حیاتینِ حرُوف:: دربھنگہ ٹائمز

0
0

 

خورشید حیات

منصُور خُوشتر کی ادبی و صحافتی حزاقت پر مُجھے رشک آتا ہے اور روح دعائیں دیتی ہے – دعائیں جانے پہچانے / انجانے چہروں کی اندیکھی ہوتی ہے – اس صدی کو دعاؤں کی ضرورت ہے – دعا, یقین،صبر.ایک نئے تخلیقی ویژن کے ساتھ، ادب زندگی پہیوں کی رفتار بن جاتی ہے. ڈاکٹر منصور خوشتر کے حسّیاتی شعُور کی بالیدگی کو علمی و ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے – موجُودہ عالمی وبا کے ماحول میں، کسی ادبی رسالہ کا وقت پر شائع ہونا اور ماسک لگائے ڈاکیہ کا، کتب و رسائل کو گھر تک پہنچانا ۔ سُنہری تہذیب و ثقافت سے جُڑے \” ادبی رسائل حُروف \” کا کرامت لگے ہے – لیکن وبائی دنوں میں، کرامت کہاں، کدھر؟؟ وہ جن کی روح کتابوں میں بسا کرتی تھی / ہے، سانس سانس مُعنبر اور مُعتبر – شاید کہ\” وہ \” سب جانے ہے – ایک زمانہ سبزی باغ کے رحمانیہ ہوٹل کا تھا، جو کسی ادبی اڈہ سے کم نہیں تھا، ایک زمانہ اسی محلہ کے گریو یارڈ کا بھی تھا – بک امپوریم میں ادب رنگ چہروں کی بھیڑ اور آوازوں کے شور کا بھی اپنا اک تخلیقی مزاج تھا – مگر آج اس صدی میں زندگی کی جڑیں کتنی پیاسی ہو گئی ہیں – آج کتابوں کو خرید کر پڑھنے والے. مکالمہ قائم کرنے والیکون؟ منظر کتنا بدل گیا ہے؟؟ بے رنگ احساس کے اس موسم میں ڈاکٹر منصور خوشتر، کیاری کیاری لفظوں کے بیج بوتے رہتے ہیں، پھر بڑی جانفشانی سے انہیں سینچتے ہیں – بیج جب نمُو پانے ہیں تو ان کی دیکھ ریکھ میں، اپنا تن من اور دھن لگا دیتے ہیں – پھر ہوتا یہ ہے کہ ڈاکٹر منصور کا یہ شوق، جنوں رخ اختیار کر لیتا ہے – وہ صبر آزما لمحوں سے بھی یوں گزرتے ہیں کہ عقل حیران اور دل پریشان ہوتا ہے – کیونکہ وہ اور ہم سب، گزشتہ دنوں کے پَے دَرْ پَے رونما ہونے والے حادثات سے نبرد آزما ہوئے – ان کے جواں سال نسبتی بھائی اشتیاق احمد ہاشمی اور خوش دامن بائیس اپریل کو اس دار فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں – بہت بڑا غم، مگر صبر ایسا کہ جسے دیکھ کر لفظ خاموش ہو کر دعاؤں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں – منصور کا ایک دن فون آتا ہے رسالہ چھپ گیا ہے – میں دربھنگہ شہر کے اس نوجوان کے صبر اور جنوں کو دیکھ کر حیران ہوں – تم کیسے صبر کے پیالے پیتے ہو پیارے منصور! اردو رسائل کو کوئی سرکاری اشتہار نہیں ملتے اور خریدار؟؟ پھر بھی منصور، جنہیں عشق ہے اپنی زبان سے، تہذیب و ثقافت سے، وہ گھاٹے کی تجارت میں لگے ہیں – اعداد و حروف کی مخفی قوتوں سے کام لینے والے، کیا یہ بتا پائینگے کہ کووڈ انیس کے، خوف و دہشت والے ماحول سے، بہت پہلے، اردو کا قاری کہاں گم ہو گیا؟