منظور سمسھال
کسی بھی انسانی معاشرے میں غربت کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ معاشی تگ و دو کے میدان میں غربت کسی معاشرے کے کچھ افراد کے دوسروں سے پیچھے رہ جانے کے نتیجے میں طبعی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ غربت کی حقیقت پسندانہ تعبیر کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انسان عقل وفہم کی دولت سے مالامال ہے۔ لہٰذا کوئی انسان اپنی خوشی اور فہمائش سے غربت کے چنگل میں ہرگز نہیں پھنسنا چاہتا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں بسنے والے اوسط افراد کی ہر ممکنہ کوشش ہوتی ہے کہ انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات باآسانی میسر آسکیں اور اس طرح وہ اپنی ناگزیر ضروریات کی تکمیل سے مستفید ہوسکیں۔یہ سوال یقینا اہم ہے کہ اگر انسان واقعی ایک شعوری مخلوق ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ کسی معاشرے میں بسنے والے کچھ لوگ اپنی اعلیٰ شعوری کاوشوں کے باوجود ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں ۔ایک لمحے کیلئے خود اپنے گرد وپیش اور اپنے معاشرے ہی کا جائزہ لے لیجئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آبادی کا ایک خطیر حصہ کارزارِ حیات میں اپنی بھرپور مساعی کے باوجود غربت کی لکیر سے نیچے ہے نہ صرف یہ بلکہ ہمارے ماضی وحال کی حکومتیں یکے بعد دیگرے اپنے تمام تر وسائل کے باوجود عوام کو تعلیم، صحت، رہائش اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہی ہیں۔ ہمارے موجودہ حالات متقاضی ہیں کہ ہم اِس اہم ترین سوال پر غور کریں کہ مِن حیث القوم ہم غریب کیوں ہیں؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ غربت کے ہیجانات نے ہماری اِجتماعی تخلیقیت کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ یہاں تک کہ خود ہمارے اندر انسانوں کا ایک جمِ عفیر صرف بقائے حیات کی مشینی تگ و دو تک محدود ہو کے رہ گیا ہے۔غربت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ بتاتا ہے کہ لوگوں کی غربت پر قابو پانے کی انفرادی کوششیں اکثر دور رس ثابت نہیں ہوتیں بلکہ ایسی کوششوں کے نتیجے میں اکثر وبیشتر اجتماعی وسائل کا ضیاع واقعہ ہوتا ہے۔ کسی معاشرے میں اجتماعی سطح پر تعلیم، صحت، رہائش اور خوراک وغیرہ سے متعلق مہیا کردہ سہولیات عموماً انہیں استعمال کرنے والوں کی نسبت محدود ہوتی ہیں، جبکہ اِنہی سہولیاتِ زندگی کی چھینا جھپٹی معاشرے میں ان کی منصفانہ تقسیم میں سدِ راہ ثابت ہوتی ہے۔ جزوقتی انفرادی فوائد کے حصول کے نتیجے میں واقع ہونے والے اجتماعی بگاڑ کی ایک اہم مثال ہمارے معاشرے میں آبادی کی تیزتر شرحِ افزائش اور اس کے نتیجے میں معاشی ترقی کی دن بدن سکڑتی ہوئی شرحِ نمو ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور روزافزوں غربت کا تعلق متعدد بین الاقوامی عداد وشمار سے ظاہر ہے۔ تاہم ہمارے ہاں بقائے زیست کی بے لگام جستجو زیادہ بچوں کے حامل بڑے خاندان کو پرکشش بناتی ہے جس کا ایک فوری متوقع فائدہ محض اِتنا ہے کہ اس سے پیٹ بھرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ ہاتھوں کی کمائی میسر آسکتی ہے، گویا ہمارے ہاں لوگ کھانے کیلئے زندہ رہتے ہیں نہ کہ زندہ رہنے کیلئے کھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا ایک اضافی مسئلہ یہ بھی ہے ہمارے لوگوں میں خاص وعام کی تخصیص کے بغیر ہر شخص اجتماعی سہولیات مثلاً ذرائع مواصلات، تعلیمی اداروں اور توانائی کے وسائل سے بھرپور فائدہ تو اُٹھانا چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی اِن وسائل کی متواتر فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا حصہ ڈالنے سے بھی گریزاں نظر آتا ہے۔ بغیر محنت یا بدوں معاوضہ کھانے کی عادت ہماری موجودہ خستہ حالی کی ایک بڑی وجہ ہے جسے غربت کی معاشیات میں کا نام دیا جاتا ہے۔ملکِ عزیز میں غربت کا تدارک یقینا مسائل کے حقیقت پسندانہ حل کا متقاضی ہے۔ سب سے بڑھ کے حکومت کو عوامی شعور میں اضافے کی سعی کرنی چاہئے تاکہ لوگوں کی اپنے نِجی و اِنفرادی اور اِجتماعی مفادات میں تطبیق کی صلاحیت میں اضافہ ممکن ہو سکے۔ ملک میں منصفانہ ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ طبقہِ امرا سے اِکٹھا کیا جانے والا پیسہ اِجتماعی ضروریات کی تکمیل اور عوامی معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے کام آ سکے۔ ہمارے اربابِ اختیار کی فلاحی سہولیات کی فراہمی میں دلچسپی سے حکومت پر عوامی اعتماد کی بحالی میں کافی مدد ملے گی، جس سے آئندہ ٹیکسوں کی وصولی اور حجم میں کہیں زیادہ اضافہ متوقع ہوگا۔عورتوں سے متعلق ہمارے معاشرتی روئیے اور رجحانات اکثر رجعت پسندی کا شکار رہے ہیں۔ زندگی کا اسلوب بدلنے کیلئے رویوں میں مثبت تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں۔ انہی مثبت رویوں کی ایک اہم مثال عورتوں کو فیصلہ سازی میں بااختیار بنانا اور بالخصوص ان کی تعلیم سے متعلق ہمارے رجحانات ہیں جن کی شرحِ افزائش پر مثبت اثرات دنیا کے متعدد ممالک کے تجربے سے ظاہر ہیں۔ تعلیم ہی کے مؤجب انسانی شعور میں اضافہ ممکن ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے فروغ سے ہماری عورتوں میں احساسِ ذات کو تقویت ملے گی اور اچھی صحت اور نشونما سے متعلق ان کے شعور میں اضافہ ہوگا جس کی بدولت ہمارے لئے آئندہ بہتر نسلوں کا حصول ممکن ہو سکے گا۔