کمپنیاں ہر وقت لاکھوں کی تعداد میں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچا رہی ہیں اور یہ بین البراعظمی سفر بھی ایک عام واقعہ بن گیا ہے۔
"A world so globalized that travel is a commonplace chore.”۳۰
آج دنیا کے کسی بھی ملک کے کسی چھوٹے سے مقام پر ہونے والا واقعہ بھی چند سیکنڈ میں پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ٹیلی پرنٹر،تار،فیکس اورہاٹ لائن سے ہوتی ہوئی بات انٹر نیٹ تک بلکہ اس سے بھی آگے تک پہنچ گئی ہے۔پیغامات کا تبادلہ آج سیکنڈ کی کسروں میں ہو جاتا ہے جس پر چند سال پہلے تک مہینوں صرف ہوتے تھے۔اسی طرح فیشن معلومات اورطرز زندگی میں ہونے والی تبدیلی بھی فوراً دوسرے ملکوں میں پہنچ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ متعدی بیماریاں بھی دور جدید کے تیز ذرائع نقل و حمل کی وجہ سے بہت جلد دنیا بھی میں پھیل جاتی ہیں۔ ان کی مثال ایڈز،سوائن فلو،برڈ فلو،ڈینگی بخار وغیرہ ہیںجنہوں نے گزشتہ برسوں میں دنیا کے ایک بڑے حصے کو متاثر کیا ہے۔ان بیماریوں کے وائرس بین الاقوامی نقل وحمل کی وجہ سے اپنے اصلی علاقوں سے نکل کر تیزی سے دنیا کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید مواصلات کے تمام ذرائع دنیا کے بالادست طبقے بالخصوص امریکہ کی گرفت میں ہیں جنہیں وہ اپنے نقطہ نظر سے استعمال کرتا ہے۔
"Production of and access to information; and the `concentration of ownership of global media production and transmission in the hands of a small number of (mostly American) corporations'”۳۱
منصور آفاق نے شاعرانہ انداز میں جدید دنیا میں مواصلات کے ذرائع کی اہمیت اس طرح بیان کی ہے:
؎
سورج کی چِپ میں سمٹی ہوئی اس دنیا کی
ٹیلی ویژن آنکھیں ہیں ، اخبار لباس
۳۲
سائنس اورٹیکنالوجی:۔
سائنس اور ٹیکنالوجی نے دنیا کو جادو نگری بنا دیا ہے۔ریموٹ کنٹرول اور لیزرکے ذریعے مشینوں کو کنٹرول کرنے اور خود کار نظام کی بدولت ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے دنیا کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور اب وہ دنیا کے معاشی ،سیاسی،سماجی،ثقافتی اورنفسیاتی دھاروں کو بھی ریموٹ کنٹرول سے چلا رہی ہیں۔Guillermo de la Dehesa کے بقول نئی ایجادات صنعتی اور معاشی طور پر مضبوط ملک یا ممالک کی طرف سے ہی آتی ہیں اور ان کے فوائد بھی وہی حاصل کرتے ہیںکیونکہ وہ دوسروں کو اپنا دست نگر بنا لیتے ہیں :
"Scientific discoveries always come from a certain country or group of countries, generally those with the highest levels of human capital and market size, giving such country or countries a huge productive advantage over the others, as was the case with the United Kingdom in the first Industrial Revolution or the United States in recent decades.” ۳۳
آج ان ممالک کو کسی ملک کو فتح کرنے کے لیے فوج کشی کی ضرورت نہیں بلکہ وہ یہ کام کثیرالقومی کمپنیوں کے ذریعے کر رہے ہیں اور غریب اور پسماندہ ممالک اپنی گوں ناگوں مجبوریوں اورکوتاہیوں کی وجہ سے ان کی ہر بات ماننے اور ان کی ہر معاملے میں تقلید پر مجبور ہیں۔خود ہمارے معاشرے کی صورت حال بھی یہی ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس کا تجزیہ یوں کیا ہے:
’’مغرب کی ترقی اور نظام خیال کا بنیادی مظہر مشین ہے۔ہم بھی ’’مغرب کی طرح ‘‘مشین کو اپنی زندگی میں داخل کرکے ترقی یافتہ ہو جانا چاہتے ہیں لیکن کیا یہ بات ہمیں سوچنے کی دعوت نہیں دیتی کہ روح کی موت فرد کی موت ہے اور فرد کی موت مغربی تہذیب کا سب سے بڑا المیہ ہے۔‘‘۳۴
اس محض نقالی نے ہمیںانفعالی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہم ہر معاملے میں امریکہ اور یورپ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ آئے دن نت نئی ایجادات سامنے لا رہے ہیں اور ہم صرف ان ایجادات کو استعمال کرنے پر ہی خوش ہو جاتے ہیں اور اسی کو اپنی ترقی گردانتے ہیں۔ہماراایجادات میںکوئی حصہ نہیںجس کی وجہ سے ہم صارف معاشرے میں ڈھل گئے ہیں۔اسی لیے ہماری تجارت، معیشت،زراعت ، سیاست،تعلیم،فن،صنعت وحرفت غرض سماجی زندگی کے تمام پہلو عالمی سرمایہ داری قوتوں کے دست نگر بن گئے ہیں۔
اس کے علاوہ سائنس اوررٹیکنالوجی میں جدت کی وجہ سے دنیا میں اسلحے کی دوڑ میں اضافہ ہوا ہے جس سے دنیا میں مہلک ہتھیار بنانے کی رفتار اور مقدار بہت بڑھ گئی ہے۔دنیا میں اتنے میزائل،ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بن چکے ہیں کہ ان سے چند سیکنڈ میں پوری دنیا تباہ کی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ کیمیاوی،حیاتیاتی اور جراثیمی ہتھیاروں کوبھی کافی فروغ حاصل ہو اہے جو اس دنیاکو مزیدخطرے سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔
معیشت:۔
گلوبلایزیشن بنیادی طور پر معاشیات کی اصطلاح ہے۔اس لیے اس کا سب سے اہم استعمال معیشت میں ہی ہوتا ہے۔دور حاضر میں کسی ملک کی ترقی اور اس کے نظریات کی قبولیت یا استرداد کا واحد پیمانہ اس کی معیشت ہے۔اسی طرح کاروباری دنیا میں جس کے پاس زیادہ دولت اور وسائل ہوں گے وہ ملک یا ادارہ دنیا بھر میں اپنا کاروبار پھیلا کر اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرلے گا۔ ٹونی شیراتو لکھتے ہیں:
"There is, in the economy, a shift in the proportions of material and power exchanges towards the latter. [In more substantive language, the bigger and more elaborate firms become, the more likely they are to expand their activities across the planet.]
گلوبلایزیشن کے عمل کا سب سے گہرا اثردنیا کی معیشت پر پڑا ہے۔اب دنیا بھر کے ملکوں کی معیشت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔گلوبلایزیشن کا اصل نظریہ یہ ہے:
`the ideology of rule by the world market’۳۵
آزاد تجارت کے نظریے نے اشیا ،خدمات اورسرمائے کی بین الاقوامی ترسیل کا تیز تر کر دیا ہے جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو اپنی منڈی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔اس طریق کار میں ملٹی نیشنل کمپنیاں،اقتصادی ادارے اور تجارتی معاہدے ان کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔اس عمل کے دوران یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک کے بعد ایک منڈی پر اپنا اجارہ قائم کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح کمزور حریف مارکیٹ سے آؤٹ ہوجاتے ہیں ۔جس سے دنیا بھر میں یکساں منڈی کارواج پڑتا جارہاہے اور ہر جگہ ایک سی چیزیں بلکہ ایک ہی برانڈ کی چیزیں دستیاب ہیں۔افتخار نسیم اسے یوں بیان کرتے ہیں:
؎
خریدتا ہوں کسے ، تھا غبار یک رنگی
بس ایک چیز ہی ملتی تھی سب دکانوں سے
۳۶
ملٹی نیشنل کمپنیاں مارکیٹ کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہیں اور بڑی سے بڑی رشوت دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اس طرح وہ غریب ممالک کے کمزور حکمرانوں کو اپنا دست نگر بنا لیتے ہیں اوران سے من مانے انداز میں تجارتی مراعات حاصل کر لیتے ہیں۔ایسے ہی بناؤسنگھار کا سامان بنانے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات بیچنے کے لیے ’’مس ورلڈ‘‘ اور’’ مس یونیورس‘‘ مقابلوں میں مبینہ طور پرججوںکو رشوت دے کر ایسے ممالک کی حسیناؤں کو مس ورلڈ منتخب کروا لیتے ہیں جہاں ان کی مصنوعات کی فروخت کے لیے بڑی منڈی ہاتھ لگنے کا امکان ہوتا ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میںاگرچہ تمام ممالک کو جمہوری اصول پربرابر حق رائے دہی دیا گیا ہے لیکن اس میں بھی طاقت ورملکوں اور گروپوں کی اجارہ داری ہے اور وہ مختلف حیلوں سے غریب ممالک کو چت کرکے اپنی شرائط منوا لیتے ہیں ۔
"Each nation in the WTO has one vote; but while, say,Morocco may be able to afford to send only one delegate, the United States and other powerful nations will send a battery of experts further supported by communication technology, and so will inevitably be advantaged in any negotiations.”۳۷
فارن ایکسچینج کے نظام نے دنیا کے مختلف ممالک کو ایک مالیاتی دھارے سے منسلک کردیا ہے جس کی وجہ سے ہر کرنسی ایک سٹینڈرڈائزڈ ویلیو کی حامل ہے اور اسی سٹینڈرڈائزڈ ویلیو پر ہی اس کا دوسرے ملکوں سے کاروبار اور لین دین چلتا ہے۔اس کے علاوہ دنیا کو ایک کرنے کی وجہ سے ایک ملک میں ہونے والے نقصان کا اثر دوسرے ملکوں میں بھی محسوس کیاجاتا ہے اس کی سب سے بین مثال9/11کاواقعہ ہے جس کی خبر بریک ہونے کے ساتھ ہی دنیا کے بیشتر ممالک کی سٹاک ایکسچینج منڈیاں کریش کر گئی تھیں اور امریکہ میںرونما ہونے والی اس تباہی کا اثر معاشی طور پر مشرق بعید کے ملکوں میں بھی محسوس کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے طاقت ور اور بااثر ملکوں کے حق میں ڈنڈی مارنے سے بھی مالیاتی توازن بگڑ جا تا ہے۔ائی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی طرف سے قرضہ دینے کے عمل میں بالخصوص امریکی اور بالعموم یورپی یونین کے مفادات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔اسی لئے ان اداروں کی حیثیت امریکہ اور یورپی ملکوں کی رکھیل کی سی ہو گئی ہے جو قرضوں کا جال بچھا کر غریب اور ترقی پذیر ملکوں کا خون چوس رہے ہیں اور وہاں پر سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیںجس کی وجہ ے وہاں ترقی کا انقلاب آنے کی بجائے مزید ابتری پیدا ہو رہی ہے۔عالمی مالیاتی اداروں کے لائحہ عمل کے بارے میںٹونی شیراتو (Tony Schirato)کا کہنا ہے:
"The ways in which the IMF and the World Bank, operating as de facto arms of American free-trade policies, have effectively undermined the sovereignty of developing nations.”۳۸
T