اب تو رحمانیہ اور قبرستانیہ ہوٹل سے یہی آواز سنائی دیتی ہے -\” میں تو چھورے کو ویکسین دلوا آیا رے \”ایک دوسرے سے دوری بنائے رکھنے کا ناپسندیدہ عمل آج زندگی کا حصہ بن گیا ہے – ہر چہرہ مغموم، تو کیوں نا ہم اپنی تنہائی میں حروف غذا کو حیاتین / وٹامن سمجھیں -قوت مدافعت پر خود سے دھیان دیتے ہوئے ادب قبیلہ کو، اپنے لکھنے والوں کو، کالے کوے کی طرح شہروں سے غائب ہوتے جا رہے قارئین کو واپس لانا ہوگا – کیسے، خود سے سوال کیجئے جواب مل جائے گا – دربھنگہ ٹائمز کا تازہ شمارہ اپریل تا جون دو ہزار اکیس حروف غذا کی طرح میرے ڈائننگ ٹیبل پر ہے – تین سو سے زائد صفحات کے اس شمارہ کے سرورق پر مناظر عاشق ہرگانوی اور مشرف عالم ذوقی کی تصویر ہے – نئے بیانیہ طریق کار کا موجد،کہانی کے باغیانہ تیور کے دو بھیگے ہوئے لفظ مشرف عالم کا اس طرح چلے جانا اور پھر تبسم فاطمہ.، تم نے ٹھیک ہی کہا تھا رومانی / مشرف \” محبت زندگی کو با معنی بنا دیتی ہے \” – مناظر عاشق کی سی عالمی شہرت یافتہ شخصیت، ڈھائی سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف مخلص اور ملنسار انسان دوست، بلکہ یہ دو \” م \” دربھنگہ تائمز کے ابتدائی دنوں سے، اپنے تعاون اور مفید مشوروں سے نوازتے رہے – ان کا اس طرح چلے جانا کسی اذیت ناک لمحے سے کم نہیں – وبا کی تیز آندھی میں ادب کی دنیا سمٹ گئی ہے – سلطان اختر، مولا بخش، شمیم حنفی، ترنم ریاض، افتخار امام صدیقی،شوکت حیات،سید رضا حیدر، ممتاز احمد خان،، مولانا وحید الدین خان، رتن سنگھ، وجاہت فاروقی، فرقان سنبھلی، ایم اے حق اور کئی اہم نام کا اس دار فانی سے رخصت ہونا اردو ادب / تہذیب کا ایک عظیم نقصان ہے – سماعت بھی ان سناٹوں میں آج بھی آوازوں کو ڈھونڈتی ہے – آپ کی اپنی بات بہت ہی فکر انگیز اور بھیگا بھیگا لہجہ لیے منفرد ہے – اس شمارہ میں پروفیسر عبد المنان طرزی کے منظوم مقالے، مولانا ولی رحمانی اور پروفیسر محمد ظفر الدین پر ہیں – وہیں مضامین میں احمد سہیل، شارب ردولوی، منور رانا،مشرف عالم ذوقی، مناظر عاشق ہرگانوی،صادقہ نواب سحر، اسلم جمشید پوری زر نگار یاسمین، نذیر فتح پوری،ضیا فاروقی، احسان عالم، ڈاکٹر رشید جہاں انور، غلام نبی کمار، عبد الحئی، ڈاکٹر امتیاز عالم ، انوار الحسن وسطوی،اور بھی کئی اہم نام کے علاوہ باب افسانہ بھی بہت اہم ہے. سبھی کہانیاں، قصہ گوئی کے احساس کو ساتھ لئے، اسالیب کی نئی کروٹوں کو بھی نمایاں کرتی ہیں – نئی کتابوں پر تبصروں کے علاوہ وہ سب کچھ اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب ہے -جس سے کسی رسالہ کو اعتبار ملتا ہے – اس شمارہ کی قیمقت دو سو پچاس روپے ہے – کتاب ہے تو زندگی ہے اور زندگی ہے تو کتاب ہے – کتب و رسائل خرید کر پڑھئے – ڈاکٹر منصور خوشتر، ڈاکٹر کامران غنی صبا ،غلام نبی کمار اور اس ادارہ سے جڑے تمام چہروں کو مبارکباد۔—————-

mob 6263331924

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا